سردار محمد نعیم
محفلین
سب رات مری سپنوں میں گزر جاتی ہے اور میں سوتا ہوں
پھر صبح کی دیوی آتی ہے
اپنے بستر سے اٹھتا ہوں منہ دھوتا ہوں
لایا تھا کل جو ڈبل روٹی
اس میں سے آدھی کھائی تھی
باقی جو بچی وہ میرا آج کا ناشتہ ہے
دنیا کے رنگ انوکھے ہیں
جو میرے سامنے رہتا ہے اس کے گھر میں گھر والی ہے
اور دائیں پہلو میں اک منزل کا ہے مکاں وہ خالی ہے
اور بائیں جانب اک عیاش ہے جس کے ہاں اک داشتہ ہے
اور ان سب میں اک میں بھی ہوں لیکن بس تو ہی نہیں
ہیں اور تو سب آرام مجھے اک گیسوؤں کی خوشبو ہی نہیں
فارغ ہوتا ہوں ناشتے سے اور اپنے گھر سے نکلتا ہوں
دفتر کی راہ پر چلتا ہوں
رستے میں شہر کی رونق ہے اک تانگہ ہے دو کاریں ہیں
بچے مکتب کو جاتے ہیں اور تانگوں کی کیا بات کہوں
کاریں تو چھچھلتی بجلی ہیں تانگوں کے تیروں کو کیسے سہوں
یہ مانا ان میں شریفوں کے گھر کی دھن دولت ہے مایا ہے
کچھ شوخ بھی ہیں معصوم بھی ہیں
لیکن رستے پر پیدل مجھ سے بدقسمت مغموم بھی ہیں
تانگوں پر برق تبسم ہے باتوں کا میٹھا ترنم ہے
اکساتا ہے دھیان یہ رہ رہ کر قدرت کے دل میں ترحم ہے
ہر چیز تو ہے موجود یہاں اک تو ہی نہیں اک تو ہی نہیں
اور میری آنکھوں میں رونے کی ہمت ہی نہیں آنسو ہی نہیں
جوں توں رستہ کٹ جاتا ہے اور بندی خانہ آتا ہے
چل کام میں اپنے دل کو لگا یوں کوئی مجھے سمجھاتا ہے
میں دھیرے دھیرے دفتر میں اپنے دل کو لے جاتا ہوں
نادان ہے دل مورکھ بچہ اک اور طرح دے جاتا ہوں
پھر کام کا دریا بہتا ہے اور ہوش مجھے کب رہتا ہے
جب آدھا دن ڈھل جاتا ہے تو گھر سے افسر آتا ہے
اور اپنے کمرے میں مجھ کو چپراسی سے بلواتا ہے
یوں کہتا ہے ووں کہتا ہے لیکن بے کار ہی رہتا ہے
میں اس کی ایسی باتوں سے تھک جاتا ہوں تھک جاتا ہوں
پل بھر کے لیے اپنے کمرے کو فائل لینے آتا ہوں
اور دل میں آگ سلگتی ہے میں بھی جو کوئی افسر ہوتا
اس شہر کی دھول اور گلیوں سے کچھ دور مرا پھر گھر ہوتا اور تو ہوتی
لیکن میں تو اک منشی ہوں تو اونچے گھر کی رانی ہے
یہ میری پریم کہانی ہے اور دھرتی سے بھی پرانی ہے