ابن توقیر
محفلین
وادی نیلم سے گزرتے شاردہ کے آگے پیچھے کہیں گاڑی خراب ہوگئی۔ایک مقامی آدمی کے تعاون سے گاڑی کو دیکھنے لگے تب سیاہ جوڑے میں ایک ننھی سی پری بھاگتے ہوئے پاس آئی اور بولی:
"چاچو سیب کھانے ہیں؟" حیرت سے اُسے دیکھا اور اثبات میں سر ہلادیا۔
وہ ہاتھ پکڑے روڈ کی دوسری سائیڈ پر لگے باغ میں لے گئی اور اچھل اچھل کر سیب اتارنے لگی۔تب میں نے بے ساختہ کہا:
"بیٹا لوگ تو باغ سے پھل توڑنے پر برا مناتے ہیں جب کہ آپ خود ہی ہمیں پھل توڑ کر دے رہی ہیں۔"
ننھی سی گڑیا مسکرائی اور کہنے لگی:
"چاچو،یہ درخت میرے ابو نے لگائے تھے اور کہا تھا کہ جو بھی یہاں سے گزرے پھل توڑ کر کھا سکتا ہے۔کسی مسافر کو منع نہ کیا جائے۔"
"بیٹا آپ کے ابو۔۔۔"
"جی وہ فوت ہوگئے ہیں۔"
چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں آنسوں لیے آگے بڑھتے ہوئے یقین آگیا کہ انسانیت ابھی بھی زندہ ہے۔
کشمیر سے واپسی پر اس واقعے کو اپنے پیج پر لکھا تھا وہاں سے یہاں تحریر کررہا ہوں۔
ا۔ت
آخری تدوین: