کاشفی

محفلین
کلامِ جوشش
(شیخ محمد روشن عظیم آبادی)

تعارفِ شاعر

جوشش تخلص، شیخ محمد روشن نام، وطن ان کا عظیم آباد ہے، خوش لیاقتی ان کی جو کچھ کہئے اُس سے زیادہ ہے۔ طبیعت ان کی نظمِ ریختہ میں نہایت رسا ہے، اور معنی بیگانہ سے بہ شدت آشنا ہے۔ چاشنی درد کی کلام سے ان کے ظاہر، اور علم عروض سے یہ بخوبی ماہر ہیں۔ شیوہ اختیار انہوں نے میردرد کا کیا ہے، اور اس طور کو بہت خوبی کے ساتھ ادا کیا ہے۔ علی ابراہیم خاں مرحوم نے گلزارِ ابراہیم میں لکھا ہے کہ "جس ایام میں یہ تذکرہ لکھتا ہوں، تو شیخ مذکور نے اشعار اپنے مجھ کو بنارس بجھوائے، تاکہ نام اُس کا اس تذکرہ میں لکھا جائے۔ نہایت پسند آیا مجھ کو اسلوب ان کے بیان کا، چنانچہ اس طرح لکھا گیا انتخاب ان کے دیوان کا:


کچھ کام نہیں ہمیں وفا سے
تو ہاتھ نہ کھینچیو جفا سے

کل سب سے گلے گلے ملے تم
تھے ہم بھی تو صورت آشنا سے

--------------------------------------------
چشم سے غافل نہ ہوا چاہئے
اس کے مقابل نہ ہوا چاہئے

دل کا ضرر جان کا نقصان ہے
اب کہیں مائل نہ ہوا چاہئے

--------------------------------------------
نہ کوئی دوست، نہ کوئی مرا دشمن ہے
ایک یہ دل ہی غرض دوست ہے، یا دشمن ہے

-------------------------------------------------------------
قطرے میرے آنسو کے ہیں اک لخت شرر سے
کیا آگ برستی ہے مرے دیدہء تر سے

آشنا جب سے ہوئے اُس بتِ ہرجائی سے
دربدر خاک بسر پھرتے ہیں سودائی سے

-------------------------------------------------------
گر جان دے کوئی پر نہ اس کے ہوں گے
جی شوق سے لیں گے اس کا جس کے ہوں گے

جوشش نہ رکھ ان بتوں سے ہرگز اُمید
یہ کس کے ہوئے ہیں‌اور کس کے ہوں گے
 
Top