کفِ مومن سے نہ دروازۂ ایماں سے ملا
رشتۂ درد اسی دشمنِ ایماں سے ملا
اس کا رونا ہے کہ پیماں شکنی کے با وصف
وہ ستمگر اسی پیشانیٔ خندہ سے ملا
طالبِ دستِ ہوس اور کئی دامن تھے
ہم سے ملتا جو نہ یوسف کے گریباں سے ملا
کوئی باقی نہیں اب ترکِ تعلق کے لیئے
وہ بھی جا کر صفِ احبابِ گریزاں سے ملا
کیا کہیں اس کو جو محفل میں شناسا بھی نہ تھا
کبھی خلوت میں در آیا تو دل و جاں سے ملا
میں اسی کوہ صفت خون کی اک بوند ہوں جو
ریگ زارِ نجف وخاکِ خراساں سے ملا
رشتۂ درد اسی دشمنِ ایماں سے ملا
اس کا رونا ہے کہ پیماں شکنی کے با وصف
وہ ستمگر اسی پیشانیٔ خندہ سے ملا
طالبِ دستِ ہوس اور کئی دامن تھے
ہم سے ملتا جو نہ یوسف کے گریباں سے ملا
کوئی باقی نہیں اب ترکِ تعلق کے لیئے
وہ بھی جا کر صفِ احبابِ گریزاں سے ملا
کیا کہیں اس کو جو محفل میں شناسا بھی نہ تھا
کبھی خلوت میں در آیا تو دل و جاں سے ملا
میں اسی کوہ صفت خون کی اک بوند ہوں جو
ریگ زارِ نجف وخاکِ خراساں سے ملا