فرخ منظور
لائبریرین
کس لیے پینے کو مانگیں بادہ و پیمانہ ہم
ہوگئے بدمست ساقی دیکھ کر میخانہ ہم
کیوں کہیں اپنے کو سوزِ عشق سے بیگانہ ہم
تم جلاؤ ہم جلیں تم شمع ہو پروانہ ہم
کچھ دنوں صحرا بہ صحرا اب اڑائیں خاک بھی
مدتوں پھرتے رہے ویرانہ در ویرانہ ہم
وہ جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں فرماتے رہیں
لیکن اپنے کو کہیں کس واسطے دیوانہ ہم
اس قدر بھر جائے پی کر جس قدر خالی کریں
چاہتے ہیں کوئی اس ترکیب کا پیمانہ ہم
اس طرح احساسِ آدابِ مقامی اٹھ گیا
بزم میں بلبل بنے گل زار میں پراونہ ہم
سربسجدہ کیوں نہ ہوتے اپنے دل کے سامنے
سن چکے تھے واقعاتِ کعبہ و بتخانہ ہم
قبلِ اظہارِ محبت دل طلب کرتے ہیں آپ
جرم سرزد ہو، نہ دے دیں گے مگر جرمانہ ہم
محفلِ ساقی کے چکر بے سبب ہوتے نہیں
ڈھونڈتے رہتے ہیں اپنے نام کا پیمانہ ہم
آرزوئیں چند نکلیں حسرتیں چند آگئیں
خانۂ دل کو سمجھتے ہیں مسافر خانہ ہم
بزمِ سوز و ساز میں یہ بھی ہے دل سوزی کوئی
سینکڑوں پروانے جل جائیں کریں پروا نہ ہم
مے کدے میں ہرگھڑی ساغر چھلکتا ہی رہے
جان لیں کیوں اس کو اپنی عمر کا پیمانہ ہم
جان بھی اب ان کو دے دیں دل تو پہلے دے چکے
کیا کریں اس کے سوا اے ہمتِ مردانہ ہم
حسنِ مطلق کا نشاں کعبے میں تو ملتا نہیں
احتیاطاً آؤ چل کر دیکھ لیں بت خانہ ہم
اور کیا پیرِ مغاں دیتا سخاوت کا ثبوت
پاگئے خُم مے کدے میں مانگ کر پیمانہ ہم
اس طرح سمجھا رہے ہیں وہ ہمیں آدابِ عشق
جیسے ہوں بالکل ہی ان اسرار سے بے گانہ ہم
گل بدامن ہے چمن، ساغر بکف ہرشاخِ گل
کیوں نہ ایسے میں کریں اک نعرۂ مستانہ ہم
کشمکش دیر و حرم کی کس سے جھیلی جائے گی
ہے یہی بہتر کہ رکھیں مشربِ رندانہ ہم
دل کسی کو سونپ کر کیا دل کا غم اب کیجیے
لے چکے سودائے دل اور دے چکے بیعانہ ہم
عمر بھر دریائے ذوق وشوق میں بہتے رہے
نوحؔ اس طوفان سے رکھتے نہ کیوں یارانہ ہم
(نوحؔ ناروی)
ہوگئے بدمست ساقی دیکھ کر میخانہ ہم
کیوں کہیں اپنے کو سوزِ عشق سے بیگانہ ہم
تم جلاؤ ہم جلیں تم شمع ہو پروانہ ہم
کچھ دنوں صحرا بہ صحرا اب اڑائیں خاک بھی
مدتوں پھرتے رہے ویرانہ در ویرانہ ہم
وہ جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں فرماتے رہیں
لیکن اپنے کو کہیں کس واسطے دیوانہ ہم
اس قدر بھر جائے پی کر جس قدر خالی کریں
چاہتے ہیں کوئی اس ترکیب کا پیمانہ ہم
اس طرح احساسِ آدابِ مقامی اٹھ گیا
بزم میں بلبل بنے گل زار میں پراونہ ہم
سربسجدہ کیوں نہ ہوتے اپنے دل کے سامنے
سن چکے تھے واقعاتِ کعبہ و بتخانہ ہم
قبلِ اظہارِ محبت دل طلب کرتے ہیں آپ
جرم سرزد ہو، نہ دے دیں گے مگر جرمانہ ہم
محفلِ ساقی کے چکر بے سبب ہوتے نہیں
ڈھونڈتے رہتے ہیں اپنے نام کا پیمانہ ہم
آرزوئیں چند نکلیں حسرتیں چند آگئیں
خانۂ دل کو سمجھتے ہیں مسافر خانہ ہم
بزمِ سوز و ساز میں یہ بھی ہے دل سوزی کوئی
سینکڑوں پروانے جل جائیں کریں پروا نہ ہم
مے کدے میں ہرگھڑی ساغر چھلکتا ہی رہے
جان لیں کیوں اس کو اپنی عمر کا پیمانہ ہم
جان بھی اب ان کو دے دیں دل تو پہلے دے چکے
کیا کریں اس کے سوا اے ہمتِ مردانہ ہم
حسنِ مطلق کا نشاں کعبے میں تو ملتا نہیں
احتیاطاً آؤ چل کر دیکھ لیں بت خانہ ہم
اور کیا پیرِ مغاں دیتا سخاوت کا ثبوت
پاگئے خُم مے کدے میں مانگ کر پیمانہ ہم
اس طرح سمجھا رہے ہیں وہ ہمیں آدابِ عشق
جیسے ہوں بالکل ہی ان اسرار سے بے گانہ ہم
گل بدامن ہے چمن، ساغر بکف ہرشاخِ گل
کیوں نہ ایسے میں کریں اک نعرۂ مستانہ ہم
کشمکش دیر و حرم کی کس سے جھیلی جائے گی
ہے یہی بہتر کہ رکھیں مشربِ رندانہ ہم
دل کسی کو سونپ کر کیا دل کا غم اب کیجیے
لے چکے سودائے دل اور دے چکے بیعانہ ہم
عمر بھر دریائے ذوق وشوق میں بہتے رہے
نوحؔ اس طوفان سے رکھتے نہ کیوں یارانہ ہم
(نوحؔ ناروی)
آخری تدوین: