کلاڈ کی ایک پینٹنگ!

کلاڈ نے یہ پینٹنگ 1862 میں بنائی تھی۔ زندگی میں چار سے پانچ بار کراچی جانا ہوا۔ ان میں فراغت کے دن محض ایک بار نصیب ہوئے۔ کراچی ساحلِ سمندر پر واقع عبداللہ شاہ غازی کے مزار سے سمندر کا نظارہ کریں تو سورج کی کرنیں آنکھیں چندھیا دیتی ہیں۔ یوں لگتا ہے دور تک سونا بکھرا ہواہے۔ یہی سونا پکی گندم پر سے گزرنے والی ہوا بھی بکھیرتی ہے۔ سمندر کے قریب پہلی بار کھڑا ہونے کے بعد مجھے فزکس کا وہ کلیہ یاد آیا تھا جس کے مطابق ایک ٹب میں پنسل ڈبوکر اٹھائیں تو گویا آپ اسے توانائی دیتے ہیں۔ یہی توانائی لہروں کی صورت میں آگے بڑھتی ہے۔ سمندر میں لاکھوں لہریں روزانہ بنتی ہیں اور ساحل سے ٹکراتی ہیں۔ یہ منھ زور لہریں محض ہوا کے زور پر نہیں چلتیں، نہ ہی محض دھوپ کی تمازت یا چاندنی رات کے زیرِ اثر ہوتی ہیں۔ دیکھنے والی آنکھ دیکھ سکتی ہے کہ یہاں بھی فزکس کا وہی لہریں بننے والا فارمولا نظر آتاہے لیکن لہریں پیدا کرنے والا وہ ہاتھ نظر نہیں آتا۔ صبح اور دوپہر میں آپ سبحان اللہ کا ورد کرتے ہیں اور ڈھلتی شام کے ساتھ بلند لہروں کا شور آپ کو خوف میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ خوف بھی اللہ تعالیٰ سے قریب کرنے کا سبب بنتا ہے کیوں کہ فطرت کو اللہ کریم نے اپنی آیات یعنی نشانیاں قرار دیا ہے۔
محمد خرم یاسین
May be art
 
آخری تدوین:
جی جی جی !بالکل یہی طریقہ ہے اور یہی ڈھنگ ہے اہلِ علم کا اچھی اچھی باتوں کو حوالہ ٔ قلم کرکے منظر ِ عام پر لانے کا۔یہ کیسے ممکن ہے ایک باہوش انسان بلبل کے نالے سنے اور ہمہ تن گوش ہوکر سنے اور پھر بھی خاموش رہے ، رہ نہیں سکتا اور ایسا ہونہیں سکتا ۔۔۔۔۔ظہر کی نماز کا وقت ہوا چاہتاہے (یہاں کراچی میں)نماز کے بعد ان شاء اللہ آپ کی اِ س تحریر پر کچھ اور بھی لکھوں گا۔ یہ سلسلہ جاری رکھیں ۔علوم وفنون کی بھاری بھرکم باتیں متعلقہ لوگوں کے لیے تو بالیقین کارآمد ثابت ہوتی ہیں مگر عام آدمی اُن کے علمی دبدبے سے ہی تھرا جاتا ہے لہٰذا یہ ہلکی پھلکی تحریریں پڑھنے والوں کو بے مائیگی کاہلکا سا بھی احساس دلائے بغیرقبولِ عام کا رتبہ پائیں گی ،ان شاء اللہ۔
 

سیما علی

لائبریرین
صبح اور دوپہر میں آپ سبحان اللہ کا ورد کرتے ہیں اور ڈھلتی شام کے ساتھ بلند لہروں کا شور آپ کو خوف میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ خوف بھی اللہ تعالیٰ سے قریب کرنے کا سبب بنتا ہے کیوں کہ فطرت کو اللہ کریم نے اپنی آیات یعنی نشانیاں قرار دیا ہے
بہت خوبصورت بات ہے
بات ہے محسوس کرنے کی اور
گر چشمِ بینا ہو تو کیا بات ہے
تجھے بھی صورت آئینہ حیراں کر کے چھوڑوں گا
جو ہے پردوں میں پنہاں چشم بینا دیکھ لیتی ہے
؀
دیکھنے کو کچھ نہیں تھا گر یہاں
چشم بینا کیوں تماشائی ہوئی

لیکن لہریں پیدا کرنے والا وہ ہاتھ نظر نہیں آتا۔
ہر ہر ذرہ میں عیاں ہے وہ
ہر لہر میں نظر آتا ہے
؀
آتا ہے جو طوفاں آنے دے کشتی کا خدا خود حافظ ہے
ممکن ہے کہ اٹھتی لہروں میں بہتا ہوا ساحل آ جائے
 
جی جی جی !بالکل یہی طریقہ ہے اور یہی ڈھنگ ہے اہلِ علم کا اچھی اچھی باتوں کو حوالہ ٔ قلم کرکے منظر ِ عام پر لانے کا۔یہ کیسے ممکن ہے ایک باہوش انسان بلبل کے نالے سنے اور ہمہ تن گوش ہوکر سنے اور پھر بھی خاموش رہے ، رہ نہیں سکتا اور ایسا ہونہیں سکتا ۔۔۔۔۔ظہر کی نماز کا وقت ہوا چاہتاہے (یہاں کراچی میں)نماز کے بعد ان شاء اللہ آپ کی اِ س تحریر پر کچھ اور بھی لکھوں گا۔ یہ سلسلہ جاری رکھیں ۔علوم وفنون کی بھاری بھرکم باتیں متعلقہ لوگوں کے لیے تو بالیقین کارآمد ثابت ہوتی ہیں مگر عام آدمی اُن کے علمی دبدبے سے ہی تھرا جاتا ہے لہٰذا یہ ہلکی پھلکی تحریریں پڑھنے والوں کو بے مائیگی کاہلکا سا بھی احساس دلائے بغیرقبولِ عام کا رتبہ پائیں گی ،ان شاء اللہ۔
بے حد شکریہ شکیل صاحب! ممنون ہوں۔ جزاک اللہ خیرا۔ان شا اللہ۔
 
بہت خوبصورت بات ہے
بات ہے محسوس کرنے کی اور
گر چشمِ بینا ہو تو کیا بات ہے
تجھے بھی صورت آئینہ حیراں کر کے چھوڑوں گا
جو ہے پردوں میں پنہاں چشم بینا دیکھ لیتی ہے
؀
دیکھنے کو کچھ نہیں تھا گر یہاں
چشم بینا کیوں تماشائی ہوئی


ہر ہر ذرہ میں عیاں ہے وہ
ہر لہر میں نظر آتا ہے
؀
آتا ہے جو طوفاں آنے دے کشتی کا خدا خود حافظ ہے
ممکن ہے کہ اٹھتی لہروں میں بہتا ہوا ساحل آ جائے
میم سیما! بہت شکریہ، جزاک اللہ خیرا۔ آپ نے میرے جذبات کی ترجمانی کردی۔ ممنون ہوں۔ سلامت رہیں۔ آمین
 

سیما علی

لائبریرین
میم سیما! بہت شکریہ، جزاک اللہ خیرا۔ آپ نے میرے جذبات کی ترجمانی کردی۔ ممنون ہوں۔ سلامت رہیں۔ آمین
جیتے رہیے شاد و آباد رہیے
ارے کیا کرتے ہیں میم سے ہمیں بالکل غیر کردیا ہم سب کی آپا ہیں
یا آپی جو آپکا چاہے کہہ لیں ۔۔
 
آخری تدوین:
Top