فرخ منظور

لائبریرین
نہ کیوں کر مطلعِ دیواں ہو مطلع مہرِ وحدت کا

نہ کیوں کر مطلعِ دیواں ہو مطلع مہرِ وحدت کا
کہ ہاتھ آیا ہے روشن مصرع انگشتِ شہادت کا

بچاؤں آبلہ پائی کو کیوں کر خارِ ماہی سے
کہ بام عرش سے پھسلا ہے یارب پاؤں دقت کا

سرشکِ اعترافِ عجز نے الماس ریزی کی
جگر صد پارہ ہے اندیشہء کون گشتہ طاقت کا

نہ یہ دستِ جنوں ہے اور نہ وہ جیبِ جنوں کیشاں
کہ ہو دستِ مژہ سے چاک پردہ چشمِ حیرت کا

نہ دے تیغِ زباں کیوں‌کر شکستِ رنگ کے طعنے
کہ صف ہائے خرد پر حملہ ہے فوجِ خجالت کا

غضب سے تیرے ڈرتا ہوں رضا کی تیری خواہش ہے
نہ میں بے زار دوزخ سے، نہ میں مشاق جنت کا

گلوے خامہ میں سرمہ مدادِ دودہء دل ہے
مگر لکھنا ہے وصفِ‌خاتمہ جلدِ رسالت کا

نہ پوچھ گرمیِ شوقِ ثنا کی آتش افروزی
بنا جاتا ہے دستِ عجز شعلہ شمعِ فکرت کا

نمک تھا بخت شورِ فکر خوانِ مدح شیریں پر
کہ دندانِ طمع نے خوں کیا ہے دستِ حسرت کا

خدایا ہاتھ اٹھاؤں عرضِ مطلب سے بھلا کیوں‌ کر
کہ ہے دستِ دعا میں گوشہ دامانِ اجابت کا

عنایت کر مجھے آشوب گاہِ حشر غم اک دل
کہ جس کا ہر نفس ہم نغمہ ہو شورِ قیامت کا

جراحت زار اک جان دے کہ جس کی ہر جراحت ہو
نمک داں شورِ الفت سے مزا آئے عیادت کا

فروغِ جلوہء توحید کو وہ برقِ جولاں کر
کہ خرمن پھون دیوے ہستیِ اہل ضلالت کا

مرا جلوہ ہو سر تا پا صفائے مہرِ پیغمبر
مرا حیرت زدہ دل آئینہ خانہ ہو سنت کا

مجھے وہ تیغِ جوہر کر کہ میرے نام سے خوں ہو
دلِ صد پارہ اصحابِ نفاق و اہلِ بدعت کا

خدایا لشکر اسلام تک پہنچا کہ آ پہنچا
لبوں پر دم بلا ہے جوشِ خوں شوقِ شہادت کا

نہ رکھ بیگانہء مہرِ امامِ اقتدا سنّت
کہ انکار آشنائے کفر ہے اس کی امامت کا

امیرِ لشکرِ اسلام کا محکوم ہوں یعنی
ارادہ ہے مرا فوجِ ملائک پر حکومت کا

زمانہ مہدیء موعود کا پایا اگر مومن
تو سب سے پہلے تو کہیو سلامِ پاک حضرت کا
 

فرخ منظور

لائبریرین
آگ اشکِ گرم کو لگے جی کیا ہی جل گیا

آگ اشکِ گرم کو لگے جی کیا ہی جل گیا
آنسو جو اس نے پونچھے شب اور ہاتھ پھل گیا

پھوڑا تھا دل نہ تھا یہ موئے پر خلل گیا
جب ٹھیس سانس کی لگی دم ہی نکل گیا

کیا روؤں خیرہ چشمئ بختِ سیاہ کو
واں شغل سرمہ ہے، ابھی یاں نیل ڈھل گیا

کی مجھ کو ہاتھ ملنے کی تعلیم ورنہ کیوں
غیروں کو آگے بزم میں وہ عطر مل گیا

اس کوچے کی ہوا تھی کہ میری ہی آہ تھی
کوئی تو دل کی آگ پہ پنکھا سا جھل گیا

جوں خفتگانِ خاک ہے اپنی فتادگی
آیا جو زلزلہ کبھی کروٹ بدل گیا

اُس نقشِ پا کے سجدے نے کیا کیا کِیا ذلیل
میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گیا

کچھ جی گرا پڑے تھا پر اب تو نے ناز سے
مجھ کو گرا دیا تو مرا جی سنبھل گیا

مل جائے گریہ خاک میں اس نے وہاں کی خاک
گل کی تھی کیوں کہ پاؤں وہ نازک پھسل گیا

بت خانے سے نہ کعبے کو تکلیف دے مجھے
مومن بس اب معاف کہ یاں جی بہل گیا
 

فرخ منظور

لائبریرین
لگے خدنگ جب اس نالہ سحر کا سا

لگے خدنگ جب اس نالہء سحر کا سا
فلک کا حال نہ ہو کیا مرے جگر کا سا

نہ جاؤں گا کبھی جنت کو میں نہ جاؤں گا
اگر نہ ہووے گا نقشہ تمہارے گھر کا سا

کرے نہ خانہ خرابی تری ندامتِ جور
کہ آب شرم میں ہے جوش چشمِ تر کا سا

یہ جوشِ یاس تو دیکھو کہ اپنے قتل کے وقت
دعائے وصل نہ کی وقت تھا اثر کا سا

لگے ان ہاتھوں سے ہر وقت اے دلِ صد چاک
ترا نہ رتبہ ہوا کیوں شگافِ در کا سا

ذرا ہو گرمیِ صحبت تو خاک کر دے چرخ
مرا سرور ہے گل خندہء شرر کا سا

یہ ناتواں ہوں کہ ہوں اور نظر نہیں‌ آتا
مرا بھی حال وطن میں ہوا سفر کا سا

خبر نہیں‌کہ اسے کیا ہوا پر اُس در پر
نشانِ پا نظر آتا ہے نامہ بر کا سا

دل ایسے شوخ کو مومن نے دے دیا کہ وہ ہے
محبّ حسین کا اور دل رکھے شمر کا سا
 

فرخ منظور

لائبریرین
گر وہاں بھی یہ خموشی اثر افغاں ہوگا

گر وہاں بھی یہ خموشی اثر افغاں ہوگا
حشر میں کون مرے حال کا پرساں ہوگا

ان سے بدخو کا کرم بھی ستمِ جاں ہوگا
میں تو میں غیر بھی دل دے کے پشیماں ہوگا

اور ایسا کوئی کیا بے سر و ساماں ہوگا
کہ مجھے زہر بھی دیجے گا تو احساں ہوگا

محو مجھ سا دمِ نظارۂ جاناں ہوگا
آئینہ آئینہ دیکھے گا تو حیراں ہوگا

خواہشِ مرگ ہو اتنا نہ ستانا، ورنہ
دل میں پھر تیرے سوا اور بھی ارماں ہوگا

ایسی لذت خلشِ دل میں کہاں ہوتی ہے
رہ گیا سینے میں اس کا کوئی پیکاں ہوگا

بوسہ ہائے لبِ شیریں کے مضامیں ہیں نہ کیوں
لفظ سے لفظ میرے شعر کا چسپاں ہوگا

کیا سناتے ہو کہ ہے ہجر میں جینا مشکل
تم سے بے رحم پہ مرنے سے تو آساں ہوگا

حیرتِ حسن نے دیوانہ کیا گر اسکو
دیکھنا خانۂ آئینہ بھی ویراں ہوگا

دیدۂ منتظر آتا نہیں شاید تجھ تک
کہ مرے خواب کا بھی کوئی نگہ باں ہوگا

ایک ہی جلوہ مہ رو میں ہوا سو ٹکڑے
جامۂ صبر جسے کہتے ہیں کتاں ہوگا

گریہی گرمیِ مضموں شرر ریز رہی
رشتۂ شمع سے شیرازۂ دیواں ہوگا

کیوں کہ امیدِ وفا سے ہو تسلی دل کی
فکر ہے یہ کہ وہ وعدے سے پشیماں ہوگا

گرترے خنجرِ مژگاں نے کیا قتل مجھے
غیر کیا کیا ملک الموت کے قرباں ہوگا

اپنے انداز کی بھی ایک غزل پڑھ مومن
آخر اس بزم میں کوئی تو سخن داں ہوگا
 

فرخ منظور

لائبریرین
بے سبب کیوں کہ لبِ زخم پہ اُفغاں ہوگا

بے سبب کیوں کہ لبِ زخم پہ اُفغاں ہوگا
شورِ محشر سے بھرا اس کا نمک داں ہوگا

آخر امید ہی سے چارہء حرماں ہوگا
مرگ کی آس پہ جینا شبِ ہجراں ہوگا

مجمعِ بسترِ مخمل شبِ غم یاد آیا
طالعِ خفتہ کا کیا خواب پریشاں ہوگا

دل میں شوقِ رخِ روشن نہ چھپے گا ہرگز
ماہ پردے میں‌ کتاں کے کوئی پنہاں ہوگا

درد ہے جاں کے عوض ہر رگ و پے میں ساری
چارہ گر ہم نہیں ہونے کے جو درماں ہوگا

شومیِ بخت تو ہے چین لے اے وحشتِ دل
دیکھ زنداں ہی کوئی دن میں‌ بیاباں ہوگا

نسبتِ عیش سے ہوں نزع میں گریاں یعنی
ہے یہ رونا کہ دہن گور کا خنداں ہوگا

بات کرنے میں رقیبوں سے ابھی ٹوٹ گیا
دل بھی شاید اسی بدعہد کا پیماں ہوگا

چارہ جو اور بھی اچھا میں کروں گا ٹکڑے
پردہء شوخ جو پیوندِ گریباں ہوگا

دوستی اس صنم آفتِ ایماں سے کرے
مومن ایسا بھی کوئی دشمنِ ایماں ہوگا
 

فرخ منظور

لائبریرین
دیدہء حیراں نے تماشا کیا

دیدہء حیراں نے تماشا کیا
دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا

ضبط فغاں گو کہ اثر تھا کیا
حوصلہ کیا، کیا نہ کیا، کیا کیا

آنکھ لگنے سے سب احباب نے
آنکھ کے لگ جانے کا چرچا کیا

مرگئے اس کے لب جاں بخش پر
ہم نے علاج آپ ہی اپنا کیا

بجھ گئی اک آہ میں شمعِ حیات
مجھ کو دمِ سرد نے ٹھنڈا کیا

غیر عیادت سے برا مانتے
قتل کیا آن کے اچھا کیا

ان سے پری وش کو نہ دیکھیے کوئی
مجھ کو مری شرم نے رسوا کیا

زندگی ہجر بھی اک موت تھی
مرگ نے کیا کارِ مسیحا کیا

پان میں یہ رنگ کہا آپ نے
آپ مرے خون کا دعویٰ کیا

جور کا شکوہ نہ کروں ظلم ہے
راز مرا صبر نے افشا کیا

کچھ بن آتی نہیں کیا کیجیے
اس کے بگڑنے نے کچھ ایسا کیا

جائے تھی تیری مرے دل میں سو ہے
غیر سے کیوں شکوہء بے جا کیا

رحمِ فلک اور مرے حال پر
تو نے کرم اے ستم آرا کیا

سچ ہی سہی آپ کا پیماں ولے
مرگ نے کب وعدہء فردا کیا

دعویِٰ تکلیف سے جلاد نے
روزِ جزا قتل پھر اپنا کیا

مرگ نے ہجراں میں چھپایا ہے منہ
لو منہ اسی پردہ نشیں کا کیا

دشمنِ مومن ہی رہے بت سدا
مجھ سے مرے نام نے یہ کیا کیا
 

فرخ منظور

لائبریرین
موے نہ عشق میں جب تک وہ مہرباں نہ ہوا

موے نہ عشق میں جب تک وہ مہرباں نہ ہوا
بلائے جاں ہے وہ دل جو بلائے جاں نہ ہوا

خدا کی یاد دلاتے تھے نزع میں احباب
ہزار شکر کہ اس دم وہ بدگماں نہ ہوا

ہنسے نہ غیر مجھے بزم سے اٹھانے پر
سبک ہے وہ کہ تری طبع پر گراں نہ ہوا

دیت میں روزِ جزا لے رہیں گے قاتل کو
ہمارا جان کے جانے میں بھی زیاں نہ ہوا

وہ آئے بہرِ عیادت تو تھا میں شادیِ مرگ
کسی سے چارہء بے دادِ آسماں نہ ہوا

لگی نہیں‌ہے یہ چپ لذتِ ستم سے کہ میں
حریفِ کش مکشِ نالہ و فغاں نہ ہوا

دمِ حساب رہا روزِ حشر بھی یہی ذکر
ہمارے عشق کا چرچا کہاں کہاں نہ ہوا

ہے شرط ہم پہ عنایت میں گونہ گونہ ستم
کبھی محبتِ دشمن کا امتحاں نہ ہوا

وہ حالِ زار ہے میرا کہ گاہ غیر سے بھی
تمہارے سامنے یہ ماجرا بیاں نہ ہوا

امیدِ وعدہء دیدارِ حشر پر مومن
تو بے مزا تھا کہ حسرت کشِ بتاں نہ ہوا
 

فرخ منظور

لائبریرین
سم کھا موے تو دردِ دلِ زار کم ہوا

سم کھا موے تو دردِ دلِ زار کم ہوا
بارے کچھ اس دوا سے تو آزار کم ہوا

کچھ اپنے ہی نصیب کی خوبی تھی بعد مرگ
ہنگامہء محبتِ اغیار کم ہوا

معشوق سے بھی ہم نے نبھائی برابری
واں لطف کم ہوا تو یہاں پیار کم ہوا

آئے غزال چشم سدا میرے دام میں
صیاد ہی رہا میں گرفتار کم ہوا

ناکامیوں کی کاہشِ بے حد کا کیا علاج
بوسہ دیا تو ذوقِ لبِ یار کم ہوا

ہر چند اضطراب میں میں نے کمی نہ کی
تو بھی نہ واں تغافلِ بسیار کم ہوا

کیا مجھ میں‌دم بھی لینے کی طاقت نہیں رہی
کیوں شورِ نالہ ہائے عزا بار کم ہوا

سب تا بہ فتنہ چونک پڑے تیرے عہد میں
اک میرا بخت تھا کہ وہ بیدار کم ہوا

کچھ قیس اور میں ہی نہیں سب کے سب موے
اچھا تو دردِ عشق کا بیمار کم ہوا

ذکرِ بتاں سے پہلی سی نفرت نہیں رہی
کچھ اب تو کفرِ مومنِ دیں دار کم ہوا
 
Top