کشتی ِ دین ِ خدا کے نا خدا شبیر ہیں

کشتی ِ دین ِ خدا کے نا خدا شبیر ہیں
تابع ِ مرضی ِ حق، حق کی رضا شبیر ہیں

شمع ِ حق ، جانِ نبی، شان ِ وِلا شبیر ہیں
اصل میں وجہ ِ بنائے لا الہ شبیر ہیں

وارث ِ دین ِ محمد ، فاتح ِ کرب و بلا
پیکر ِ جود و سخا، لطف و عطا شبیر ہیں

صاف آ جائیں نظر جس میں نقوش ِ زندگی
گلشن ِ ہستی میں وہ اک آئینہ شبیر ہیں

آ رہی ہے عزم ِ ابراہیم کی اب تک صدا
صبر و تسلیم و رضا کی انتہا شبیر ہیں

فکر ِ انسانی کے پر جل جائیں جا کر جس جگہ
عالم ِ عرفان میں وہ ابتدا شبیر ہیں

لغزشیں دم توڑ بیٹھیں آ کے جس کے سامنے
وہ ثبات و عزم اور وہ حوصلہ شبیر ہیں

جو بدل دے آن میں عنوان ہائے زندگی
نقطہ بیں، نقطہ بیاں، وہ زاویہ شبیر ہیں

مشکلیں آتی ہیں در پر با سر ِ تسلیم خم
رہنما، مشکلکشا و لا فتیٰ شبیر ہیں

چھوڑ کر دامان ِ ابن ِ مرتضیٰ جائیں کدھر
قاسم ِ جنت امام ِ دوسرا شبیر ہیں

از محمد، تا محمد، تا بہ محشر تا خدا
جوڑ دے اِن سب سے جو ، وہ سلسلہ شبیر ہیں

روزِ محشر کا بھلا کیوں خوف ہو نقوی تجھے
تیرے رہبر ہیں محمد، رہنما شبیر ہیں

ذوالفقار نقوی​
 
Top