کس کو دنیا میں غم نہیں ہوتا
شور میرا ہی کم نہیں ہوتا
تیری گلیوں کو چھوڑ جاؤں میں
خود پہ ایسا ستم نہیں ہوتا
کیا مصیبت ہے اُس وصال کے وقت
اپنے سینے میں دم نہیں ہوتا
خون تک آنکھ سے بہا دو، مگر
دل کا دامن ہے نم نہیں ہوتا
خوش ہوں صاحبؔ میں چوٹ کھا کر بھی
سب کی قسمت میں غم نہیں ہوتا
میں ہی میں خود کو میں پکاروں گا
ہم فقیروں سے "ہم" نہیں ہوتا
عمر لگتی ہے جاں سے جانے میں
"حادثہ ایک دم نہیں ہوتا"
نومبر 26 ، 2014