چھوٹاغالبؔ
لائبریرین
گھم وے چرخےیا گھم
گُھم وے چرخےیا گُھم
تیری کَتن والی جیوے
نلیاں وٹن والی جیوے
گھوم اے چرخے گھوم
تجھے کاتنے والی (ہستی) کی خیر ہو
نلیاں (دھاگے کا گولا) بٹنے والی (ہستی) کی خیر ہو
یہ زمین بھی گول ہے ، چاند ، سورج بھی گول ہیں ، اس کے علاوہ تمام سیارے، ستارے بھی گول ہیں، کہکشائیں بھی دائرے کی صورت ہیں
چونکہ یہ ساری کائنات ایک محور کے گرد گھوم رہی ہے ، اس لیے حضرت شاہ حسین ؒ نے اسے چرخے سے تشبیہ دے کر ، داد دینے والے انداز میں فرمایا ہے کہ گھوم اے چرخے گھوم
جو ذات واحد و لا شریک ذات تجھے کات (گھما) رہی ہے ، اس کی خیر ہو (یعنی اس کی عظمتوں کو سلام)
کائنات میں ہر دم ستارے ٹوٹنے،بجھنے اور نئے ستارے وجود میں آنے کا عمل جاری ہے ، اسے شاعر نے نلیاں بٹنے سے تشبیہ دے کر ذات خدا وندی کی حمد کی ہے
بڈھا ہویوں شاہ حسینا
دندیں جھیراں پیاں
اٹھ سویرے ڈھونڈن لگوں
سنجھ دیاں جوگیاں
شاہ حسینؒ میاں !! اب تم بوڑھے ہو گئے ہو
دانت تمہارے سب ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں
تم انہیں صبح اٹھ کے ڈھونڈ رہے ہو
جو صبح صادق کے وقت ہی جا چکی ہیں
اس شعر میں حضرت شاہ حسین ؒ اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ، کہ شاہ حسین اب تم بوڑھے ہوتے جا رہے ہو
تمہاری آنکھ اب کھلی ہے جب عمر ساری گزر چکی ہے ۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جو صبح صادق کے وقت جا چکے ہیں تم انہیں صبح کو سورج طلوع ہونے کے بعد ڈھونڈ رہے ہو، یعنی وقت تو تم نے گنوا دیا ، اب بے فائدہ کوشش میں لگے ہو
ہر دم نام سنبھال سائیں دا
تاں توں استھر تھیویں
ہر دم مالک کے نام کا ذکر کرتے رہو
تب تم پاک ہو سکتے ہو
اس شعر میں ذکر الہٰی کی فضلیت اور ترغیب دی ہے ، کہ بندے کو چاہیے وہ ہر وقت اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرتا رہے
اسی سے روح کی کثافت اور بوجھ دور ہوگا ، اور روح کو غذا ملے گی ، اور وہ ذکر کی برکت سےگناہوں کی سیاہی اور آلودگی سے پاک صاف ہوتی جائے گی
چرخہ بولے سائیں سائیں
بائیڑ بولے گھوں
کہے حسین ؒفقیر سائیں دا
میں ناہیں سب توں
چرخہ سائیں سائیں بولتا ہے اور بائیڑ سے گھوں گھوں کی آواز آتی ہے
اپنے پروردگار کا فقیر شاہ حسین ؒ یہی کہتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں سب کچھ تو ہے ۔
جب چرخہ کاتنے کیلئے گھمایا جاتا ہے، تو ہر چکر پر اس سے سائیں سائیں جیسی آواز آتی ہے
اور بائیڑ جس پر دھاگہ لپٹتا جا رہا ہوتا ہے ، اس سے گھوں گھوں کی آوازیں آتی ہیں
اللہ والے فنافی اللہ کے مقام پر ہوتے ہیں اس لیے انہیں دنیا کی ہر آواز ہر مظہر میں اللہ کے حسن کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
اب ذات حق کے مشاہدے میں غرق ہو کر فقیر شاہ حسین اپنی ذات کی نفی کر کے کہتا ہے ، کہ میں کچھ بھی نہیں سب کچھ اللہ کی ذات ہے
کچھ ایسا ہی مولانا روم ؒ کا بھی شعر ہے :۔
خشک تار و خشک چوب ، خشک پوست
از کجا می آید ایں آوازِ دوست
تار بھی خشک ہے ، لکڑی بھی خشک ہے ، اور کدو بھی خشک ہے
پھر یہ محبوب کی آواز کہاں سے آ رہی ہے
پیشکش :۔ نیرنگ خیال
ترجمہ و تشریح:۔ مسکین چھوٹا غالبؔ