کاشفی
محفلین
کلامِ تاباں
(میر عبدالحئ شاہ جہاں آبادی)
(میر عبدالحئ شاہ جہاں آبادی)
تعارفِ شاعر:
تاباں تخلص، میر عبدالحئ نام، شاہ جہاں آبادی۔ نہایت عزیز خوبصورت اور صاحبِ جمال تھا، ایسا کہ دلی سے شہر میں بے مثال تھا۔ ہندو مسلمان ہر گلی کوچہ میں لیک نگاہ پر اس کی لاکھ جان سے دین و دل نذر کرتے تھے، اور پرے کے پرے عاشقانِ جانباز کے یاد میں اس لب جاں بخش مسیحا دم کے مرتے تھے۔ تکلف یہ ہے کہ اس رعنائی اور دل ربائی پر خود بدولت بھی دل کو کھو بیٹھے تھے، اور ہنستے ہنستے بے اختیار کو رو بیٹھے تھے۔ اس بے دردی اور شیریں ادائی پر مانندِ فرہاد کے چاشنئِ درد سے آگاہ، اس سرد مہری اور لیلی صفتی پر مانند مجنوں کے ہمیشہ سرگرمِ نالہ و آہ تھے، یعنی ایک سلیمان نام لڑکے کو چاہتے تھے، اور اُس کے دردِ محبت سے، باوجود وصل کے، آٹھ پہر کراہتے تھے۔ وہی سلیمان، کہ بالفعل شاہ سلیمان کر کے معروف تھا، اور ادا کرنے میں راہ و رسمِ درویشی کے بہ شدت مصروف، اس مورِ ضعیف نے عالمِ پیری اُس کا 1201ھ بارہ سو ایک ہجری تھے، کہ بلدہء لکھنؤ میں دیکھا۔ اگرچہ ریش سفید اور قد خمیدہ رکھتا تھا، لیکن اُسکے انداز سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس نے کسی وقت میں بڑے بڑے گردن کش، سوئی کے ناکے سے نکالے ہوں گے۔
غرض میر عبدالحئ تاباں۔ تخلص میرزا جان جاناں مظہر سے اور میرزا رفیع سودا سے ہمیشہ صحبت رکھتے تھے، بلکہ میرزا رفیع سودا بنا بر اک نظر توجہ کے، کہ اُن کے حال پر تھی، اکثر اشعار کو ان کے اصلاح کرتے تھے، عین شباب کے عالم اور جوبن کے عروج میں، کہ زمان فرمان فرمائے محمد شاہ فردوس آرام گاہ کا تھا، اس ماہِ تابانِ حسن نے جامہء زندگی کو مانند کتان کے چاک کیا ہے۔ یہ منتخب اس کے دیوان کے ہے۔۔۔
اکثر جو اس زمیں کو ہوتا ہے زلزلہ
شاید گڑا ہے جسم کسی بےقرار کا
کس کس طرح سے دل میں گذرتی ہیں حسرتیں
ہے وصل سے زیادہ مزا انتطار کا
-----------------------------------------------------
اخگر کو چھپا راکھ میں، میں دیکھ کے سمجھا
تاباں تو تہِ خاک بھی جلتا ہی رہے گا
کوئی دوسرا مجھ سا تاباں نہ ہوگا
کہ دل دے تجھے پھر پشیماں نہ ہوگا
----------------------------------------------------
جفا سے اپنی پشیماں نہ ہو، ہوا سو ہوا
تری بلا سے، مرے جی پہ جو ہوا سو ہوا
نہ پائی خاک بھی تاباں کی ہم نے پھر ظالم
وہ ایک دم ہی ترے رو برو ہوا سو ہوا
-----------------------------------------------------
آشنا ہو چکا ہوں میں سب کا
جس کو دیکھا سو اپنے مطلب کا
-----------------------------------------------------
ترے پاس عاشق کی عزت کہاں ہے
تجھے بے مروت، مروت کہاں ہے
میں شکوہ کروں جورظالم سے لیکن
مجھے آہ و نالہ سے فرصت کہاں ہے
بیاں کیا کروں ناتوانی میں اپنی
مجھے بات کہنے کی طاقت کہاں ہے
شاید گڑا ہے جسم کسی بےقرار کا
کس کس طرح سے دل میں گذرتی ہیں حسرتیں
ہے وصل سے زیادہ مزا انتطار کا
-----------------------------------------------------
اخگر کو چھپا راکھ میں، میں دیکھ کے سمجھا
تاباں تو تہِ خاک بھی جلتا ہی رہے گا
کوئی دوسرا مجھ سا تاباں نہ ہوگا
کہ دل دے تجھے پھر پشیماں نہ ہوگا
----------------------------------------------------
جفا سے اپنی پشیماں نہ ہو، ہوا سو ہوا
تری بلا سے، مرے جی پہ جو ہوا سو ہوا
نہ پائی خاک بھی تاباں کی ہم نے پھر ظالم
وہ ایک دم ہی ترے رو برو ہوا سو ہوا
-----------------------------------------------------
آشنا ہو چکا ہوں میں سب کا
جس کو دیکھا سو اپنے مطلب کا
-----------------------------------------------------
ترے پاس عاشق کی عزت کہاں ہے
تجھے بے مروت، مروت کہاں ہے
میں شکوہ کروں جورظالم سے لیکن
مجھے آہ و نالہ سے فرصت کہاں ہے
بیاں کیا کروں ناتوانی میں اپنی
مجھے بات کہنے کی طاقت کہاں ہے
ماخوذ: گلشنِ ہند - مرزا علی لطف ۔ بشکریہ: علیگڑھ اردو کلب