فرخ منظور
لائبریرین
کفِ خاکسترِ دل
نہ کسی لفظ میں حدّت
نہ کسی رنگ میں خوں
کوئی آواز، نہ آواز کی پرواز، نہ ساز
شاخِ محراب کہیں اور نہ کہیں سروِ ستوں
ایک یخ بستہ خموشی ہے ہر اک شے پہ محیط
کاوشِ دل ہے زبوں
دل، ۔۔۔ کہ مدّت سے ہے اک برف کی سِل
(ایسا ہونے پہ بہر طور خجل!)
کس کی آتش نفسی شعلۂ جاں سوز بنے
کون لائے شررِ سنگ سے جوئے آتش
کون پیدا کرے اس برف میں خوئے آتش
کوئی جو برف کی اس سِل کو گَلا دے، آئے
کوئی جو شعلۂ ہستی کو ہوا دے، آئے
چشمِ تصویر سے جو اشک بہا دے، آئے
کوئی جو یہ قفسِ رنگ جلا دے، آئے
کون آئے، کسے معلوم وہ ہے بھی کہ نہیں
ہے بھی موجود بالآخر وہ نوا ساز کہیں؟
خامشی جس کے ترانوں سے ہوئی سینۂ نے
جس کے شعلے سے ہے عالم کفِ خاکسترِ دل!
1964ء
(اسلم انصاری)
نہ کسی لفظ میں حدّت
نہ کسی رنگ میں خوں
کوئی آواز، نہ آواز کی پرواز، نہ ساز
شاخِ محراب کہیں اور نہ کہیں سروِ ستوں
ایک یخ بستہ خموشی ہے ہر اک شے پہ محیط
کاوشِ دل ہے زبوں
دل، ۔۔۔ کہ مدّت سے ہے اک برف کی سِل
(ایسا ہونے پہ بہر طور خجل!)
کس کی آتش نفسی شعلۂ جاں سوز بنے
کون لائے شررِ سنگ سے جوئے آتش
کون پیدا کرے اس برف میں خوئے آتش
کوئی جو برف کی اس سِل کو گَلا دے، آئے
کوئی جو شعلۂ ہستی کو ہوا دے، آئے
چشمِ تصویر سے جو اشک بہا دے، آئے
کوئی جو یہ قفسِ رنگ جلا دے، آئے
کون آئے، کسے معلوم وہ ہے بھی کہ نہیں
ہے بھی موجود بالآخر وہ نوا ساز کہیں؟
خامشی جس کے ترانوں سے ہوئی سینۂ نے
جس کے شعلے سے ہے عالم کفِ خاکسترِ دل!
1964ء
(اسلم انصاری)
آخری تدوین: