علی وقار
محفلین
پھر بھی بیٹھی ہے خزاں باغ کی دیوار کے ساتھ
جبکہ پتاّ بھی نہیں ہے کوئی اشجار کے ساتھ
کچھ تعلق تو نہیں تھا مرا بیمار کے ساتھ
پھر بھی دل ڈوب گیا شام کے آثار کے ساتھ
کس نے چمکایا ہے سورج مری دیوار کے ساتھ
صبح ہوتی ہے مری تو ، ترے دیدار کے ساتھ
ایک ہے میری انا ، ایک انا کس کی ہے
کس نے دیوار بنا دی مری دیوار کے ساتھ
تم بڑے لوگ ہو ، سیدھے ہی گزر جاتے ہو
ورنہ کچھ تنگ سی گلیاں بھی ہیں بازار کے ساتھ
مستقل درد کا سودا ہے، ذرا نرمی سے
کچھ رعایت بھی تو کرتے ہیں خریدار کے ساتھ
مرے اشکوں پہ تجھے اتنا تعجب کیوں ہے
تُو نے چشمے نہیں دیکھے کبھی کہسار کے ساتھ؟
اب تو میں صرف " تعلق" کے عوض بیٹھا ہوں
اب تو " سایہ" بھی نہیں ہے تری دیوار کے ساتھ
میرے شہکار کو اس پیار سے تکنے والے
کوئی فنکار کا رشتہ بھی شہکار کے ساتھ
میں نے پہچان لیا دور سے، گھر تیرا ہے
پھول لپٹے ہوئے دیکھے جہاں دیوار کے ساتھ
لفظ نشتر کی طرح دل میں اتر جاتے ہیں
خط محبت کا بھی لکھتا ہے وہ تلوار کے ساتھ
کوئی فنکار کی تنہائی کی جانب نہ گیا
لوگ جا جا کے لپٹتے رہے شہکار کے ساتھ
جبکہ پتاّ بھی نہیں ہے کوئی اشجار کے ساتھ
کچھ تعلق تو نہیں تھا مرا بیمار کے ساتھ
پھر بھی دل ڈوب گیا شام کے آثار کے ساتھ
کس نے چمکایا ہے سورج مری دیوار کے ساتھ
صبح ہوتی ہے مری تو ، ترے دیدار کے ساتھ
ایک ہے میری انا ، ایک انا کس کی ہے
کس نے دیوار بنا دی مری دیوار کے ساتھ
تم بڑے لوگ ہو ، سیدھے ہی گزر جاتے ہو
ورنہ کچھ تنگ سی گلیاں بھی ہیں بازار کے ساتھ
مستقل درد کا سودا ہے، ذرا نرمی سے
کچھ رعایت بھی تو کرتے ہیں خریدار کے ساتھ
مرے اشکوں پہ تجھے اتنا تعجب کیوں ہے
تُو نے چشمے نہیں دیکھے کبھی کہسار کے ساتھ؟
اب تو میں صرف " تعلق" کے عوض بیٹھا ہوں
اب تو " سایہ" بھی نہیں ہے تری دیوار کے ساتھ
میرے شہکار کو اس پیار سے تکنے والے
کوئی فنکار کا رشتہ بھی شہکار کے ساتھ
میں نے پہچان لیا دور سے، گھر تیرا ہے
پھول لپٹے ہوئے دیکھے جہاں دیوار کے ساتھ
لفظ نشتر کی طرح دل میں اتر جاتے ہیں
خط محبت کا بھی لکھتا ہے وہ تلوار کے ساتھ
کوئی فنکار کی تنہائی کی جانب نہ گیا
لوگ جا جا کے لپٹتے رہے شہکار کے ساتھ