نہ کیوں کر مطلعِ دیواں ہو مطلع مہرِ وحدت کا
نہ کیوں کر مطلعِ دیواں ہو مطلع مہرِ وحدت کا
کہ ہاتھ آیا ہے روشن مصرع انگشتِ شہادت کا
بچاؤں آبلہ پائی کو کیوں کر خارِ ماہی سے
کہ بام عرش سے پھسلا ہے یارب پاؤں دقت کا
سرشکِ اعترافِ عجز نے الماس ریزی کی
جگر صد پارہ ہے اندیشہء کون گشتہ طاقت کا
نہ یہ دستِ جنوں ہے اور نہ وہ جیبِ جنوں کیشاں
کہ ہو دستِ مژہ سے چاک پردہ چشمِ حیرت کا
نہ دے تیغِ زباں کیوںکر شکستِ رنگ کے طعنے
کہ صف ہائے خرد پر حملہ ہے فوجِ خجالت کا
غضب سے تیرے ڈرتا ہوں رضا کی تیری خواہش ہے
نہ میں بے زار دوزخ سے، نہ میں مشاق جنت کا
گلوے خامہ میں سرمہ مدادِ دودہء دل ہے
مگر لکھنا ہے وصفِخاتمہ جلدِ رسالت کا
نہ پوچھ گرمیِ شوقِ ثنا کی آتش افروزی
بنا جاتا ہے دستِ عجز شعلہ شمعِ فکرت کا
نمک تھا بخت شورِ فکر خوانِ مدح شیریں پر
کہ دندانِ طمع نے خوں کیا ہے دستِ حسرت کا
خدایا ہاتھ اٹھاؤں عرضِ مطلب سے بھلا کیوں کر
کہ ہے دستِ دعا میں گوشہ دامانِ اجابت کا
عنایت کر مجھے آشوب گاہِ حشر غم اک دل
کہ جس کا ہر نفس ہم نغمہ ہو شورِ قیامت کا
جراحت زار اک جان دے کہ جس کی ہر جراحت ہو
نمک داں شورِ الفت سے مزا آئے عیادت کا
فروغِ جلوہء توحید کو وہ برقِ جولاں کر
کہ خرمن پھون دیوے ہستیِ اہل ضلالت کا
مرا جلوہ ہو سر تا پا صفائے مہرِ پیغمبر
مرا حیرت زدہ دل آئینہ خانہ ہو سنت کا
مجھے وہ تیغِ جوہر کر کہ میرے نام سے خوں ہو
دلِ صد پارہ اصحابِ نفاق و اہلِ بدعت کا
خدایا لشکر اسلام تک پہنچا کہ آ پہنچا
لبوں پر دم بلا ہے جوشِ خوں شوقِ شہادت کا
نہ رکھ بیگانہء مہرِ امامِ اقتدا سنّت
کہ انکار آشنائے کفر ہے اس کی امامت کا
امیرِ لشکرِ اسلام کا محکوم ہوں یعنی
ارادہ ہے مرا فوجِ ملائک پر حکومت کا
زمانہ مہدیء موعود کا پایا اگر مومن
تو سب سے پہلے تو کہیو سلامِ پاک حضرت کا