محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
اچھا ! کوشش کرتے ہیں۔
شاکر بھائی! زیادتی کیسے ہوئی؟ سمجھا نہیں۔بہت خوبصور کلام ہے ۔۔۔ کتاب کے تائٹل پر ۔۔۔ ۔۔ حضرت مجذوب کو ﹶحافظ عصر،، کا تائٹل دیا گیا ہے جوکہ زیادتی ہے
بہت شکریہ سیدی!
اللہ آپ کو خوش رکھے
اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلے حافظ شیرازی کے مقام و مرتبہ کو سمجھنا ہوگا۔۔۔ انکے ادبی اور شاعرانہ مقام و مرتبہ پیش نظر رکھنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر زبان و موضوعات کے اعتبار سے یکسانیت کو دیکھتے ہوئے کسی کو عصر حاضر کا حافظ قرار دینا ہوگا۔۔۔ اگر یہ بات سمجھ میں آگئی تو زیادتی والی بات خود بخود سمجھ میں آجائے گیشاکر بھائی! زیادتی کیسے ہوئی؟ سمجھا نہیں۔
اصغر علی شاہ جعفری مترجم دیوان حافظ کے دیباچہ سے اقتباسخواجہ حافظ شیرازی کے دیوان کے بہت سے تراجم مختلف زبانوں میں پہلے بھی شائع ہوچکے ہيں۔ ان ترااجم کو زیادہ تر پزیرآئی پاکستان اور بھارت کے ادب پسند اور سخن حضرات نے بخشی ہر مترجم نے اپنے اپنے مخصوص انداز میں ترجمہ کیااور ترجمے کے ساتھ انہوں نے اپنی فہم کے مطابق تشریحات کو بھی قاری حضرات کی تواضع کے لئے بیان کیا اگرچہ دنیا کی مختلف زبانوں یعنی پنجابی انگریزی ہندی فرانسیسی جرمنی ترکی اور عربی وغیرہ میں کلام حافظ کے تراجم شائع ہوچکے ہیں لیکن برصغیر پاک ہند میں زیادہ تر پذیرائی اردو ترجموں کو حاصل ہوئی ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کلام حافظ کا ترجمہ کرنا دل و دماغ کا ہی کام نہيں بلکہ دل گردے کابھی کٹھن کام ہے ۔ حافظ کا کلام نہ صرف قاری کی نس نس پر اثر کرتاہے بلکہ دل کو توانائی اور دماغ کو وسعت بخشتا ہے مافوق العادہ مافوق الفطرت مافوق ال بشریت جزبات و احساسات سے دوچار کرتاہے اور انسان کو روحانیت و جدانیت او بشاشیت کی کیفیات سے بھی مستفیض کرتا ہے ۔ حافظ کا کلام پڑھنے والے حضرات چاہے ان کاتعلق مجلس عشاق مجازی سے ہو یا محفل عشاق حقیقی سے وہ سب کلام حافظ سے یکساں مسرور ہوتے ہيں۔ اور وسیع و عظیم معانی حاصل کرتے ہيں۔ روحانی دیناکی سیر کرتے ہيں اور لطف اندواز ہوتے ہيں اپنے بختوں کے فیصلے سن لیتے ہيں دوسرے لفظوں میں حافظ کا کلام ایک نعمت خداوندی ہے جس سے عشق مجازی اور عشق حقیقی میں گرفتار حضرات یکساں طور پر مستفید ہوتے ہیں۔ قسمت کا فیصلہ سننے کے لئے فال حاصل کرتے ہيں۔
مکرمی و محترمی شاکرالقادری صاحب۔۔۔!اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلے حافظ شیرازی کے مقام و مرتبہ کو سمجھنا ہوگا۔۔۔ انکے ادبی اور شاعرانہ مقام و مرتبہ پیش نظر رکھنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر زبان و موضوعات کے اعتبار سے یکسانیت کو دیکھتے ہوئے کسی کو عصر حاضر کا حافظ قرار دینا ہوگا۔۔۔ اگر یہ بات سمجھ میں آگئی تو زیادتی والی بات خود بخود سمجھ میں آجائے گی
بالکل صحیح۔مکرمی و محترمی شاکرالقادری صاحب۔۔۔ !
بندہ آپ کی خدمت عرض پرداز ہے کہ حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے علمی و ادبی مقام و مرتبہ کو دیکھتے ہوئے انہیں حافظِ عصر کا خطاب دیا گیا ہے۔۔۔ آپ شائد خواجہ صاحب کے مقام و مرتبہ سے ناواقف ہیں اس لیے آپ کو ایسا لکھنا زیادتی محسوس ہوئی۔۔۔ !
بھائی شاکر! حافظ شیرازی کے علمی و ادبی مرتبے سے مجھے انکار نہیں، لیکن حضرت مجذوب رحمہ اللہ کو حافظ عصر کا لقب متقدمین و متاخرین علماء کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ آل انڈیا شاعر حضرت جگر مراد آبادی رحمہ اللہ جو حضرت ہی کی برکت سے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی خانقاہ میں تائب ہوئے تھے، حضرت مجذوب کو شعر گوئی میں اپنا استاد تسلیم کرتے تھے۔ اکثر اشعار پر چونک جایا کرتے تھے۔ ایک کثیر تعداد میں جلیل القدر علماء اور شعراء کا حضرت کو اس خطاب سے نوازنا احقر کے خیال میں تو کوئی زیادتی نہیں۔ البتہ ہمارا منکر ہوجانا میری نظر میں ضرور زیادتی ہے۔اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلے حافظ شیرازی کے مقام و مرتبہ کو سمجھنا ہوگا۔۔۔ انکے ادبی اور شاعرانہ مقام و مرتبہ پیش نظر رکھنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر زبان و موضوعات کے اعتبار سے یکسانیت کو دیکھتے ہوئے کسی کو عصر حاضر کا حافظ قرار دینا ہوگا۔۔۔ اگر یہ بات سمجھ میں آگئی تو زیادتی والی بات خود بخود سمجھ میں آجائے گی
کیا جگر مراد آبادی کے علاوہ ان علما اور شعرا کی فہرست مل سکتی ہے جنہوں نے حصرت کو اس خطاب سے نوازا ۔۔۔ اور یہ متقدمین کون ہیں اور متاخرین کون کون سے ہیں؟بھائی شاکر! حافظ شیرازی کے علمی و ادبی مرتبے سے مجھے انکار نہیں، لیکن حضرت مجذوب رحمہ اللہ کو حافظ عصر کا لقب متقدمین و متاخرین علماء کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ آل انڈیا شاعر حضرت جگر مراد آبادی رحمہ اللہ جو حضرت ہی کی برکت سے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی خانقاہ میں تائب ہوئے تھے، حضرت مجذوب کو شعر گوئی میں اپنا استاد تسلیم کرتے تھے۔ اکثر اشعار پر چونک جایا کرتے تھے۔ ایک کثیر تعداد میں جلیل القدر علماء اور شعراء کا حضرت کو اس خطاب سے نوازنا احقر کے خیال میں تو کوئی زیادتی نہیں۔ البتہ ہمارا منکر ہوجانا میری نظر میں ضرور زیادتی ہے۔
متلاشی! لگتا ہے میں نے یہاں کوئی بات کر کے جرم کر دیا ہے۔۔ مجھے حصرت مجذوب کے علمی مقام سے ذرہ بھر انکار نہیںمکرمی و محترمی شاکرالقادری صاحب۔۔۔ !
بندہ آپ کی خدمت عرض پرداز ہے کہ حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے علمی و ادبی مقام و مرتبہ کو دیکھتے ہوئے انہیں حافظِ عصر کا خطاب دیا گیا ہے۔۔۔ آپ شائد خواجہ صاحب کے مقام و مرتبہ سے ناواقف ہیں اس لیے آپ کو ایسا لکھنا زیادتی محسوس ہوئی۔۔۔ !
مولانا انعام الرحمن تھانوی رحمہ اللہ نے کتاب کے پیشِ لفظ میں لکھا ہے کہ" ایک زمانہ میں آپ کو رسالہ "المفتی" دیوبند میں "حافظ عصر" لکھا جاتا رہا۔ وہ واقعی "حافظ عصر" تھے۔ اردو میں لسان الغیب کے متبع نظر آتے تھے۔ ان کے یہاں معرفت و حقیقت کے رموز اور حال و قال کے وہ بلند ترین مرقعے موجود ہیں جن سے ان کو اردو میں "حافظ" کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔کیا جگر مراد آبادی کے علاوہ ان علما اور شعرا کی فہرست مل سکتی ہے جنہوں نے حصرت کو اس خطاب سے نوازا ۔۔۔ اور یہ متقدمین کون ہیں اور متاخرین کون کون سے ہیں؟
حافظ شیرازی کے متعلق تو ہمیں یہ معلوم ہے کہ جب اقبال نے اپنی مثنوی میں دس بارہ شعر حافظ کے خلاف لکھے تو پورے بر صغیر میں احتجاج کی لہر دوڑ گئی اور علامہ اقبال جیسی بڑی شخصیت کو اپنی مثنوی سے یہ اشعار خارج کرنا پڑے ۔۔۔ حافظ شیرازی کے دیوان کے تراجم دنیا بھر کی دسیوں نہیں بیسیوں زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں اور ۷۹۱ ہجری میں وفات پانے والا حافظ شیرازی آج بھی ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔کسی مدرسہ و خانقاہ کی کوئی بڑی لائبریری ایسی نہیں جہاں دیوان حافظ موجود نہ ہو۔۔ حافظ صرف ایران افغانستان وسط ایشیا اور بر صغیر میں ہی مشہور نہیں بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہے۔اور حافظ کو تو لسان الغیب کا ترجمان بھی جانا جاتا ہے ۔۔ دیوان حافظ سے فال لی جاتی ہے۔۔
باقی جو جس کے جی میں آئے کرے۔۔۔ ہمیں کیا ہم نے تو اپنی رائے دینا تھی دیدی
کل کو کوئی سعدیٔ عصر بن جائے۔۔۔ ۔۔ یا رومی زمانہ کا لقب اختیار کرلے ۔۔۔ ۔ اور اپنے علما کی اور مشائخ کی کیا بات ہے وہ تو ہم روزانہ دیکھتے ہیں مختلف سٹیجوں پر سٹیج سیکٹری علما کو بلاتے وقت القابات کا جو انبار لگاتے ہیں اور علمائے کرام ان القابات کو سن سن کر پھولے نہیں سماتے اسی طرح مشائخ کے مریدین اپنے اپنے مشائخ کو ان ان القابات سے نوازتے ہیں کہ الحفیظ و الامان۔۔۔
عبد الرحمن اس قدر مفصل جواب سے مکرمی شاکر القادری صاحب کو نوازنے کا شکریہ ۔۔۔!مولانا انعام الرحمن تھانوی رحمہ اللہ نے کتاب کے پیشِ لفظ میں لکھا ہے کہ" ایک زمانہ میں آپ کو رسالہ "المفتی" دیوبند میں "حافظ عصر" لکھا جاتا رہا۔ وہ واقعی "حافظ عصر" تھے۔ اردو میں لسان الغیب کے متبع نظر آتے تھے۔ ان کے یہاں معرفت و حقیقت کے رموز اور حال و قال کے وہ بلند ترین مرقعے موجود ہیں جن سے ان کو اردو میں "حافظ" کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔
حضرت خواجہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے بعض مضامین دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حافظ شیرازی سے ان کو گہری مناسبت ہے۔ خود ایک شعر میں فرماتے ہیں:
عندلیب بوستانِ راز ہوں
ہم نوائے بلبلِ شیراز ہوں"
عبارت طویل ہے اختصار سے کام لیا ہے۔ اس تفصیل کو بیان کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ ایک موقر جریدہ جس کو پڑھنے والے علماء، ادباء اور شعراء ہوں کا کبھی اس لقب پر اعتراض نہ کرنا میرے خیال میں تو اعتراف ہی سمجھا جائے گا۔ پھر عہدِ حاضر میں بھی کبھی کسی صاحبِ علم سے اس بارے میں کوئی اشکال نہیں سنا۔ چناچہ متقدمین اور متاخرین کا مسئلہ تو حل ہوا۔ دوم یہ کہ آپ نے حافظ شیرازی کے اس لقب کے مستحق ہونے کے حوالے سے کچھ دلائل دیے ہیں کہ علامہ اقبال نے اپنی مثنوی میں ترمیم کی، بیسیوں زبانوں میں حضرت کے دیوان کا ترجمہ ہوا، فال لی جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان دلائل کے حوالے سے چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔
پہلی یہ کہ آپ شاید یہ سمجھے ہیں کہ میں حافظ شیرازی کی مخالفت میں بات کررہا ہوں یا میری نظر میں وہ کوئی غیراہم شخصیت ہیں۔ حالاں کہ ایسی بات نہیں ہے۔ اگر ایسا کچھ ہوتا تو میں دونوں شعراءِ عظام کے درمیان مناسبت کو کیوں نقل کرتا؟ دوسری بات یہ کہ عرض صرف اتنی ہے اور جیسا کہ آپ نے خود بھی لکھا حافظ ۷۹۱ ہجری میں فوت ہوئے اور حضرت مجذوب تیرہ سو تریسٹھ ھجری کو دنیا سے رخصت ہوئے۔ گویا کہ دونوں بزرگوں کے درمیان قریبا چھہ سو سال کا فاصلہ ہے۔ تو اب کیا یہ ضروری ہے کہ دنیا میں ایک خطاب اگر کسی کو ایک مرتبہ مل گیا تو بعد میں کوئی دوسرا اس کا امیدوار نہیں بن سکتا؟ کیا ایک لقب رہتی دنیا تک صرف ایک ہی فرد کے ساتھ خاص ہے؟ حضرت حافظ شیرازی اپنے وقت کے حافظ عصر تھے اور حضرت مجذوب اپنے وقت کے۔ اس بات کو مزید وضاحت سے سمجھنے کے لیے یہ مثال بھی دی جاسکتی ہے کہ قیامِ پاکستان سے قبل حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمتہ اللہ علیہ کو شیخ الاسلام کے لقب سے نوازا گیا اور اب حضرت مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم علماء کی متفقہ رائے سے اس خطاب کے حق دار قرار پائے۔ اسی طرح شیخ العرب و العجم تقسیمِ ہند سے پہلے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمتہ اللہ علیہ کو سمجھا جاتا تھا۔ اور عہدِ حاضر میں عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو یہ اعزاز عطا ہوا۔ اتنی مفصل عرضی اس لیے پیش کردی تاکہ آپ بندہ اور متلاشی بھائی سے اپنی ناراضگی ختم فرمائے.
آپ نے "القابات اور علماء" کے حوالے سے ایک مستقل پیراگراف لکھا. سچ عرض کروں تو مجھے یہ بند پڑھ کر کافی تکلیف ہوئی. جمعہ کی تقریر میں ایک معروف عالمِ دین فرمارہے تھے "بیٹا جتنا بھی نافرمان ہو باپ کبھی اس کی برائی باہر والے سے نہیں کرے گا گھر میں ہی اس کو سدھارنے کی کوشش کرے گا. ہمارے اندر بھی اگر کچھ کمی پائی جائے تودعا کیجے پرچار نہیں." پھر یہ کہ آج کے شیخ الاسلام اور مفتی اعظم سے کبھی مل کر اس بات کا تذکرہ کریں تو روپڑیں گے کہ کہاں ہم اور کہاں یہ انعام و اکرام؟ بس اللہ ہی کی دین ہے. رہی بات مریدین اور عوام الناس کی کہ وہ القابات کے ڈھیر لگادیتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کی اس نعمت پر خوشی سے پھولے نہ سمانا کوئی بری بات تو نہیں. البتہ دل میں خود کو ہر ایک سے کمترہی سمجھنا چاہیے.
متلاشی بھائی کو آپ نے لکھا کہ شاید میں نے اپنی رائے کا اظہار کرکے کوئی جرم کردیا. مجھے بھی ایسا ہی کچھ لکھا. اس بارے میں عرض کرنا چاہوں گا کہ عزیزی! آپ نے کوئی جرم نہیں کیا. رائے کے اظہار میں جرم کیسا؟ میں تو اس کو کوئی مباحثہ کا نام دینے سے بھی ڈرتا ہوں. یہ تو بس چند دوستوں کا آپس میں تبادلہ خیال ہورہا ہے. لیکن پھر بھی اگر کوئی بات ناگوار گزری ہوتو میں اپنی اور متلاشی بھائی کی طرف سے آپ سے معافی چاہتا ہوں. متلاشی بھائی! بغیر اجازت آپ کی طرف سے معذرت پر آپ سے بھی معذرت. شاکر بھائی! امید ہے درگز فرمائیں گے. جزاکم اللہ خیرا.
اور میں بھی۔عبد الرحمن اس قدر مفصل جواب سے مکرمی شاکر القادری صاحب کو نوازنے کا شکریہ ۔۔۔ !
میری بھی کوئی بات انہیں اگر بری محسوس ہوئی ہو تو معافی کا خواستگار ہوں۔۔۔ ۔!
نہیں محترمی! ہمارا کوئی اختلاف نہیں۔ بس یوں ہی ہم ایک دوسرے سے اپنی معلومات کا تبادلہ کررہے ہیں۔ اللہ بہت خوش رکھے آپ کو اور ہمیشہ اپنی مرضیات پر چلائے آمین۔جزاک اللہ ۔۔۔ ۔ وہ بس میری رائے تھی جس سے اختلاف کا آپ کو حق پہنچتا ہے
رائے کے صائب ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں لوگ فیصلہ خود کر لیا کرتے ہیں
شکریہ آپ کا