بڑا گھمنڈ ، تفاخر ، غرور اور تمکین
یہ لے پہنچا کہاں سجدہ گاہ میں تو جبیں
لباس عطر میں ڈوبا ہوا ہے فکر میں دل
زباں پہ نامِ خدا سرخ چہرہ چیں بہ چیں
عصائے موسی لئے ہاتھ میں پھرے ہے کہاں
فرعونِ وقت بتاو اسے یہ ہے مسکیں
کہ قہقہوں کی بلندی ہی اس کی پستی ہے
فغانِ نیم شبی مانگتا ہے یہ بے دیں
نظام نو کی خبر دئے رہا ہے اک چوہا
کہ جیسے شیر کوئی کارواں میں ہے ہی نہیں
بڑی سریلی اذانوں میں محو ہیں سارے
اذانِ حر بھی سنی آپ نے یہاں کہ نہیں
خدا کے شکر میں بھرتا ہے پیٹ کو اتنا
کہ جیسے پیٹ ہو کچھوئے کا واہ رے رہبر دیں
حدیث قدسی کے ہر راز سے یہ ہے آگاہ
ملا نہ گوشہ کوئی ہوگیا ہے کوٹھی نشیں
یہ غزالی دوراں کہ رومی ملت
کہ دام لے کے جو بولیں تو جھوم جائے زمیں
مکان اس کے ابھی چار پانچ چھ ہوں گے
مگر یہ رکھتا ہے بارہ اماموں پہ بھی یقیں
ملے جو کثرت دولت بیاں کرے وحدت
غریب لوگ بلائیں اسے تو وقت نہیں
بیانِ تقوی توکل طہارت و توبہ
بغیر دام کے بولے تو یہ کہاں کا امیں
غریب بھائی تمہاری ہی ہوش ختم ہوئی
تمہارے خون کا ہے طالب یہ عاقبت کا نہیں
نماز دار پہ ہوگی یا کربلا میں ادا
کہ اب چمکنے کو ہے رازِ عاشقی کا نگیں
جبینِ شوق سے خود ڈھونڈ آستانہِ حسن
صنم خیال کےسب توڑ دو کہ وقت نہیں
یہ کون بول رہا ہے نہ پوچھ واصف سے
کہ وہ بیچارہ تو کاتب ہے رازدار نہیں