طارق شاہ
محفلین
غزل
تم سے راہ و رسم بڑھا کر دِیوانے کہلائیں کیوں
جن گلیوں میں پتّھر برسیں اُن گلیوں میں جائیں کیوں
ویسے ہی تاریک بہت ہیں لمحے غم کی راتوں کے
پھر میرے خوابوں میں یارو، وہ گیسو لہرائیں کیوں
مجبوروں کی اِس بستی میں، کِس سے پُوچھیں، کون بتائے
اپنا مُحلّہ بُھول گئی ہیں بے چاری لیلائیں کیوں
مُستقبِل سے آس بہت ہے، مُستقبِل کیسا بھی ہو
ماضی کس کے کام آیا ہےِ ماضی کو دُہرائیں کیوں
ہاں! ہم نے بھی آج کسی کا، نازک سا دِل توڑا ہے
شہرِ وفا کی رسم یہی ہے، ہم اِس پر شرمائیں کیوں
کھڑکی کھڑکی سناٹا ہے، چِلمن چِلمن تنہائی
چاہت کی محِفل میں اب ہم نقدِ دل و جاں لائیں کیوں
وعدوں کے جنگل میں آزر ہم تو برسوں بھٹکے ہیں
آپ کریں کیوں دل پہ بھروسہ آپ یہ دھوکہ کھائیں کیوں
کفیل آزرؔ امرہوی