ام اویس

محفلین
یار زید ! دادی کا انتقال ہوگیا ہے”۔ عبد الکریم نے خشک جھاڑیوں پر ٹانگیں پھیلائے، درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھے زید کےساتھ گرنے کے انداز میں بیٹھتے ہوئےکہا:
”کل ظہر کے بعد جنازہ ہے۔”

“کیا میں ان کا چہرہ بھی نہیں دیکھ پاؤں گا؟ چل نا چلتے ہیں، رات کے آخری پہر ، بس چہرہ دیکھ کر واپس لوٹ آئیں گے۔” زید نے بھیگی نگاہیں اٹھائیں اور دلگیر آواز میں بولا:

“نہیں بھائی! بہت خطرہ ہے، وادی کی ساری پولیس چوکنی ہے اور سارے راستوں پر فوجیوں کا پہرہ، وہ ہمارے لیے جال بچھائے بیٹھے ہوں گے، یوں بھی جنت میں ملاقات ہوگی نا ! اب اس ملاقات میں زیادہ وقت نہیں رہ گیا۔” عبد الکریم نے آنسو بھری آواز میں ہنستے ہوئے کہا: اور سر پر بندھے رومال کے پلے سے آنکھیں پونچھنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔
زید خاموش ہوگیا اور کھلی آنکھوں سے جنگل سے دور ہری بھری جنت نظیر وادی میں پہنچ گیا۔ سب سے الگ تھلگ پہاڑی پر موجود اس کے گھر کا آنگن ، جہاں دادا کی تیز آواز گونج رہی تھی۔ “کوئی ضرورت نہیں کسی کو بھی گھر سے باہر قدم رکھنے کی،”یہ گھر ایک قلعہ کی طرح محفوظ ہے، یہاں سبزی پھل، اناج، دودھ سب کچھ موجود ہے، بچوں کو بھی میں خود پڑھا لوں گا،باہر جو ہو رہا ہے ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔”

“ لیکن ہندوؤں کو سروکار ہے نا! وہ ہمیں یہاں کسی صورت برداشت نہیں کریں گے، ہمیں آزادی چاہیے، آزاد ملک، آزاد دھرتی، آزاد فضا جہاں ہم الله تعالی کے قانون کے سائے میں اسلامی احکام کے مطابق زندگی گزار سکیں، ہم صدیوں سے ڈوگروں کے ظلم سہتے رہے، انگریزوں کے بعد اب ہندوؤں کی غلامی میں نہیں جی سکتے۔” دادی نے صاف اور بلند آواز میں دادا کو جواب دیا:

“تمہاری انہی باتوں کی وجہ سے میرا عبد الرحیم اپنی جان سے گیا اور سالوں سے قاسم جیل کی سختیاں برداشت کر رہا ہے اور عبد الله پردیس میں دھکے کھا رہا ہے، میں اس بڑھاپے میں ان سے جدائی کو محض اپنے پوتے پوتیوں کی حفاظت کے لیے صبر سے برداشت کر رہا ہوں، اور تم انہیں دن رات آزادی کی پٹیاں پڑھاتی اور جھوٹے سچے خواب سناتی ہو۔” دادا نے شکستہ آواز میں جواب دیا:

“ دیکھیے صاحب ! یہ ہندو نہ تو ہمارا دین باقی رہنے دیں گے، نہ دنیا، یا تو ہمارے بچوں کو دین چھوڑ کر ہندو بننا پڑے گا یا پھر اسلام اور آزاد وطن کی خاطر اپنی جان و مال کا نذرانہ دینا پڑے گا، یہ طوفان اب نہیں رکے گا، حالات جس طرف جا رہے ہیں ہمیں سب کچھ چھوڑ کر دشمن کے خلاف کھڑا ہونا پڑے گا۔”

“ہم یہاں محفوظ ہیں” ، دادا کی آواز آئی: “اگر تم ان بچوں کو دن رات آزادی کا سبق نہ دو تو”

“صلی الله علی محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم ، پاک سر زمین، یا الله پاک سر زمین” دادی نے اپنا وظیفہ شروع کر دیا: اب تسبیح مکمل ہونے سے پہلے وہ کسی بات کا جواب نہیں دیں گی، سب جانتے تھے اس لیے دادا خاموش ہوگئے۔
۔۔۔۔۔
“کس سوچ میں گُم ہو؟”عبد الکریم نے اس کا گھٹنہ ہلاتے ہوئے کہا: دادی نے اپنی زندگی آزاد وطن کی خواہش میں گزار دی، اپنی ساری اولاد سے جدائی برداشت کی اور اب اس وقت اس کے جنازے کو کندھا دینے کے لیے کوئی اپنا پاس نہیں، نہ کوئی بیٹا، نہ کوئی پوتا ، بیٹی اور بہو بھی جیل کی مشقت جھیل رہی ہے۔ آخر کب تک ہم قربانیاں دیتے رہیں گے ، کب آزاد سر زمین کو دیکھیں گے، کب ہندوؤں کے ظلم و جبر سے آزاد ہوں گے؟”

“آزادی خون مانگتی ہے۔ بھول گئے دادی کہتی تھیں ہمیں ہر محاذ پر لڑنا ہے، اپنی جان و مال کی پرواہ کیے بغیر اپنی جوانیاں وار دینی ہیں۔ تم فکر نہ کرو! ایک دن ہماری قربانیاں رنگ لائیں گی۔ اور لاشوں پر لپیٹنے والا سبز پرچم ہمارے سروں پر لہرائے گا۔ ان شاء الله!” عبد الکریم نے جوش و جذبے سے لبریز آواز میں کہا:

“چل پھر چلتے ہیں دادی کے جنازے کو کندھا دینے، دادی کے گیارہ پوتوں میں سے صرف ہم ہی یہاں ہیں ، کچھ اپنے خون کا نذرانہ دے چکے، کچھ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور کچھ پردیس میں مسئلہ کشمیر کی آگ جلائے بیٹھے ہیں۔ “

“یہ کپڑے تو بدل لو! جانتے ہو مودی سرکار کشمیریوں کے بدن سے آزادی کا جذبہ کھینچنے کے لیے ان کے جسموں پر کشمیر کی ذرا سی پہچان بھی برداشت نہیں کر سکتی۔”عبد الکریم نے ہار مانتے ہوئے کہا:

“ہاں ! جین اور جیکٹ پہن لیتے ہیں۔”زید نے کہا:

کماندار کے منع کرنے کے باوجود دونوں دادی کی محبت میں، ہر مصلحت کو پس پشت ڈالتے ہوئے آدھی رات کو منہ سر چھپائے جنگل سے وادی کی طرف چل پڑے۔
۔۔۔۔۔
ہر سڑک پر ناکہ لگا تھااور وہ دونوں پکے رستوں سے ہٹ کر انسانی درندوں سے بچتے جنگل کے جانوروں کو خاطر میں نہ لاتے گھر کی جانب اڑے جارہے تھے۔ آخر جنگل کے درختوں اور جھاڑ جھنکار نے ساتھ چھوڑ دیا، سامنے کھلا میدان تھا اور اس پار پہاڑی کے اوپر قدیم خاندانی گھر کی شکستہ دیواریں اپنے مکینوں کی منتظر تھیں۔ سامنے دیکھتے عبدالکریم کی نظروں کے سامنے اس گھر کے درو دیوار نہیں بلکہ اپنے باپ اور دو بڑے بھائیوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں تھیں ، جنہیں دیکھ کر دادا کی آنکھیں خشک تھیں، مگر لب پر لا الہ الا الله ، پاک سرزمین یا الله کی گونج کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔

اس واقعے کے بعد دادا زیادہ دیر نہ رہے مگر جب تک زندہ رہے یہی تسبیح کرتے رہے اور دادی آنسو پونچھتیں ، لب سئیے انہیں دیکھتی رہتیں۔
۔۔۔۔
دور ایک چمک سی لہرائی ۔ وہ دونوں چونک گئے۔ شاید کسی بھارتی فوجی کی سنگین سے روشنی منعکس ہوئی تھی۔ دونوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے بات کی ، پھر نہایت ہوشیاری اور چابک دستی سے سانپ کی طرح رینگتے ہوئے آگے بڑھے۔ ایک ٹیلے کے قریب پہنچ کر انہوں نے مورچہ جمایا اور جس جگہ چمک نظر آئی تھی ، فائرنگ شروع کر دی، ایک دم وہاں ہڑبونگ مچ گئی۔چیخ و پکار سے معلوم ہوتا تھا کہ اس اچانک حملے نے فوجیوں کو بدحواس کردیا ہے اور ان میں سے کئی ایک گولیوں کا نشانہ بن گئے ہیں۔
فائرنگ کے بعد انہوں نے دو دستی بم پھینکے اور اس کے دھوئیں کی آڑ میں واپس روانہ ہو گئے۔ انہیں اطمینان تھا کہ خوف زدہ بھارتی سپاہیوں کے سنبھلنے اور تعاقب میں آنے سے پہلے وہ ان کی پہنچ سے دور جا چکے ہوں گے۔
وہ دونوں مطمئن تھے کہ بے شک وہ دادی کے جنازے کو کندھا نہیں دے سکے، لیکن انہوں نے اپنی عظیم دادی کو سلامی پیش کر دی تھی۔
نزہت وسیم ۔
 

ام اویس

محفلین
C8-CAA6-AF-E3-E1-46-F1-B271-D1-A201-B56559.jpg
 
Top