الف نظامی
لائبریرین
حضرت قبلہ عالم قدس سرہ پنجابی اور فارسی زبان کے ایک نغز گو سخنور تھے۔ آپ کا کلام جو نعت ، مناجات اور تصوف پر مشتمل ہے ، اپنی سلاست اور انوکھے انداز کی وجہ سے غلبہ حال کا مرقع معلوم ہوتا ہے۔ کئی طویل نظمیں فی البدیہہ لکھتے یا لکھوا دیتے۔
کبھی کسی استاد کا کلام پسند فرماتے تو طبع عالی پرواز کرکے اپنے بلند مقام سے جواب کہہ جاتی۔ چناچہ حضرت سید بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا:
کن فیکون جدآں آکھیا آہا تاں اساں وی کولے آہسے
ہکے لامکان مکان اساڈا ہکے بت وچ آن پھنسیاسے
ہکے ملک اسانوں سجدے کردے ہکے خاک وچ آن رلیاسے
بلھے شاہ نفس پلیت نے پلیت کیتا کوئی مڈھ دے پلیت تان ناہسے
اس زمین میں حضرت کا ارشاد ہے:
کن فیکون تاں کل دی گل اے اساں اگے پریت لگائی
توں میں حرف نشان نہ آہا جدوں دتی میم گواہی
اجے وی سانوں اوہ پئے دسدے بیلے بوٹے کاہی
مہر علی شاہ رل تاہیوں بیٹھے جداں سک دوہاں نوں آہی
خواجہ حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کی غزل کا ایک شعر ہے
سینہ مالا مال درد است اے دریغا مرہمے
دل ز تنہائی بجاں آمد خدا را ہمدمے
سید مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی رنگ میں فرمایا ہے
سینہ مالا مال درد است و بجوید ہردمے
درد بر دردے دگر زخمے بجائے مرہمے
قرعہ فالش بنام آدم خاکی زدند
گِل بود نے دل کہ با دردے بجوید مرہمے
دل کند زخمےرفو گر مہربان دارد طلب
نوکِ مژگاں را صبا بارِ دگر گو مرہمے
بستہ شد اند را ازل خاطر بداں شورِ جہاں
کز نسیمِ تاب زلفش نوریاں پیچد ہمے
اکحل العینین املح ازج الحاجبین
سرمہ گیں چشمے ، کماں ابرو ،ملیحے ارحمے
روے تاباں والضحیٰ والیل مویش ذا سجیٰ
و زفتخنائش لوےٰ یسین از متبسمے
دوش در گوشم رسیدہ از سگان کوئے دوست
مہر ما را کے سزد ہر خود پرستے بے غمے
حضرت کی یہ غزل ایک سال پاک پتن شریف کے عرس پر ایام محرم مین پڑھی جارہی تھی ۔ حضرت خود رونق افروز تھے۔ ہندوستان کے ایک بزرگ سجادہ نشین پہلے ہی شعر پر وجد میں آکر رقص کرنے لگے۔ آداب چشتیہ کے مطابق ساری محفل کھڑی ہوگئی۔ روتے جاتے تھے اور لذتِ فریاد میں ان اشعار کی اس طرح تشریح کر رہے تھے:
"سبحان اللہ! پیر صاحب نے کیا خوب مرثیہ کہہ ڈالا ہے۔ حضرت امام حسین تہ خنجر کیا فرما رہے ہیں:
"اے میرے دل و جان اور میری روح کے محبوب! اے میرے ایمان!! اس خنجر کی روانی کو تا قیام قیامت دراز کردے تاکہ تیری محبت میں ذبح کیا جاوں اور زندہ ہوجاوں اور پھر ذبح کیا جاوں"
اسی طرح حضرت عراقی کے اشعار سے متاثر ہوکر حضرت نے جوابا چند اشعار کہے۔
حضرت عراقی فرما گئے ہیں:
نخستیں بادہ کاندر جام کردند
مزاجش عکس آں گل فام کردند
چوں خود کردند را زخویش فاش
عراقی را چرا بدنام کردند
اس پر حضرت فرماتے ہیں:
مئے توحید از خم خانہ غیب
بمستان الست انعام کردند
چوں غلطیدم زمستی ہا بہر سو
حریفاں مستی از من وام کردند
ہویدا شد در امکاں صورت حق
بہ آن صورت جہاں را رام کردند
بمہر آں کہ غیرش نیست موجود
بخود آغاز وہم انجام کردند
1912 میں ملک سلطان محمود خان ٹوانہ نے قبلہ عالم قدس سرہ کی خدمت میں اپنی کسی پریشانی کے متعلق عریضہ ارسال کیا اور عنوان پر یہ شعر لکھا۔
گر چارہ مرے زخم جگر کا نہیں کرتے
اچھا یہی کہہ دو کہ ہم اچھا نہیں کرتے
حضرت نے بواپسی اپنے قلم مبارک سے یہ منظوم جواب ارسال فرمایا:
اس چشم سیاہ مدھ بھری پر سحر و فتن سے
سلطاں بھی اگر الجھیں تو اچھا نہیں کرتے
بے ساختہ تھا زخم جگر نوکِ مژہ سے
پھر شکوہ ہی کیا ہے کہ وہ اچھا نہیں کرتے
کہہ دیوے بھلا کیسے کوئی میر عرب سے
"اچھا یہی کہہ دو کہ ہم اچھا نہیں کرتے"
ہر مہر و وفا طرزو ادا آل عبا کی
ہر گز نہ کہیں گے کہ ہم اچھا نہیں کرتے
ہندی خیال(جو اکثر قوال بطرزِ بھوپالی گاتے ہیں)
جب سے لاگے تورے سنگ نین پیا
نیند گئی آرام نہیں ساری ساری رین پیا
دکھ آئے سکھ بھاگ گئے
سب عیش مٹا سارا چین پیا
تن من دھن سب تجھ پر واروں
صدقہ حسن حسین پیا
و صل علی کیا شانن ہے
لا مثلک فی الدارین پیا
مہرعلی ہے حب علی اور حب نبی ہے مہر علی
لحمک لحمی ، جسمک جسمی ، فرق نہیں مابین پیا
***یہ متن "مراۃ العرفان ، کلام منظوم پیر سید مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ" سے لیا گیا۔
کبھی کسی استاد کا کلام پسند فرماتے تو طبع عالی پرواز کرکے اپنے بلند مقام سے جواب کہہ جاتی۔ چناچہ حضرت سید بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا:
کن فیکون جدآں آکھیا آہا تاں اساں وی کولے آہسے
ہکے لامکان مکان اساڈا ہکے بت وچ آن پھنسیاسے
ہکے ملک اسانوں سجدے کردے ہکے خاک وچ آن رلیاسے
بلھے شاہ نفس پلیت نے پلیت کیتا کوئی مڈھ دے پلیت تان ناہسے
اس زمین میں حضرت کا ارشاد ہے:
کن فیکون تاں کل دی گل اے اساں اگے پریت لگائی
توں میں حرف نشان نہ آہا جدوں دتی میم گواہی
اجے وی سانوں اوہ پئے دسدے بیلے بوٹے کاہی
مہر علی شاہ رل تاہیوں بیٹھے جداں سک دوہاں نوں آہی
خواجہ حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کی غزل کا ایک شعر ہے
سینہ مالا مال درد است اے دریغا مرہمے
دل ز تنہائی بجاں آمد خدا را ہمدمے
سید مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی رنگ میں فرمایا ہے
سینہ مالا مال درد است و بجوید ہردمے
درد بر دردے دگر زخمے بجائے مرہمے
قرعہ فالش بنام آدم خاکی زدند
گِل بود نے دل کہ با دردے بجوید مرہمے
دل کند زخمےرفو گر مہربان دارد طلب
نوکِ مژگاں را صبا بارِ دگر گو مرہمے
بستہ شد اند را ازل خاطر بداں شورِ جہاں
کز نسیمِ تاب زلفش نوریاں پیچد ہمے
اکحل العینین املح ازج الحاجبین
سرمہ گیں چشمے ، کماں ابرو ،ملیحے ارحمے
روے تاباں والضحیٰ والیل مویش ذا سجیٰ
و زفتخنائش لوےٰ یسین از متبسمے
دوش در گوشم رسیدہ از سگان کوئے دوست
مہر ما را کے سزد ہر خود پرستے بے غمے
حضرت کی یہ غزل ایک سال پاک پتن شریف کے عرس پر ایام محرم مین پڑھی جارہی تھی ۔ حضرت خود رونق افروز تھے۔ ہندوستان کے ایک بزرگ سجادہ نشین پہلے ہی شعر پر وجد میں آکر رقص کرنے لگے۔ آداب چشتیہ کے مطابق ساری محفل کھڑی ہوگئی۔ روتے جاتے تھے اور لذتِ فریاد میں ان اشعار کی اس طرح تشریح کر رہے تھے:
"سبحان اللہ! پیر صاحب نے کیا خوب مرثیہ کہہ ڈالا ہے۔ حضرت امام حسین تہ خنجر کیا فرما رہے ہیں:
"اے میرے دل و جان اور میری روح کے محبوب! اے میرے ایمان!! اس خنجر کی روانی کو تا قیام قیامت دراز کردے تاکہ تیری محبت میں ذبح کیا جاوں اور زندہ ہوجاوں اور پھر ذبح کیا جاوں"
اسی طرح حضرت عراقی کے اشعار سے متاثر ہوکر حضرت نے جوابا چند اشعار کہے۔
حضرت عراقی فرما گئے ہیں:
نخستیں بادہ کاندر جام کردند
مزاجش عکس آں گل فام کردند
چوں خود کردند را زخویش فاش
عراقی را چرا بدنام کردند
اس پر حضرت فرماتے ہیں:
مئے توحید از خم خانہ غیب
بمستان الست انعام کردند
چوں غلطیدم زمستی ہا بہر سو
حریفاں مستی از من وام کردند
ہویدا شد در امکاں صورت حق
بہ آن صورت جہاں را رام کردند
بمہر آں کہ غیرش نیست موجود
بخود آغاز وہم انجام کردند
1912 میں ملک سلطان محمود خان ٹوانہ نے قبلہ عالم قدس سرہ کی خدمت میں اپنی کسی پریشانی کے متعلق عریضہ ارسال کیا اور عنوان پر یہ شعر لکھا۔
گر چارہ مرے زخم جگر کا نہیں کرتے
اچھا یہی کہہ دو کہ ہم اچھا نہیں کرتے
حضرت نے بواپسی اپنے قلم مبارک سے یہ منظوم جواب ارسال فرمایا:
اس چشم سیاہ مدھ بھری پر سحر و فتن سے
سلطاں بھی اگر الجھیں تو اچھا نہیں کرتے
بے ساختہ تھا زخم جگر نوکِ مژہ سے
پھر شکوہ ہی کیا ہے کہ وہ اچھا نہیں کرتے
کہہ دیوے بھلا کیسے کوئی میر عرب سے
"اچھا یہی کہہ دو کہ ہم اچھا نہیں کرتے"
ہر مہر و وفا طرزو ادا آل عبا کی
ہر گز نہ کہیں گے کہ ہم اچھا نہیں کرتے
ہندی خیال(جو اکثر قوال بطرزِ بھوپالی گاتے ہیں)
جب سے لاگے تورے سنگ نین پیا
نیند گئی آرام نہیں ساری ساری رین پیا
دکھ آئے سکھ بھاگ گئے
سب عیش مٹا سارا چین پیا
تن من دھن سب تجھ پر واروں
صدقہ حسن حسین پیا
و صل علی کیا شانن ہے
لا مثلک فی الدارین پیا
مہرعلی ہے حب علی اور حب نبی ہے مہر علی
لحمک لحمی ، جسمک جسمی ، فرق نہیں مابین پیا
***یہ متن "مراۃ العرفان ، کلام منظوم پیر سید مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ" سے لیا گیا۔