محسن وقار علی
محفلین
آدھی رات کا وقت تھا۔ میں قبرستان میں پرانی قبروں سے کھوپڑیاں تلاش کر رہا تھا۔ پرانی قبروں سے کھوپڑیاں چرانا میرا روز کا معمول نہیں ہے۔ میں صرف الیکشن کے موسم میں کھوپڑیاں چرانے قبرستان آتا ہوں۔ میرا روز کا معمول کچھ اور ہے۔ میں پولیس کی طرف سے عدالتوں میں جھوٹی گواہی دیتا ہوں۔ مہنگائی کے اس دور میں ایک ذریعے سے ملنے والی آمدنی سے آپ چولھا تو جلا سکتے ہیں لیکن جلتے ہوئے چولھے کی آگ سے آپ پیٹ کا دوزخ ٹھنڈا نہیں کر سکتے۔ چولھے پر پکانے کے لئے کچھ برتن اور دال، چاول کی ضرورت پڑتی ہے اس لئے چولھے پر کچھ پکانے کیلئے مجھے دو ایک چھوٹے موٹے کام کرنے پڑتے ہیں۔ پولیس کی طرف سے عدالتوں میں جھوٹی گواہی دینے اور مخبری کرنے کے علاوہ میں ایک ستّر سالہ سنیاسی باوا کے یہاں کام کرتا ہوں۔ سنیاسی باوا تعویز گنڈے کرنے کے علاوہ بھوت پریت اور جن اپنے قبضے میں رکھتا ہے، کالے جادو پر اس کی دسترس ہے۔ وہ مٹی، روئی اور کپڑوں کی فتیلوں سے پتلے بنا کر ان میں سوئیاں چبھو کر مجھے دیتا ہے اور میں وہ پتلے قبرستان میں الگ الگ جگہوں پر زمین میں گاڑ کر آتا ہوں۔ پتلے اور جگہ جہاں وہ گڑھے ہوئے ہوتے ہیں اس کا پورا پورا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ کالے جادو کے وہم میں گرفتار جب کوئی مت کا مارا ہوا سنیاسی باوا کے ہاں آتا ہے تب سنیاسی باوا کی بتائی ہوئی جگہ سے کھود کر پتلا نکالنے کے بعد سنیاسی باوا کا معتقد بن جاتا ہے۔
انتخابات کے موسم میں رات کے وقت ستّر سالہ سنیاسی باوا کے ہاں جانے پہچانے سائنس دان ان سے ملنے آتے ہیں۔ ایسے میں سنیاسی باوا کو کھوپڑیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک مرتبہ ملک کے مشہور سائنس دان مولا جٹ مستانے کو ایک کھوپڑی دکھاتے ہوئے سنیاسی باوا نے کہا تھا ”مولا جٹ مستانے یہ کھوپڑی انتخابات میں آپ کے مدمقابل سجن بے پروا متوالے کی کھوپڑی ہے“۔
”کیا بات کرتے ہو سنیاسی باوا!“ مولا جٹ مستانے نے کہا ”کل شام میں نے سجن بے پروا کو سڑکوں پر نعرے لگاتے دیکھا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا، جو ہم سے ٹکرائے گا، ضمانت ضبط کرائے گا“۔
”وہ کل کی بات ہے مولاجٹ مستانے“۔ سنیاسی باوا نے کہا ”یہ جو کھوپڑی تمہارے سامنے میز پر رکھی ہوئی ہے، سجن بے پروا متوالے کی ہے“۔
مولا جٹ مستانے نے پوچھا ”یہ کیسے ممکن ہے؟“ سنیاسی باوا نے کہا ”میرے جن سب کچھ ممکن کر سکتے ہیں“۔
”تو کیا؟“مولا جٹ مستانے پوچھا ”آپ کے جنوں نے سجن بے پروا کو مار ڈالا؟“
”میرے جن ایسی فاش غلطی کبھی نہیں کرتے“۔ ستّر سالہ سنیاسی باوا نے کہا ”اگر میرے جن سجن بے پروا کو مار ڈالتے تو وہ شہید کہلوانے میں آتا۔ لوگوں کی ہمدردیاں بٹورنے کے بعد سجن بے پروا کی بیوی پاکستان کی پہلی خاتون صدر بن جاتی جو کہ تمہارے حق میں اچھا نہ ہوتا بلکہ ملک کے حق میں بھی اچھا نہ ہوتا“۔
مولا جٹ نے پوچھا ”میز پر رکھی ہوئی یہ کھوپڑی اگر سجن بے پروا کی ہے تو پھر سجن بے پروا کے کندھوں پر کس کی کھوپڑی ہے؟“
سنیاسی باوا نے کہا ”سجن بے پروا کے کندھوں پر اس بدنصیب کی کھوپڑی ہے جو اس ملک میں کبھی الیکشن جیت نہیں سکتا، ہار اس کا مقدر بن چکی ہے“۔
مولا جٹ نے پوچھا ”کون ہے وہ بدنصیب؟“
سنیاسی باوا نے مسکراتے ہوتے کہا ”غریب عوام، عرف اللہ سائیں کا آدمی“۔
پیر سائیں کھٹپٹ شاہ کا شمار سندھ کے نمبر ٹو یعنی چھوٹے پیر سائیوں میں ہوتا ہے۔ پیر سائیں کے مریدوں کی اتنی تعداد نہیں ہے کہ ان کے ووٹوں کے بل بوتے پر قومی یا صوبائی اسمبلی تک جا پہنچے۔ یہ اعزاز صرف سندھ کے چیدہ چیدہ پیر سائیوں کو حاصل ہے جن کے ووٹ بینک میں لاکھوں اَن پڑھ، آگاہی سے محروم، افلاس کی چکّی میں پسے ہوئے عقیدت مند سیونگ اکاؤنٹ میں پشت در پشت فکسڈ پڑے ہوئے ہیں۔ پیر سائیں کھٹپٹ شاہ نے سنیاسی باوا سے کہا ”میں نے ایک پارٹی کے صدر کو پانچ کروڑ روپے دیئے لیکن الیکشن لڑنے کا ٹکٹ انہوں نے کسی اور کو دے دیا“۔
سنیاسی باوا نے میز پر رکھی ہوئی کھوپڑی پر چھڑی گھماتے ہوئے جنتر منتر پڑھ کر پھونکا۔ کھوپڑی کے منہ، ناک اور دونوں کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ سنیاسی باوا نے کہا ”فلاں پارٹی کے صدر کو تم سات کروڑ روپے دو، وہ تمہیں انتخابات لڑنے کیلئے پارٹی ٹکٹ دے دے گا“۔
پیر سائیں کھٹپٹ شاہ چلا گیا۔ کچھ روز کے بعد روتی صورت لے کر لوٹ آیا، کہنے لگا ”اس پارٹی کے صدر کو میں نے سات کروڑ روپے دیئے لیکن انہوں نے مجھے ٹکٹ نہیں دیا“۔
سنیاسی باوا نے جنتر منتر پڑھ کر کھوپڑی پر پھونکا۔ کھوپڑی کے منہ، ناک اور دونوں کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ سنیاسی باوا نے کہا ”دوسرے کسی امیدوار نے اس پارٹی کے صدر کو آٹھ کروڑ روپے دیئے تھے۔ اس مرتبہ تم اس پارٹی کے صدر کو دس کروڑ دو، ہو سکے تو بارہ کروڑ دو۔ وہ الیکشن لڑنے کیلئے صرف تمہیں ٹکٹ دے گا“۔
پیر سائیں کھٹپٹ شاہ گیا تو پھر کبھی لوٹ کر نہ آیا۔ ایک روز میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کی زیارت کرنے گیا۔ زائرین کے جوتے سنبھالنے والے کو دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ وہ پیر سائیں کھٹپٹ شاہ تھا۔ پتہ چلا کہ پارٹی ٹکٹ کیلئے بولی بڑھاتے بڑھاتے اس نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا لیکن اس پارٹی کے صدر نے الیکشن لڑنے کا ٹکٹ سردار ستم خان ظلمانی کو دیا۔ سردار ستم خان ظلمانی اسلام آباد کے بے تاج بادشاہوں اور عرب شہزادوں کی مہمان داری میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں قبرستان سے کھوپڑیاں کیوں چرا رہا تھا۔ پرانی قبروں سے میں نے ابھی تین چار کھوپڑیاں نکالی تھیں کہ بڑی بڑی گاڑیوں کے ر کنے کی آواز آئی۔ میں دبک کر ایک قبر کے پیچھے چھپ گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک پارٹی کے بیس، تیس مسٹنڈے دندناتے ہوئے قبرستان میں داخل ہوئے۔ ایک کبڑا ان کی رہنمائی کر رہا تھا،کبڑے نے اپنے ساتھیوں سے کہا ”نگراں حکومت آنے سے پہلے مردوں کے جتنے کفن چرا سکتے ہو چرا لو۔ یہ پارٹی کا فیصلہ ہے اور اس فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا“۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
انتخابات کے موسم میں رات کے وقت ستّر سالہ سنیاسی باوا کے ہاں جانے پہچانے سائنس دان ان سے ملنے آتے ہیں۔ ایسے میں سنیاسی باوا کو کھوپڑیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک مرتبہ ملک کے مشہور سائنس دان مولا جٹ مستانے کو ایک کھوپڑی دکھاتے ہوئے سنیاسی باوا نے کہا تھا ”مولا جٹ مستانے یہ کھوپڑی انتخابات میں آپ کے مدمقابل سجن بے پروا متوالے کی کھوپڑی ہے“۔
”کیا بات کرتے ہو سنیاسی باوا!“ مولا جٹ مستانے نے کہا ”کل شام میں نے سجن بے پروا کو سڑکوں پر نعرے لگاتے دیکھا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا، جو ہم سے ٹکرائے گا، ضمانت ضبط کرائے گا“۔
”وہ کل کی بات ہے مولاجٹ مستانے“۔ سنیاسی باوا نے کہا ”یہ جو کھوپڑی تمہارے سامنے میز پر رکھی ہوئی ہے، سجن بے پروا متوالے کی ہے“۔
مولا جٹ مستانے نے پوچھا ”یہ کیسے ممکن ہے؟“ سنیاسی باوا نے کہا ”میرے جن سب کچھ ممکن کر سکتے ہیں“۔
”تو کیا؟“مولا جٹ مستانے پوچھا ”آپ کے جنوں نے سجن بے پروا کو مار ڈالا؟“
”میرے جن ایسی فاش غلطی کبھی نہیں کرتے“۔ ستّر سالہ سنیاسی باوا نے کہا ”اگر میرے جن سجن بے پروا کو مار ڈالتے تو وہ شہید کہلوانے میں آتا۔ لوگوں کی ہمدردیاں بٹورنے کے بعد سجن بے پروا کی بیوی پاکستان کی پہلی خاتون صدر بن جاتی جو کہ تمہارے حق میں اچھا نہ ہوتا بلکہ ملک کے حق میں بھی اچھا نہ ہوتا“۔
مولا جٹ نے پوچھا ”میز پر رکھی ہوئی یہ کھوپڑی اگر سجن بے پروا کی ہے تو پھر سجن بے پروا کے کندھوں پر کس کی کھوپڑی ہے؟“
سنیاسی باوا نے کہا ”سجن بے پروا کے کندھوں پر اس بدنصیب کی کھوپڑی ہے جو اس ملک میں کبھی الیکشن جیت نہیں سکتا، ہار اس کا مقدر بن چکی ہے“۔
مولا جٹ نے پوچھا ”کون ہے وہ بدنصیب؟“
سنیاسی باوا نے مسکراتے ہوتے کہا ”غریب عوام، عرف اللہ سائیں کا آدمی“۔
پیر سائیں کھٹپٹ شاہ کا شمار سندھ کے نمبر ٹو یعنی چھوٹے پیر سائیوں میں ہوتا ہے۔ پیر سائیں کے مریدوں کی اتنی تعداد نہیں ہے کہ ان کے ووٹوں کے بل بوتے پر قومی یا صوبائی اسمبلی تک جا پہنچے۔ یہ اعزاز صرف سندھ کے چیدہ چیدہ پیر سائیوں کو حاصل ہے جن کے ووٹ بینک میں لاکھوں اَن پڑھ، آگاہی سے محروم، افلاس کی چکّی میں پسے ہوئے عقیدت مند سیونگ اکاؤنٹ میں پشت در پشت فکسڈ پڑے ہوئے ہیں۔ پیر سائیں کھٹپٹ شاہ نے سنیاسی باوا سے کہا ”میں نے ایک پارٹی کے صدر کو پانچ کروڑ روپے دیئے لیکن الیکشن لڑنے کا ٹکٹ انہوں نے کسی اور کو دے دیا“۔
سنیاسی باوا نے میز پر رکھی ہوئی کھوپڑی پر چھڑی گھماتے ہوئے جنتر منتر پڑھ کر پھونکا۔ کھوپڑی کے منہ، ناک اور دونوں کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ سنیاسی باوا نے کہا ”فلاں پارٹی کے صدر کو تم سات کروڑ روپے دو، وہ تمہیں انتخابات لڑنے کیلئے پارٹی ٹکٹ دے دے گا“۔
پیر سائیں کھٹپٹ شاہ چلا گیا۔ کچھ روز کے بعد روتی صورت لے کر لوٹ آیا، کہنے لگا ”اس پارٹی کے صدر کو میں نے سات کروڑ روپے دیئے لیکن انہوں نے مجھے ٹکٹ نہیں دیا“۔
سنیاسی باوا نے جنتر منتر پڑھ کر کھوپڑی پر پھونکا۔ کھوپڑی کے منہ، ناک اور دونوں کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ سنیاسی باوا نے کہا ”دوسرے کسی امیدوار نے اس پارٹی کے صدر کو آٹھ کروڑ روپے دیئے تھے۔ اس مرتبہ تم اس پارٹی کے صدر کو دس کروڑ دو، ہو سکے تو بارہ کروڑ دو۔ وہ الیکشن لڑنے کیلئے صرف تمہیں ٹکٹ دے گا“۔
پیر سائیں کھٹپٹ شاہ گیا تو پھر کبھی لوٹ کر نہ آیا۔ ایک روز میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کی زیارت کرنے گیا۔ زائرین کے جوتے سنبھالنے والے کو دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ وہ پیر سائیں کھٹپٹ شاہ تھا۔ پتہ چلا کہ پارٹی ٹکٹ کیلئے بولی بڑھاتے بڑھاتے اس نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا لیکن اس پارٹی کے صدر نے الیکشن لڑنے کا ٹکٹ سردار ستم خان ظلمانی کو دیا۔ سردار ستم خان ظلمانی اسلام آباد کے بے تاج بادشاہوں اور عرب شہزادوں کی مہمان داری میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں قبرستان سے کھوپڑیاں کیوں چرا رہا تھا۔ پرانی قبروں سے میں نے ابھی تین چار کھوپڑیاں نکالی تھیں کہ بڑی بڑی گاڑیوں کے ر کنے کی آواز آئی۔ میں دبک کر ایک قبر کے پیچھے چھپ گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک پارٹی کے بیس، تیس مسٹنڈے دندناتے ہوئے قبرستان میں داخل ہوئے۔ ایک کبڑا ان کی رہنمائی کر رہا تھا،کبڑے نے اپنے ساتھیوں سے کہا ”نگراں حکومت آنے سے پہلے مردوں کے جتنے کفن چرا سکتے ہو چرا لو۔ یہ پارٹی کا فیصلہ ہے اور اس فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا“۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ