طارق شاہ
محفلین
غزل
کشور ناہیؔد
نہ کوئی ربط، بجُز خامشی و نفرت کے
مِلیں گے اب تو خلاصے یہی محبّت کے
مَیں قیدِ جِسم میں رُسوا، تُو قید میں میری
بَدن پہ داغ لیے قیدِ بے صعوبت کے
عجیب بات، گریباں پہ ہاتھ اُن کا ہے
جو، توشہ گیرِ تمنّا تھےحرفِ غیرت کے
بس اب تو حرفِ ندامت کو ثبتِ دائم دے
صَبا صفت تھے رسالے غَمِ محبّت کے
دُعا سے تزکیۂ نفس تک سفر ہے بہت
لباس بدلوگے کتنے بھی اب ضرورت کے
سیہ سفید کے مالک کو فرقِ رنگ سے کیا
پڑے نہ اُس پہ بھی صدمے کبھی ہزیمت کے
زمامِ کارِ جہاں کِس کے ہاتھ ہے یا رب!
بدل گئے ہیں تقاضے بھی آدمیّت کے
زمانہ درپئے آزار ہے تو کیا ناہیدؔ !
بِکھرتے آئے ہیں موتی سدا مشقّت کے