کاشفی

محفلین
کلامِ مصحفی
(غلام ہمدانی مصحفی امروہوی)

مصحفی تخلص، غلام ہمدانی نام، ساکن امروہے کا ۔ اپنی قوم کا اشراف ہے، سچ تو یہ ہے کہ گفتگو اس کی بہت صاف صاف ہے۔ بندش نظم میں اس کے ایک صفائی اور شیرینی ہے، اور معنی بندش میں اس کے بلندی اور رنگینی۔ ایک مدت شاہ عالم بادشاہ غازی کے عہد سلطنت میں مقیم شاہ جہاں آباد کا رہا ہے۔ بالفعل کہ 1215ھ بارہ سو پندرہ ہجری ہیں، ایک چودہ برس سے اوقات لکھنؤ میں‌ بسر کرتا ہے۔ ضیقِ معاش تو وہاں ایک مدت سے نصیبِ اہلِ کمال ہے، اسی طور پر درہم برہم اُس غریب کا بھی احوال ہے۔ دیوان اس عزیز کا بھرا ہوا نظم کے جمیع اقسام سے ہے۔ یہ اس کے منتخب کلام سے ہے:

پیری میں اور بھی ہوئے غافل ہزار حیف
بے اختیار لے گئی ہم کو یہ خواب صبح


ہوئی ہے بس کہ یہ فصلِ بہار دامنگیر
چلیں چمن سے تو ہوتا ہے خار دامنگیر

سمجھ کے رکھیو قدم دل جلوں کی تربت پر
مبادا ہو کوئی تیرا شرار دامنگیر


آگیا خط پہ سرِ مو نہ گیا ناز ہنوز
ہے اسی ڈھب پہ نگاہِ غلط انداز ہنوز


ایک دن رو کی نکالی تھی وہاں کلفتِ دل
اب تلک دامن صحرا ہے غبار آلودہ


-----------------------------------------------

زبس آئینہ رو ہے طفل حجام
نہیں بِن دیکھے اُس کے دل کو آرام

جو دیکھیں اُنگلیاں وہ گوری گوری
بنا خورشید پانی کی کٹوری

وہ جس کے روبرو ناگاہ آیا
اُسے حیرت نے آئینہ دکھایا

ملا جب آئینہ کو ایسا نائی
بنائی چار ابرو کی صفائی

نہ کھینچے نامہء مو اُس کی تمثال
کہ وہ ہے عاشقوں کی ناک کا بال

سنے ہے مصحفی اب تو بھی فی الحال
منڈا کر سر کو ہو جا فارغ البال

ماخذ: گلشنِ ہند - از: مرزاعلی لطف ۔ بشکریہ: دیدہ ور - علیگڑھ اردو کلب
 
Top