قتیل شفائی کلامِ قتیل شفائی

راجہ صاحب

محفلین
وہ دل ہی کیا جو تیرے ملنے کی دعا نہ کرے
میں تجھ کو بھول کر زندہ رہوں خدا نہ کرے

رہے گا ساتھ تیرا، پیار زندگی بن کر
یہ اور بات ہے زندگی میری وفا نہ کرے

یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے

اگر وفا پر بھروسہ رہے نہ دنیا کو
تو کوئی شخص محبت کا حوصلہ نہ کرے

سنا ہے محبت اس کو دعائیں دیتی ہیں
جو دل پہ چوٹ کھائے مگر گلہ نہ کرے

بجھا دیا نصیبوں نے میرے پیار کا چاند
کوئی دیا میری پلکوں پہ اب جلا نہ کرے

زمانہ دیکھ چکا ہے پرکھ چکا ہے اسے
قتیل جان سے جائے یہ التجا نہ کرے
 

راجہ صاحب

محفلین
دنیا سے نہ گھبرائیں گے اس نے یہ کہا تھا
ہم پیار کئے جائیں گے اس نے یہ کہا تھا

کانٹے جو دکھائیں گے ذرا سی بھی عداوت
ہم پھول نظر آئیں گے اس نے یہ کہا تھا

روکے گا ہمالہ بھی اگر راہ ہماری
ہم اس کو بھی ٹھکرائیں گے اس نے یہ کہا تھا

حالات بدلتے ہوئے لگتی نہیں کچھ دیر
حالات بدل جائیں گے اس نے یہ کہا تھا

ہم آدم و حوا ہیں نہ راس آی جو دنیا
جب کو پلٹ جائیں گے اس نے یہ کہا تھا

ہر لمحہ محبت کا حیات ابدی ہے
مر کر بھی نہ مر پائیں گے اس نے یہ کہا تھا

میں میں ہی قتیل آپ کے سائے میں رہوں گی
آپ آپ ہی کہلائیں گے اس نے یہ کہا تھا
 

راجہ صاحب

محفلین
اے خدا اب تو اسے جھومتا بادل کردے
یوں وہ برسے کہ مرے پیار کو جل تھل کر دے

میرے محبوب کے پیروں کو جو چھینٹا چومے
ایسے چھینٹے کو چھنکتی ہوئی پائل کردے

کیسے ممکن ہے کہ میں حشر کے سورج سے ڈروں
مجھ پہ سایا جو مرے یار کا آنچل کردے

اے مرے حسن خیال اس کو سجانے کیلئے
صبح کو غازہ بنا' رات کو کاجل کر دے

آج پھر جھیل کنارے مجھے تڑپاتا ہے
کاش اس چاند کو پانی میں کوئی حل کردے

اے مقدر مجھے ترسائے گا آخر کب تک؟
یا مری بات سمجھ' یا مجھے پاگل کر دے

وہ مجھے کر تو رہا ہے نظر انداز قتیل
اس کو بھی وقت زمانے سے نہ اوجھل کردے
 
Top