کلیسا ۔ ۔ ۔ ریمنڈ کارور کے افسانے کا ترجمہ (حصہ اول و دوم)

زیف سید

محفلین
مشہور امریکی مصنف ریمنڈ کارور کے مشہور ترین افسانے ’کیتھیڈرل‘ کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔ یہ افسانہ امریکی ادب کے شاہکاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
- - - - - - - - - - - - - -

یہ نابینا شخص، جو میری بیوی کا پرانا دوست تھا، ہمارے گھر میں رات گزارنے آ رہا تھا۔ اس کی بیوی فوت ہو گئی تھی، اس لیے وہ کنیٹی کٹ میں اپنی مرحوم بیوی کے رشتے داروں کے پاس آیا ہوا تھا۔ اس نے اپنی سسرال سے میری بیوی کو فون کیا۔ انتظامات کیے گئے۔ وہ ٹرین سے پانچ گھنٹے کا سفر کر کے آئے گا، اور میری بیوی اسے لینے سٹیشن جائے گی۔ میری بیوی نے آخری بار اسے دس سال قبل دیکھا تھا جب وہ سیئیٹل میں ایک موسمِ گرما میں اس کے ہاں کام کرتی تھی۔ لیکن میری بیوی اور نابینا شخص نے آپس میں رابطہ رکھا تھا۔ وہ کیسٹیں ریکارڈ کر کے ایک دوسرے کو بھیجتے رہتے تھے۔ میں اس کے آنے سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھا۔ وہ میرے جاننے والوں میں سے نہیں تھا۔ اور مجھے اس کے اندھے ہونے سے الجھن ہو رہی تھی۔ اندھے پن کے بارے میں میرے خیالات زیادہ تر فلموں سے آئے تھے۔ فلموں میں اندھےآہستہ آہستہ چلتے تھے اور کبھی ہنستے نہیں تھے۔ کبھی کبھی وہ رہنما کتوں کے سہارے چلتے دکھائے جاتے تھے۔ میرے گھر میں کسی اندھے کی آمد ایسی چیز نہیں تھی جس کا میں گرم جوشی سے انتظار کرتا۔
ان گرمیوں میں اسے نوکری کی ضرورت تھی۔ وہ سیئٹل شہر میں رہتی تھی اور اس کے پاس پیسے ختم ہوگئے تھے۔ جس شخص سے گرمیوں کے اختتام پر اس کی شادی ہونے والی تھی وہ ابھی فوجی تربیتی ادارے میں زیرِ تعلیم تھا۔ اس کے پاس بھی پھوٹی کوڑی نہیں تھی۔ لیکن اِسے اُس سے محبت تھی اور اُسے اِس سے، وغیرہ وغیرہ۔ اس نے اخبار میں اشتہار دیکھا۔ “مدد درکار ہے۔ کام: ایک نابینا کو پڑھ کر سنانا۔” ساتھ میں ایک فون نمبر بھی تھا۔ اس نے فون کیا، نابینا کے گھر گئی اور اسے فوراً ہی رکھ لیا گیا۔ اس نے تمام موسمِ گرما اس نابینا شخص کے ساتھ کام کیا۔ وہ اسے پڑھ کر سناتی تھی، رپورٹیں، کیس، اس قسم کی چیزیں۔ اس نے نابینا کو کاؤنٹی کے سوشل سروس ڈیپارٹمنٹ کا چھوٹا سا دفتر ترتیب دینے میں مدد دی۔ وہ اچھے دوست بن گئے، میری بیوی اوروہ نابینا شخص۔ دفتر میں اس کے آخری دن نابینا شخص نے اس سے کہا کہ کیا وہ اس کے چہرے کو چھو سکتا ہے؟ وہ راضی ہو گئی۔ اس نے مجھے بتایا کہ نابینا شخص نے اس کے چہرے، اس کی ناک، حتیٰ کہ اس کی گردن تک کو اپنی انگلیوں سے چھوا۔ وہ یہ بات کبھی نہیں بھولی۔ اس نے اس بارے میں نظم بھی لکھنے کی کوشش کی تھی۔ وہ ہمیشہ نظمیں لکھنے کی کوشش کرتی رہتی تھی۔ وہ سال میں ایک دو نظمیں لکھتی تھی، خاص طور پر اس وقت جب اس کے ساتھ کوئی اہم واقعہ پیش آیا ہو۔
جب ہماری ملاقاتیں شروع ہوئیں تو اس نے مجھے نظم دکھائی تھی۔ اس نظم میں اس نے اس کی انگلیوں کو یاد کیا تھا، کیسے وہ اس کے چہرے پر پھری تھیں۔ نظم میں اس نے لکھا تھا کہ اس نے اس وقت کیا محسوس کیا تھا، اس کے ذہن میں اس وقت کیا آیا تھا جب نابینا شخص نے اس کی ناک اور ہونٹوں کو چھوا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ مجھے نظم کوئی خاص نہیں لگی تھی۔ ظاہر ہے کہ میں نے اسے یہ بات نہیں بتائی۔ ممکن ہے شاعری میری سمجھ سے بالاتر ہو۔ مجھے اعتراف ہے کہ میرے مطالعے کی ترجیحات میں شاعری کی کتابیں سرِ فہرست نہیں ہوتیں۔
بہر حال، وہ شخص جس نے سب سے پہلے اس کا التفات حاصل کیا، وہ یہ فوجی تھا۔ دونوں بچپن ہی سے ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ ان گرمیوں کے اختتام پر اس نے نابینا شخص کو اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرنے دیا، پھر اس سے رخصت چاہی اور اپنے بچپن کے ساتھی سے شادی کر لی جو اب ایک کمیشنڈ افسر تھا، وغیرہ۔ اس کے بعد دونوں سیئیٹل سے چلے گئے لیکن دونوں کا رابطہ نہیں ٹوٹا۔ اس کا اور نابینا شخص کا۔ پہلا رابطہ اس نے خود لگ بھگ ایک سال بعد کیا تھا۔ اس نے ایک رات الاباما کے ایر فورس بیس سے فون کیا۔ وہ اس سے بات کرنا چاہتی تھی۔ دونوں نے باتیں کیں۔ نابینا شخص نے اس سے کہا کہ وہ اسے ایک کیسٹ ریکارڈ کر کے بھیجے جس میں اپنے بارے میں بتائے۔ اس نے یہی کیا۔ کیسٹ میں اس نے نابینا شخص کو بتایا کہ اسے اپنے خاوند سے محبت ہے لیکن اسے وہ جگہ پسند نہیں جہاں وہ رہتے ہیں۔ اسے یہ بھی پسند نہیں کہ اس کا خاوند ملٹری انڈسٹریل کمپلکس کا حصہ ہے۔ اس نے نابینا شخص کو بتایا کہ اس نے ایک نظم لکھی ہے اور وہ بھی اس نظم میں ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک اور نظم لکھ رہی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اسے ایر فورس کے افسر کی بیوی ہونا کیسا لگ رہا ہے۔ یہ نظم ابھی نامکمل تھی، وہ ابھی اسے لکھ رہی تھی۔ نابینا شخص نے بھی ایک کیسٹ ریکارڈ کر کے بھیجی۔ پھر اس نے کیسٹ ریکارڈ کی۔ یہ سلسلہ برسوں چلتا رہا۔ میری بیوی کے فوجی خاوند کا تبادلہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ہوتا رہا۔ اس نے موڈی، میک گوائر، میک کونل اور آخر میں سیکرامنتو کے قریب واقع ٹریوس سے کیسٹ بھیجی، جہاں ایک رات بار بار منتقلی کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو تنہا اور لوگوں سے کٹا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ اسے احساس ہوا کہ وہ یہ زندگی مزید ایک لمحہ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ اس نے دوائیوں کی دراز میں سے جتنے کیپسول اور گولیاں تھیں وہ سب کی سب جِن کی بوتل کے ساتھ نگل لیں۔ پھر وہ گرم پانی سے بھرے ٹب میں دراز ہو کر بے ہوش ہو گئی۔
لیکن وہ بجائے مرنے کےبیمار پڑ گئی۔ اسے قے ہوئی۔ اس کا فوجی افسر خاوند ۔۔۔ اسے کوئی نام کیوں دیا جائے؟ وہ بچپن کی محبت تھا، آخر اسے اور کیا چاہیئے؟ ۔۔۔ کہیں سے گھر آیا اور اسے اس حالت میں دیکھ کر ایمبولنس کے لیے فون کر دیا۔ کچھ عرصے کے بعد اس نے یہ سب کچھ کیسٹ پر ریکارڈ کر کے نابینا شخص کو بھیج دیا۔ ان تمام برسوں میں وہ ہر قسم کی چیزیں ریکارڈ کر کے بھیجتی رہی۔ میرے خیال سے ہر سال ایک نظم لکھنے کے علاوہ اس کے لیے تفریح کا بڑا ذریعہ یہی تھا۔ کیسٹ میں اس نے نابینا شخص کو بتایا کہ اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے افسر سے کچھ عرصہ دور رہے گی۔ ایک اور کیسٹ میں اس نے اپنی طلاق کے بارے میں بتایا۔ اس دوران میری اور اس کی ملاقاتیں شروع ہو گئی تھیں، اور ظاہر ہے کہ اس نے نابینا شخص سے میرا ذکر بھی کیا۔ وہ اسے سب کچھ بتاتی تھی، یا شاید مجھے ہی ایسا لگتا تھا۔ ایک بار اس نے مجھے بھی کہا کہ کیا میں نابینا شخص کی حالیہ کیسٹ سننا چاہوں گا۔ یہ ایک سال پہلے کی بات ہے۔ اس نے کہا کہ اس میں میرا بھی ذکر ہے۔ سو میں نے کہہ دیا کہ ہاں میں سنوں گا۔ میں نے ہم دونوں کے لیے جام تیار کیے اور ہم ڈرائنگ روم میں سننے کے لیے بیٹھ گئے۔ پہلے اس نے کیسٹ ٹیپ ریکارڈر میں ڈالی اور ایک دو بٹن دبائے۔ کیسٹ چل پڑی اور کسی نے باآوازِ بلند بولنا شروع کر دیا۔ اس نے آواز کم کی۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں نے ایک اجنبی کی زبان سے اپنا نام سنا۔ اس نابینا شخص کی زبان سے جسے میں جانتا تک نہیں تھا۔ اور پھر اس نے یہ کہا، “جو کچھ تم نے بتایا ہے اس کی روشنی میں میں یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہوں ۔۔۔” لیکن اسی دوران دروازے پر دستک ہوئی۔ کچھ ہوا۔ اور ہم دوبارہ کیسٹ سننے کے لیے نہیں جا سکے۔ اچھا ہی ہوا۔ میں نے جو سننا تھا سن لیاتھا۔
اب یہی نابینا شخص میرے گھر میں سونے کے لیے آ رہا تھا۔
“ہو سکتا ہے میں اسے باؤلنگ کے لیے لے جاؤں،” میں نے اپنی بیوی سے کہا۔ وہ آلو کاٹ رہی تھی۔ اس نے چھری نیچے رکھ دی اور میری طرف مڑی۔
“اگر تمہیں مجھے سے محبت ہے،” وہ بولی، “تو تم میرے لیے یہ کر سکتے ہو۔ اگر تمہیں مجھ سے محبت نہیں ہے، تو ٹھیک ہے۔ لیکن اگر تمہارا کوئی دوست ہو، کوئی بھی دوست، اور وہ یہاں آئے تو میں اس کے آرام و سکون کا پورا خیال رکھوں گی۔” اس نے اپنے ہاتھ تولیے سے صاف کیے۔
“میرا کوئی دوست اندھا نہیں ہے،” میں نے کہا۔
“تمہارا کوئی دوست ہی نہیں ہے،” اس نے کہا۔ “قصہ خلاص۔ اور ہاں،” اس نے کہا۔ “لعنت ہو۔ اس کی بیوی ابھی ابھی مری ہے۔ تم سمجھ رہے ہو؟ اس کی بیوی ابھی ابھی مری ہے!”
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے مجھے نابینا شخص کی بیوی کے بارے میں بتایا تھا۔ اس کا نام بیولا تھا۔ بیولا! یہ رنگ دار عورتوں کا نام تھا۔
“اس کی بیوی سیاہ فام تھی؟” میں نے پوچھا۔
“تمہارا دماغ چل گیا ہے؟” میری بیوی نے کہا۔ “تمہارا کوئی پیچ ڈھیلا ہو گیا ہے؟” اس نے ایک آلو اٹھایا۔ میں نے اسے فرش پر گرتے دیکھا، پھر وہ لڑھکتا ہوا چولہے کے نیچے چلا گیا۔ “تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟” اس نے کہا۔ “کیا بہت چڑھا لی ہے؟”
“میں تو ویسے ہی پوچھ رہا تھا۔” میں نے کہا۔
اس کے بعد میری بیوی نے مجھے ضرورت سے زیادہ تفصیلات سے آگاہ کیا۔ میں نے ایک جام بنایا اور باورچی خانے کی میز پر بیٹھا سنتا رہا۔ کہانی کے تانے بانے ملنے لگے۔
جب میری بیوی نے ان گرمیوں کے اختتام پر اس کے لیے کام کرنا چھوڑا تو اس کے بعد بیولا نے وہی کام سنبھال لیا۔ جلد ہی بیولا اور نابینا شخص نے چرچ میں جا کر شادی کر لی۔ یہ مختصر سی تقریب تھی ۔۔۔ آخر اس قسم کی شادیوں میں جاتا ہی کون ہے؟ ۔۔۔ صرف یہ دونوں، پادری اور پادری کی بیوی۔ لیکن یہ پھر بھی چرچ میں ہونے والی روایتی شادی تھی۔ اس نے کہا کہ یہ بیولا کی خواہش تھی۔ لیکن اس وقت بھی بیولا کے بدن میں سرطان کی رسولیاں پنپ رہی ہوں گی۔ اس کے بعد وہ آٹھ سال تک یک جان دو قالب رہے۔
یہ میری بیوی کے الفاظ ہیں ۔۔۔ یک جان دو قالب۔ بیولا کی حالت تیزی سے بگڑتی گئی۔ وہ سیئیٹل کے ایک ہسپتال میں مر گئی، نابینا شخص اس کا ہاتھ تھامے سرہانے بیٹھا رہا۔ انہوں نے شادی کی، ایک ساتھ رہے، ایک ساتھ جیے، ایک ساتھ سوئے اور پھر نابینا شخص کو اسے دفنانا پڑا۔ اور ان سب باتوں کے باوجود یہ جانے بغیر کہ آخر وہ کم بخت عورت لگتی کیسی تھی۔ یہ میری سمجھ سے بالاتر تھا۔ یہ سن کر مجھے نابینا شخص سے تھوڑی ہمدردی ہونے لگی۔ پھر مجھے خیال آیا کہ اس عورت نے کس قدر قابلِ رحم زندگی گزاری ہو گی۔ ایک عورت کا تصور کریں جو کبھی اپنے آپ کو اس روپ میں نہ دیکھ سکے جس روپ میں اس کے محبوب نے اسے دیکھا ہو۔ ایک عورت جسے تمام عمر اپنے محبوب سے معمولی سی تعریف بھی نہ سننے کو ملتی ہو۔ ایک عورت جس کا خاوند کبھی اس کے چہرے کے تاثرات نہ پڑھ سکتا ہو، چاہے وہ تاثرات دکھ کے ہوں یا کسی اور بہتر چیز کے۔ ایک عورت جو چاہے بناؤ سنگھار کرے یا نہ کرے، اس سے کچھ فرق نہ پڑتا ہو۔ وہ اگر چاہے تو ایک آنکھ کے گرد سبز رنگ کا آئی شیڈو لگا لے، ناک میں سیدھی کیل، زرد جرابیں، بنفشی جوتے پہن لے اور کوئی فرق نہ پڑتا ہو۔ اور پھر یوں موت کے منھ میں چلی جائے کہ نابینا خاوند کا ہاتھ اس کا ہاتھ تھامے ہوئے ہو اور اس کی آنکھیں سے آنسو جاری ہو ۔۔۔ میں تصور کر رہا ہوں ۔۔۔ اس کی آخری سوچ شاید یہ ہو کہ اسے کبھی معلوم نہیں ہو سکے گا کہ وہ کیسی لگتی ہے اور وہ سرعت سے قبر کی طرف رواں دواں ہے۔ رابرٹ کو انشورنس پالیسی کی چھوٹی سی رقم ملی اور میکسیکن سکے پیسو کا آدھا حصہ۔ سکے کا دوسرا حصہ اس کے ساتھ تابوت میں گیا۔ واہیات!
سو جب وقت آیا تو میری بیوی اسے لینے کے لیے سٹیشن چلی گئی۔ میرے پاس انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں تھا، جس کا الزام بھی میں نے اسی پر دھرا۔ جام سے چسکیاں لیتے ہوئے اور ٹی وی دیکھتے ہوئے میں نے گھر کے پورچ میں کار مڑنے کی آواز سنی۔ میں جام ہاتھ میں لیے صوفے سے اٹھا اور کھڑکی کے قریب پہنچ گیا۔
میں نے دیکھا کہ میری بیوی گاڑی کھڑی کرتے کرتے ہنس رہی تھی۔ میں نے اسے گاڑی سے نکلتے اور دروازہ بند کرتے دیکھا۔ اس کے چہرے پر ابھی تک مسکراہٹ تھی۔ وہ گاڑی کے گرد گھوم کر دوسری طرف گئی جہاں نابینا شخص پہلے ہی گاڑی سے نکلنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ وہ نابینا شخص، ذرا سوچیئے، اس کے چہرے پر پوری داڑھی تھی! اندھے کی داڑھی! میں کہتا ہوں کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ نابینا شخص نے پچھلا دوازہ کھولا اور سیٹ پر سے ایک سوٹ کیس گھسیٹ کر باہر نکال لیا۔ میری بیوی نے اس کا بازو تھام لیا، گاڑی کا دروازہ بند کیا اسے پورچ کی سیڑھیوں تک لے آئی۔ میں نے ٹی وی بند کر دیا۔ میں نے اپنا جام ختم کیا، اسے نلکے کے نیچے دھویا ، ہاتھ سکھائے۔ پھر میں دروازے تک چلا گیا۔
میری بیوی نے کہا، “رابرٹ سے ملو۔ رابرٹ، یہ میرے شوہر ہیں۔ میں نے تمہیں ان کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے۔”اس کے ہونٹوں پر مسکان کھیل رہی تھی۔ اس نے نابینا شخص کے کوٹ کی آستین تھام رکھی تھی۔
نابینا شخص نے سوٹ کیس نیچے رکھ دیا اور اس کا ہاتھ نکل کر سامنے آ گیا۔
میں نے اسے تھام لیا۔ اس نے تھوڑا سا دبایا، کچھ دیر ہاتھ پکڑے رکھا، پھر چھوڑ دیا۔
“مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم پہلے مل چکے ہیں۔” اس نے کہا۔
“بالکل،” میں نے کہا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اور کیا کہوں۔ پھر میں نے کہا۔ “خوش آمدید۔ میں نے آپ کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا ہے۔” ہم تینوں نے اکٹھے پورچ سے لِونگ روم کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ میری بیوی نے اس کا بازو پکڑا ہوا تھا۔ نابینا شخص نے دوسرے ہاتھ میں سوٹ کیس اٹھایا ہوا تھا۔ میری بیوی کچھ اس طرح کی باتیں کر رہی تھی، “اپنے بائیں جانب رابرٹ۔ ہاں، یہیں۔ اب دیکھنا آگے کرسی ہے۔ ہاں یہ۔ بس یہیں بیٹھ جائیے۔ یہ صوفہ ہے۔ ہم نے اسے دو ہفتے پہلے ہی خریدا ہے۔”
میں نے پرانے صوفے کے بارے میں کچھ کہنا چاہا۔ مجھے پرانا صوفہ پسند تھا۔ لیکن میں نے کچھ بھی نہیں کہا۔ پھر میں نے کچھ اور کہنا چاہا۔ ویسے ہی عام سی کوئی بات۔ جیسے دریائے ہڈسن کے کنارے کے حسین مناظر۔ یہ کہ نیویارک جاتے ہوئے آپ کو ٹرین میں دائیں ہاتھ پر بیٹھنا چاہیئے، جب کہ نیویارک سے آتے ہوئے بائیں ہاتھ پر۔
“آپ کا سفر ٹھیک گزرا؟” میں نے کہا۔ “ویسے، آپ ٹرین میں کون سی طرف بیٹھے ہوئے تھے؟”
“کیا سوال ہے، کون سی طرف!” میری بیوی نے کہا۔ “اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کون سی طرف بیٹھے ہوئے تھے؟” اس نے کہا۔
“میں تو ویسے ہی پوچھ رہا تھا،” میں نے کہا۔
“داہنی طرف،” نابینا شخص نے کہا۔ “میں نے کوئی چالیس سال بعد ٹرین کا سفر کیا ہے۔ جب میں چھوٹا سا لڑکا تھا اس وقت میں آخری بار ٹرین میں بیٹھا تھا۔ اپنے والدین کے ساتھ۔ بڑے زمانے کی بات ہے یہ۔ میں تو وہ احساس ہی بھلا بیٹھا تھا۔ اور اب میری داڑھی پر برف گر رہی ہے۔” اس نے کہا۔ “یا پھر مجھے کچھ ایسا ہی بتایا جاتا ہے۔ کیا میں دوسروں سے الگ نظر آتا ہوں، عزیزم؟”نابینا شخص نے میری بیوی سے پوچھا۔
“تم دوسروں سے الگ نظر آتے ہو، رابرٹ،” اس نے کہا۔ “رابرٹ، تمہیں دیکھ کر اچھا لگ رہا ہے۔”
میری بیوی نے بالآخر نابینا شخص سے نظریں ہٹائیں اور میری طرف دیکھا۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے اس نے جو کچھ دیکھا وہ اسے پسند نہیں آیا۔ میں نے کندھے اچکا دیے۔
میں کبھی کسی نابینا سے نہیں ملا تھا، نہ ہی کسی نابینا کو جانتا تھا۔ یہ نابینا شخص پچاس سے کچھ ہی کم ہو گا۔ بھاری بدن، سر کے بال تیزی سے گرتے ہوئے اور جھکے ہوئے کندھے، جیسے وہاں کوئی بھاری بوجھ رکھا ہوا ہو۔ اس نے بھورے رنگ کی پتلون پہن رکھی تھی، بھورے جوتے، ہلکی بھوری قمیص، ٹائی اور کوٹ۔ لش پش! اور اس کی بھرپور داڑھی۔ لیکن اس کے ہاتھ میں چھڑی تھی اور نہ ہی اس نے کالے چشمے لگائے ہوئے تھے۔ میں سمجھتا تھا کہ کالے چشمے نابیناؤں کے لیے لازمی ہوتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے چاہا کہ کاش اس نے کالے چشمے پہنے ہوتے۔ پہلی نظر میں اس کی آنکھیں عام آنکھوں ہی کی طرح لگتی تھیں۔ لیکن اگر غور سے دیکھیں تو تھوڑی مختلف نظر آتی تھی۔ ایک بات تو یہ کہ آنکھ کا سفید حصہ کچھ زیادہ ہی سفید تھا۔ اس کے علاوہ پتلیاں اس کی مرضی یا علم کے بغیر ادھر ادھر حرکت کر رہی تھیں۔ کریہہ! میں نے دیکھا کہ اس کی بائیں پتلی اس کی ناک کی طرف مڑی ہوئی تھی جب کہ دوسری پتلی اپنی جگہ پر برقرار رہنے کی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن یہ صرف کوشش ہی تھی، کیوں یہ آنکھ اس کی خواہش یا علم کے بغیر ادھر ادھر گھوم رہی تھی۔
میں نے کہا، “میں آپ کے لیے کچھ پینے کو لاتا ہوں۔ کیا پسند کریں گے آپ ؟ ہمارے پاس تھوڑا تھوڑا سب کچھ ہے۔ یہی ہمارا شوق ہے۔”
“بب، میں سکاچ پسند کرتا ہوں۔”اس نے اپنی بھاری آواز میں تیزی سے کہا۔
“ٹھیک!” میں نے کہا۔ بب! “مجھے پتا تھا۔”
اس نے اپناسوٹ کیس ٹٹولا، جو صوفے کے ساتھ رکھا ہوا تھا۔ وہ اپنے سامان کا جائزہ لے رہا تھا۔ میں نے اس کے لیے اسے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا۔
“میں اسے آپ کے کمرے تک پہنچا دوں گی۔” میری بیوی نے کہا۔
“نہیں، یہیں ٹھیک ہے،” نابینا شخص نے بلند آواز میں کہا۔ “جب اوپر جانا ہوا میں خود لے جاؤں گا۔”
“سکاچ کے ساتھ تھوڑا سا پانی؟” میں نے کہا۔
“بہت تھوڑا سا،” اس نے کہا۔
“مجھے پتا تھا،” میں نے کہا۔
اس کہا، “بس تھوڑا سا۔ وہ آئرش اداکار، بیری فٹزجیرلڈ؟ میں اس کی طرح ہوں۔ اس کا قول ہے کہ جب مجھے پانی پینا ہوتا ہے تو میں پانی پیتا ہوں، اور جب مجھے وسکی پینا ہوتی ہے تو میں وسکی پیتا ہوں۔” میری بیوی ہنس پڑی۔ نابینا شخص اپنا ہاتھ داڑھی کے نیچے لے آیا۔ اس نے آہستگی سے داڑھی اٹھائی اور پھر اسے گرنے دیا۔
میں نے جام تیار کیے۔ سکاچ کے تین بڑے گلاس، تھوڑے سے پانی کے ساتھ۔ پھر میں نے رابرٹ سے اس کے سفر کے بارے میں پوچھا۔ پہلے تو ہم نے امریکہ کے مغربی ساحل سے کنیٹی کٹ تک لمبی پرواز کے بارے میں باتیں کیں۔ پھر کنیٹی کٹ سے یہاں تک کے ٹرین کا سفر۔ ہم نے شراب کے ایک اور دور کے دوران اس پر تبادلۂ خیال کیا۔
مجھے یاد آیا میں نے کہیں پڑھ رکھا تھا کہ نابینا افراد سگریٹ نہیں پیتے، کیوں کہ مبینہ طور پر وہ خود کو دھواں اگلتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ میرا خیال ہے مجھے نابیناؤں کے بارے میں بس اسی قدر معلوم تھا۔ لیکن اس نابینا شخص نے سگریٹ فلٹر تک پیا اور پھر دوسرا سلگا لیا۔ اس نابینا شخص نے ایش ٹرے بھر دی اور میری بیوی نے اسے خالی کیا۔
جب ہم کھانا کھانے کے لیے بیٹھے تو ہم نے ایک اور جام پیا۔ میری بیوی نے رابرٹ کی پلیٹ گوشت کے قتلوں، آلوؤں اور سبز لوبیے سے بھر دی۔ میں نے اس کی ڈبل روٹی پر مکھن لگایا۔ میں نے کہا، “یہ رہا تمہارا بریڈ اینڈ بٹر۔” میں نے اپنی شراب کا گھونٹ نگلا۔ “آئیے اب دعا کریں،” میں نے کہا، اور نابینا شخص نے اپنا سر تھوڑا سا جھکا لیا۔ میری بیوی نے میری طرف دیکھا۔ اس کا منھ کھلا ہوا تھا۔ “دعا کریں کہ فون کی گھنٹی نہ بجے اور کھانا ٹھنڈا نہ ہو،” میں نے کہا۔
ہم دل جمعی سے کھاتے رہے۔ جو کچھ میز پر تھا وہ ہم چٹ کر گئے۔ ہم نے یوں کھایا جیسے کل کا دن نہیں آئے گا۔ ہم نے باتیں نہیں کیں۔ ہم کھاتے رہے۔ ہم نے میز خالی کر دی۔ ہم تن دہی سے کھاتے رہے۔ نابینا شخص نے فوراً ہی اپنا کھانا ڈھونڈ لیا، اسے فوراً ہی پتا چل گیا تھا کہ اس کی پلیٹ میں کیا کچھ ہے۔ میں اسے گوشت پر کانٹا اور چھری استعمال کرتے دیکھ کر متاثر ہوا۔ وہ گوشت کے قتلے کو دو حصوں میں کاٹتا تھا، پھر کانٹے کی مدد سے انہیں منھ میں لے جاتا تھا۔ اس کے بعد اس نے آلوؤں کا رخ کیا، پھر لوبیے کی باری آئی، پھر اس نے مکھن لگے ہوئے توس کو کاٹا اور کھانا شروع کر دیا۔ اس کے بعد اس نے دودھ کا بڑا گلاس ختم کیا۔ درمیان میں کبھی کبھار اسے اپنی انگلیاں استعمال کرنے سے بھی عار نہیں تھا۔
ہم نے آدھی سٹرابیری پائی سمیت سب کچھ ختم کر ڈالا۔ کئی لمحوں تک تو ہم یوں بیٹھے رہے جیسے سکتے کی حالت میں ہوں۔ ہمارے چہروں پر پسینے کے قطرے جھلملا رہے تھے۔ آخر ہم گندی پلیٹیں وہیں چھوڑ کر میز سے اٹھ گئے۔ ہم نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ہم اپنے آپ کو لونگ روم تک لے آئے اور اپنی اپنی جگہوں پر ڈھیر ہو گئے۔ رابرٹ اور میری بیوی صوفے پر بیٹھے، میں بڑی کرسی پر۔ ہم نے دو تین مزید جام پیے اور اس دوران گذشتہ دس برسوں میں انہیں پیش آنے والے اہم واقعات کا ذکر کرتے رہے۔ میں زیادہ تر سنتا رہا۔ کبھی کبھار بیچ میں شامل ہو جایا کرتا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ رابرٹ سمجھے کہ میں کمرے میں موجود ہی نہیں ہوں، اور میں یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ میری بیوی سمجھے کہ میں اپنے آپ کو کٹا ہوا محسوس کر رہا ہوں۔ وہ اس بارے میں بولتے رہے کہ پچھلے دس برسوں میں ان کے ساتھ ۔۔۔ ان کے ساتھ! ۔۔۔ کیا کیا واقعات پیش آئے۔ میں اپنی بیوی کے حسین لبوں پر اپنا نام آنے کا بے سود انتظار کرتا رہا: “جب میرے پیارے شوہر میری زندگی میں آئے ۔۔۔” یا کچھ ایسی ہی بات۔ لیکن میں نے ایسی کوئی بات نہیں سنی۔ زیادہ تر باتیں رابرٹ کے بارے میں تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے رابرٹ نے تھوڑا تھوڑا ہر کام کیا تھا۔ اندھا ہر فن مولا! لیکن حال ہی میں اس نے کسی قسم کا کاروبار شروع کیا تھا، جس سے گزر بسر ہو جایا کرتی تھی۔ نابینا شخص ریڈیو سٹیشن پر اناؤنسربھی تھا۔ اس نے اپنی بھاری آواز میں ان گفتگوؤں کا ذکر کیا جو وہ گوام، فلپائن، الاسکا اور تاہیتی وغیرہ میں دوسرے اناؤنسروں سے کیا کرتا تھا۔ اس نے کہا کہ اگر وہ کبھی ان جگہوں میں جائے تو وہاں اس کے بہت سے دوست ہوں گے۔ وقتاً فوقتاً وہ اپنا اندھا چہرہ میری طرف پھیر لیتا تھا اور داڑھی کے نیچے ہاتھ رکھ کر مجھ سے کچھ پوچھنے لگتا تھا۔ مجھے اپنی حالیہ نوکری میں کتنا عرصہ ہو گیا؟ (تین سال)۔ کیا مجھے اپنا کام پسند ہے؟ (نہیں)۔ کیا میں یہ کام جاری رکھوں گا؟ (اور چارہ ہی کیا ہے؟)۔ آخر جب مجھے لگا کہ اس کے پاس باتیں ختم ہو رہی ہیں تو میں اٹھا اور ٹی وی آن کر دیا۔
میری بیوی نے میری طرف ترشی سے دیکھا۔ اس کا پیمانہ لبریز ہونے کے قریب تھا۔ اس نے نابینا شخص کی طرف دیکھا اور پوچھا، “رابرٹ، کیا تمہارے پاس ٹی وی ہے؟”
نابینا شخص نے کہا، “عزیزم، میرے پاس دو ٹی وی ہیں۔ ایک رنگین اور دوسرا پرانا بلیک اینڈ وائٹ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مجھے جب بھی ٹی وی دیکھنا ہوتا ہے، اور میں اکثر ٹی وی دیکھتا ہوں، تو میں ہمیشہ رنگین سیٹ آن کرتا ہوں۔ ہے نا مزے کی بات؟”
میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہوں۔ میرے پاس کہنے کے لیے بالکل کچھ نہیں تھا۔ کوئی تبصرہ نہیں، کوئی خیال نہیں۔ سو میں ٹی وی پر خبریں سنتا رہا۔
“ٹی وی رنگین ہے،” نابینا شخص نے کہا۔ “مجھ سے یہ نہ پوچھنا کہ مجھے کیسے معلوم ہے، لیکن بس مجھے پتا ہے۔”
“ہم نے کئی سال پہلے پرانا دے کر یہ لے لیا تھا،” میں نے کہا۔
نابینا شخص نے ایک اور جام لے لیا تھا۔ اس نے اپنی داڑھی اٹھائی، اسے سونگھا اور پھر چھوڑ دیا۔ وہ صوفے پر آگے کی طرف جھکا۔ اس نے اپنی ایش ٹرے تپائی پر درست کی، پھر لائٹر سے سگریٹ سلگا لیا۔ پھر وہ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور ٹانگیں پھیلا لیں۔
میری بیوی نے اپنے منھ پر ہاتھ رکھ لیا اور جماہی لی۔ اس نے انگڑائی لی۔ پھر بولی، “میرا خیال ہے کہ میں اوپر چلی جاؤں اور کپڑے تبدیل کر لوں۔ رابرٹ تم بھی آرام سے بیٹھ جاؤ،” اس نے کہا۔
“میں آرام سے ہوں،” نابینا شخص نے کہا۔
“میں چاہتی ہوں کہ تم اس گھر میں آرام سے رہو،” اس نے کہا۔
“میں آرام سے ہوں،” نابینا شخص نے کہا۔
اس کے بعد وہ کمرے سے چلی گئی، وہ اور میں موسم کا حال اور کھیلوں کا جائزہ سنتے رہے۔ اسے گئے ہوئے اتنی دیر ہو گئی کہ میں سوچنے لگ گیا پتا نہیں وہ واپس بھی آئے گی یا نہیں۔ میں چاہتا تھا کہ وہ نیچے آ جائے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میں نابینا شخص کے ساتھ اکیلا بیٹھا رہوں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اسے ایک اور جام چاہیئے، اور اس نے کہا ،کیوں نہیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا وہ میرے ساتھ چرس کا کش لگانا پسند کرے گا۔ میں نے کہا کہ میں نے ابھی ابھی ایک سگریٹ تیار کیا ہے۔ میں نے کیا نہیں تھا، لیکن میں تھوڑی دیر بعد ایسا کرنے والا تھا۔
“میں تمہارے ساتھ ایک دو کش لگا لوں گا،” اس نے کہا۔
“زبردست،” میں نے کہا۔ “یہ ہوئی نا بات۔”
میں نے جام اٹھائے اور اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا۔ پھر میں نے دو تگڑے سگریٹ تیار کیے۔ میں نے ایک سلگایا اور اسے تھما دیا۔ اس نے ایک کش لیا۔
“دھواں زیادہ سے زیادہ دیر اندر ہی رکھو،” میں نے کہا۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ اس کی معلومات اس بارے میں صفر تھیں۔
میری بیوی گلابی گاؤن اور گلابی سلیپر پہنے ہوئے نیچے آئی۔
“یہ بو کیسی ہے؟” اس نے کہا۔
“میں نے سوچا کہ ہم ذرا دم لگا لیں،” میں نے کہا۔
میری بیوی نے وحشیانہ نظروں سے مجھے دیکھا ۔ پھر اس نے نابینا شخص کی طرف دیکھا اور کہا، “رابرٹ، مجھے معلوم نہیں تھا کہ تم بھی پیتے ہو۔”
اس نے کہا، “پتا نہیں عزیزم۔ ہر کام کبھی نہ کبھی پہلی بار کیا جاتا ہے۔ لیکن مجھے ابھی تک کچھ محسوس نہیں ہوا۔”
“یہ کافی ہلکا مال ہے،” میں نے کہا۔ “یہ ایسی چرس ہے جس کے ساتھ آدمی تال ملا سکتا ہے،” میں نے کہا۔ “یہ آدمی کو تلپٹ نہیں کرتی۔”
“ہاں، بب،” اس نے کہا اور ہنسنے لگا۔
میری بیوی صوفے پر نابینا شخص اور میرے درمیان بیٹھ گئی۔ میں نے سگریٹ اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے ایک ہلکا سا کش لگا کر دوبارہ مجھے تھما دیا۔ “کہاں جا رہا ہے یہ؟”اس نے کہا۔ پھر وہ بولی، “مجھے نہیں پینا چاہیئے۔ میں تو مشکل سے اپنی آنکھیں کھلی رکھ پا رہی ہوں۔ میرا تو کھانے ہی نے کام تمام کر دیا ہے۔ مجھے اتنا زیادہ نہیں کھانا چاہیئے تھا۔”
“یہ سٹرابیری پائی تھی،” نابینا شخص نے کہا۔ “اس نے کام دکھایا ہے،” اس نے کہااور بلند قہقہہ لگایا۔ پھر اس نے اپنا سر ہلایا۔
“سٹرابیری پائی ابھی باقی ہے،” میں نے کہا۔
“تمہیں اور چاہیئے، رابرٹ؟” میری بیوی نے کہا۔
“تھوڑی دیر بعد،” اس نے کہا۔
ہم ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئے۔ میری بیوی نے پھر جمائی لی۔ اس نے کہا،”تمہارا بستر تیار ہے، تم جب چاہوبستر پر جا سکتے ہو۔ مجھے پتا ہے تم نے لمبا سفر کیا ہے۔ جب بھی تمہارا دل سونے کو کرے، بتا دینا۔”
اس نے اس کا بازو ہلایا۔ “رابرٹ؟”
وہ اپنے حواس میں آیا اور کہا، “میں تو بہت اچھا محسوس کر رہا ہوں۔ یہ کیسٹوں سے کہیں بہتر ہے، نہیں؟”
میں نے کہا، “یہ لو،” اور سگریٹ اس کے انگلیوں میں تھما دیا۔ اس نے دھواں اندر کھینچا، اسے تھوڑی دیر اندر رکھا اور پھر اگل دیا۔ یہ کام اس نے اس طریقےسے کیا جیسے نو سال کی عمر سے یہی کرتا چلا آیا ہو۔
“شکریہ، بب،” اس نے کہا۔ “لیکن میرا خیال ہے کہ میرے لیے یہی کافی ہے۔ میرا خیال ہے کہ مجھ پر اثر ہو رہا ہے،” اس نے کہا۔ اس نے جلتا ہوا سگریٹ میری بیوی کی طرف بڑھا دیا۔
“یہاں بھی یہی حال ہے،” اس نے کہا۔ اس نے سگریٹ مجھے پکڑا دیا۔ “میں تھوڑی دیر تک تم دونوں کے درمیان آنکھیں بند کر کے بیٹھتی ہوں۔ لیکن تم دونوں میری وجہ سے کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیئے، ٹھیک ہے؟ دونوں کو۔ اگر تمہیں کوئی مسئلہ ہو تو بتا دو۔ ورنہ جب تک تم بستر پر جانے کے لیے تیار نہیں ہو جاتے میں یہیں آنکھیں بند کر کے بیٹھتی ہوں،” اس نے کہا۔ “تمہارا بستر تیار ہے، رابرٹ، جب بھی تم تیار ہو۔ تمہارا کمرا سیڑھیوں کے اوپر ہمارے کمرے کے برابر ہے۔ جب تم تیار ہو تو میں تمہیں دکھا دوں گی۔ صاحبان، اگر میں سو جاؤں تو مجھے جگا دینا۔” اس نے کہا اور پھر آنکھیں بند کر لیں اور سو گئی۔
خبریں ختم ہو گئی تھیں۔ میں اٹھا اور چینل بدل دیا۔ میں صوفے پر آ کر بیٹھ گیا۔ میں نے چاہا کہ میری بیوی نہ سوئی ہوتی۔ اس کا سر صوفے کی پشت پر ٹکا ہوا اور منھ کھلا ہوا تھا۔ وہ تھوڑا سا ایک طرف کو یوں مڑی ہوئی تھی کہ اس کا گاؤن ٹانگوں سے سرک گیا تھا، اور اس کی گداز ران نظر آ رہی تھی۔ میں نے آگے بڑھ کر گاؤن درست کیا۔ یہیں میں نے نابینا شخص پر ایک نظر ڈالی۔ بھاڑ میں جائے! میں نے گاؤن دوبارہ کھول لیا۔
“اگر سٹرابیری پائی کی طلب ہو تو بتا دینا،” میں نے کہا۔
“ضرور،” اس نے کہا۔
میں نے کہا، “کیا آپ تھکے ہوئے ہیں؟ کہیں تو میں آپ کو بستر تک لے جاؤں؟ نیند آ رہی ہے؟”
“ابھی نہیں،” اس نے کہا۔ “میں چاہوں گا کہ تھوڑی دیر آپ کے ساتھ بیٹھا رہوں، بب، اگر آپ کو اعتراض نہ ہو۔ میں اس وقت تک بیٹھا رہوں گا جب تک آپ سونے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ہمیں بات کرنے کا زیادہ موقع نہیں مل سکا۔ پتا ہے میں کیا کہہ رہا ہوں؟ مجھے لگتا ہے جیسے میں نے اور آپ کی بیگم نے شام پر قبضہ جما لیا تھا۔” اس نے اپنی داڑھی اٹھائی اور گرا دی۔ اس نے اپنے سگریٹ اور لائٹر اٹھا لیا۔
“ٹھیک ہے،” میں نے کہا۔ پھر میں نے کہا، “میں کمپنی کے لیے خوش ہوں۔”
میرا خیال ہے کہ میں واقعی خوش تھا۔ ہر رات میں سوٹا لگاتا تھا اور جب تک جاگ سکتا، جاگتا رہتا تھا تھا۔ میری بیوی اور میں کبھی کبھار ہی ایک ساتھ بستر پر جاتے تھے۔ جب میں سوتا تھا تب مجھے خواب آتے تھے۔ بعض اوقات میں خواب کے دوران اٹھ جاتا تھا، میرا دل پاگلوں کی طرح دھڑک رہا ہوتا تھا۔
ٹی وی پر قرونِ وسطیٰ اور چرچوں کے بارے میں کوئی پروگرام آ رہا تھا۔ اور یہ کوئی عام روزانہ دکھایا جانے والا پروگرام نہیں تھا۔ میں چینل بدلنا چاہتا تھا۔ میں نے دوسرے چینل دیکھنا شروع کر دیے، لیکن وہاں کوئی خاص چیز نہیں تھی۔ اس لیے میں نے دوبارہ پہلا چینل لگا دیا اور معذرت کی۔
“کوئی مسئلہ نہیں، بب،” نابینا شخص نے کہا۔ “یہاں سب چلتا ہے۔ جو بھی تم دیکھنا چاہتے ہو، میرے لیے ٹھیک ہے۔ میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا ہوں۔ سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اگر آج کی رات میں کچھ سیکھ لوں تو کیا حرج ہے۔ میرے کان سلامت ہیں،” اس نے کہا۔
ہم تھوڑی دیر تک خاموش رہے۔ وہ آگے کی طرف جھکا ہوا تھا اور اس کا سر میری طرف، جب کہ داہنا کان ٹی وی کی طرف مڑا ہوا تھا۔ بہت ناگوار سی صورتِ حال تھی۔ کبھی کبھی اس کے پپوٹے بند ہو جاتے اور پھر دوبارہ کھل جاتے۔ کبھی کبھی وہ اپنی انگلیاں اپنی داڑھی میں پھنسا لیتا اور کھینچتا، جیسے وہ ٹی وی پر کسی چیز کے بارے میں سنتے ہوئے کچھ سوچ رہا ہو۔
سکرین پر جبے پہنے ہوئے چند لوگ دکھائے جا رہے تھے، جن پر کچھ ایسے لوگ تشدد کر رہے تھے جنہوں نے شیطانوں کی طرح کے لباس پہنے ہوئے تھے۔ انہوں نے شیطانی نقاب اوڑھے ہوئے تھے، جسم پر ڈھانچوں جیسے لباس تھے، سر پر سینگ تھے، اور لمبی دمیں تھیں۔ یہ سوانگ ایک جلوس کا حصہ تھا۔ ایک انگریز تبصرہ کرتا جا رہا تھا کہ یہ جلوس سپین میں ہر سال نکالا جاتا ہے۔ میں نے نابینا شخص کو سمجھانے کی کوشش کی کہ کیا دکھایا جا رہا ہے۔
“ڈھانچے،” اس نے کہا۔ “مجھے ڈھانچوں کا پتا ہے،” اس نے کہا اور سر ہلایا۔
ٹی وی پر ایک کلیسا دکھایا گیا۔ پھر تھوڑی دیر تک ایک اور۔ آخر میں پیرس کے مشہور کلیسا پر کیمرا مرکوز کیا گیا جس کے ہوائی پشتے اور کلس بادلوں تک پہنچ رہے تھے۔ کیمرا پیچھے ہٹا اور پورے کلیسا کو احاطے میں لے لیا۔ پس منظر میں افق تھا۔
تھوڑی تھوڑی دیر بعد تبصرہ کرنے والا انگریز خاموش ہو جاتا تھا اور اپنی بجائے کیمرے کو کلیساؤں پر تبصرہ کرنے کے لیے چھوڑ دیتا تھا۔ یا پھر کیمرا دیہات کے مناظر دکھانا شروع کر دیتا تھا، مرد کھیتوں میں بیلوں کے پیچھے چلتے ہوئے۔ میں جب تک ہو سکا، انتظار کرتا رہا۔ پھرمجھے محسوس ہوا کہ مجھے کچھ کہنا چاہیئے۔ میں نے کہا، “اب کلیسا کے باہر کا منظر دکھایا جا رہا ہے۔ گیرگوئل۔ چھوٹے چھوٹے بت جو بھتنوں کی شکل میں تراشے جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے اب یہ اٹلی دکھا رہے ہیں۔ ہاں، اٹلی ہی ہے۔ اس چرچ کی دیواروں پر تصاویر ہیں۔”
“کیا یہ فریسکو تصاویر ہیں، بب؟” اس نے پوچھا اور اپنے جام سے چسکی لی۔
میں نے اپنے گلاس کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ لیکن وہ خالی تھا۔ میں نے کچھ یاد کرنے کی کوشش کی۔ “تم پوچھ رہے ہو کہ کیا یہ فریسکو ہیں؟” میں نے کہا۔ “اچھا سوال ہے۔ مجھے نہیں پتا۔”
کیمرا اب لزبن کے باہر ایک کلیسا دکھا رہا تھا۔ پرتگالی اور فرانسیسی یا اطالوی کلیساؤں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی معمولی فرق ضرور تھا۔ زیادہ تر عمارتوں کے اندر والے حصے میں۔ پھر مجھے ایک خیال آیا اور میں نے کہا، “مجھے ابھی ابھی احساس ہوا ہے۔ آپ کو پتا ہے کہ کلیسا کیا ہوتا ہے؟ کیسا دکھائی دیتا ہے؟ آپ میری بات سمجھ رہے ہیں نا؟ اگر کوئی آپ سے کلیسا کہے تو آپ کیسا سمجھیں گے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ مثلاًً، آپ کو معلوم ہے کہ بیپٹسٹ چرچ اور کلیسا میں کیا فرق ہوتا ہے؟”
 

زیف سید

محفلین
کلیسا ۔ ۔ ۔ ریمنڈ کارور کے افسانے کا ترجمہ (حصہ دوم)

اس نے اپنے منھ سے دھواں خارج ہونے دیا۔ “میں جانتا ہوں کہ سینکڑوں مزدور پچاس یا سو سال کام کر کے ایک کلیسا تعمیر کرتے ہیں،” اس نے کہا۔ “ظاہر ہے میں نے ابھی ابھی اس آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ایک ہی خاندان کی کئی نسلیں ایک کلیسا پر کام کیا کرتی تھیں۔ میں نے یہ بھی اسے کہتے ہوئے سنا ہے۔ جو شخص کلیسا پر کام شروع کرتا تھا اسے کبھی مکمل عمارت دیکھنا نصیب نہیں ہوا کرتا تھا۔ بب، اس لحاظ سے اس میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہے، ٹھیک؟” وہ ہنسا۔ پھر اس کے پپوٹے دوبارہ بند ہو گئے۔ اس نے سر ہلایا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ اونگھ رہا ہے۔ یا پھر وہ خیالوں خیالوں میں پرتگال پہنچ گیا تھا۔ ٹی وی پر اب ایک اور کلیسا دکھایا جا رہا تھا۔ یہ جرمنی میں تھا۔ انگریز بولتا جا رہا تھا۔ “کلیسا،” نابینا شخص نے کہا۔ وہ اٹھ بیٹھا اور سر آگے پیچھے ہلانے لگا۔ “بب، اگر سچ پوچھو تو کلیساؤں کے بارے میں میں اِتنا ہی جانتا ہوں۔ جو میں نے ابھی کہا۔ جو میں نے اسے کہتے سنا۔ اگر تم ان کے بارے میں بیان کرنا چاہو؟ میں چاہتا ہوں کہ تم بتاؤ کرو۔ مجھے اچھا لگے گا۔ اگر تم جاننا چاہتے ہو تو مجھے کوئی خاص نہیں پتا۔”
میں نے ٹی وی پر کلیسا کی تصویر کو غور سے دیکھا۔ کوئی انہیں کس طرح بیان کر سکتا ہے؟ لیکن فرض کیا میری زندگی داؤ پر لگی ہو۔ فرض کیا ایک ایک پاگل کہتا ہے کہ مجھے بیان کرنا پڑے گا، ورنہ۔
میں نے دوبارہ کلیسا کو غور سے دیکھا، پھر سکرین پر کلیسا کی بجائے ایک دیہی منظر آ گیا۔ کوئی فائدہ نہیں تھا۔ میں نابینا شخص کی طرف مڑا اور کہا، “پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بہت اونچے ہوتے ہیں۔” میں کسی سراغ کی تلاش میں کمرے میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ “یہ اوپر کی طرف جاتے ہیں۔ اوپر ،اور اوپر۔ آسمان کی طرف۔ یہ بہت بڑے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ، انہیں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں کھڑا رکھنے کے لیے۔ انہیں پشتے کہا جاتا ہے۔ مجھے انہیں دیکھ کر محرابی پلوں کا خیال آتا ہے، نہ جانے کیوں۔ لیکن شاید آپ کو ان محرابی پلوں کے بارے میں بھی نہیں معلوم؟ بعض اوقات ان کلیساؤں کے سامنے شیطانوں وغیرہ کے چھوٹے چھوٹے مجسمے تراشے جاتے ہیں۔ بعض اوقات عورتوں اور مردوں کے۔ مجھ سے نہ پوچھیئے کیوں،” میں نے کہا۔
وہ سر ہلا رہا تھا۔ اس کا پورا اوپری بدن آگے اور پیچھے ہلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
“میں کوئی زیادہ اچھے طریقے سے بیان نہیں کر رہا؟” میں نے پوچھا۔
اس نے سر ہلانا بند کیا اور صوفے کے کنارے کی طرف سرک آیا۔ میری باتیں سنتے سنتے اس کی انگلیاں داڑھی میں رواں تھیں۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ میری باتیں اس تک نہیں پہنچ رہیں۔ لیکن اس نے پھر بھی مجھے بولتے رہنے دیا تھا۔ اس نے سر ہلایا، جیسے وہ میری ہمت بندھا رہا ہو۔ میں سوچنے لگا کہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ “یہ بہت بڑے ہوتے ہیں،” میں نے کہا۔ “بہت ہی بڑے۔ انہیں پتھر سے بنایا جاتا ہے۔ کبھی کبھی سنگِ مرمر سے بھی۔ پرانے وقتوں میں جب یہ کلیسا بنائے جاتے تھے اس وقت انسان خدا کے قریب ہونا چاہتا تھا۔ اس زمانے میں خدا ہر کسی کی روزمرہ زندگی کا اہم حصہ تھا۔ اس بات کا اندازہ آپ کلیساؤں کی تعمیر سے لگا سکتے ہیں۔ معذرت چاہتا ہوں،” میں نے کہا، “لیکن لگتا ہے کہ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ میں اس طرح کے کاموں کا زیادہ ماہر نہیں ہوں۔”
“ٹھیک ہے، بب،” نابینا شخص نے کہا۔ “ارے، سنیئے۔ امید ہے آپ برا نہیں منائیں گے۔ کیا میں آپ سے بات پوچھ سکتا ہوں؟ ایک سادہ سا سوال ہے، ہاں یا ناں۔ بس مجھے ویسے ہی اشتیاق ہے، اگر آپ محسوس نہ کریں۔ آپ میرے میزبان ہیں۔ لیکن مجھے یہ پوچھنے کی اجازت دیجیئے کہ کیا آپ کسی بھی لحاظ سے مذہبی ہیں؟ آپ کو برا تو نہیں لگا؟”
میں نے سر ہلا دیا۔ لیکن وہ اسے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اندھے کے لیے آنکھ مارنا اور سر ہلانا برابر ہیں۔ “میرا خیال ہے میں یقین نہیں رکھتا۔ کسی بھی چیز پر۔ بعض اوقات بہت مشکل پڑ جاتی ہے۔ پتا ہے نا میں کیا کہہ رہا ہوں؟”
“بالکل،” اس نے کہا۔
“ٹھیک،” میں نے کہا۔
انگریز ابھی تک بولے چلا جا رہا تھا۔ میری بیوی نے نیند میں آہ بھری۔ وہ ایک لمبی سانس لے کر دوبارہ نیند میں گم ہو گئی۔
“میں معافی چاہتا ہوں،” میں نے کہا۔ “لیکن میں آپ کو نہیں بتا سکتا کہ کلیسا کیسا دکھتا ہے۔ میرے اندر یہ صلاحیت ہی نہیں ہے۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا جو میں کہہ چکا ہوں۔”
نابینا شخص بالکل ساکت بیٹھا ہوا تھا، میری بات سنتے ہوئے اس کا سر جھکا ہوا تھا۔
میں نے کہا، “حقیقت تو یہ ہے کہ کلیسا میرے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے۔ کچھ بھی نہیں۔ کلیسا۔ یہ بس رات کو ٹی وی پر دیکھنے کے لیے ہیں۔ اور بس۔”
اس پر نابینا شخص نے اپنا گلا صاف کیا۔ اس نے اپنی جیب سے رومال نکالا۔ پھر اس نے کہا، “میں سمجھ گیا، بب۔ ٹھیک ہے۔ ہوتا رہتا ہے۔ آپ زیادہ فکرمند نہ ہوں،” اس نے کہا۔ “ارے، سنیئے۔ کیا آپ میرا ایک کام کر سکتے ہیں؟ مجھے ایک بات سوجھی ہے۔ کیا آپ کے پاس کوئی موٹا کاغذ ہو گا؟ اور ایک قلم؟ ہم ان سے کام لیں گے۔ ہم مل کر ایک شکل بنائیں گے۔ ایک کاغذ اور قلم لے آئیں۔ بب، یہ چیزیں لے آئیں،” اس نے کہا۔
میں اوپر چلا گیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے میری ٹانگوں میں جان نہ ہو۔ یہ اس وقت ہوتا تھا جب میں دوڑ لگا کر واپس آتا تھا۔ میں نے اپنی بیوی کے کمرے میں ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ مجھے اس کی میز پر ایک چھوٹی سی ٹوکری میں کچھ بال پین دکھائی دیے۔ پھر میں سوچنے لگا کہ اس قسم کا کاغذ کہاں سے مل سکتا ہے جس کی وہ بات کر رہا تھا۔
نیچے باورچی خانے میں مجھے ایک کاغذ کا تھیلا نظر آیا جس کی تہہ میں پیاز کے چھلکے پڑے تھے۔ میں نے تھیلا خالی کر کے ہلایا۔ میں اسے لونگ روم میں لے آیا اور اسے اس کی ٹانگوں کے قریب رکھ کر بیٹھ گیا۔ میں نے کچھ چیزیں ادھر ادھر کیں، کاغذ کی شکنیں دور کیں اور اسے تپائی پر پھیلا دیا۔
نابینا شخص صوفے سے اتر آیا اور قالین پر میرے قریب بیٹھ گیا۔
اس نے اپنی انگلیاں کاغذ پر دوڑائیں۔ وہ کاغذ کے نیچے اوپر اور دائیں بائیں گیا۔ حتیٰ کہ کناروں پر بھی۔ اس نے کنارے بھی چھوئے۔
“اچھا تو پھر شروع کرتے ہیں،” اس نے کہا۔
اس نے ٹٹول کر میرا ہاتھ پکڑ لیا، میرے ہاتھ میں قلم تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ کے اوپر جما لیا۔ “چلو شروع کرو بب، تصویر بناؤ،” اس نے کہا۔ “بناؤ۔ تم دیکھو گے۔ میں تمہارا ساتھ دوں گا۔ سب کچھ ٹھیک رہے گا۔ بس ایسے ہی شروع کر دو جیسے میں کہہ رہا ہوں۔ تم دیکھ لو گے۔ بناؤ،” نابینا شخص نے کہا۔
سو میں نے تصویر بنانا شروع کر دی۔ پہلے میں نے ایک ڈبا سا بنایا، جو کچھ کچھ میرا گھر کی طرح تھا۔ پھر میں نے اس کے اوپر چھت بنائی۔ چھت کے دونوں اطراف میں نے کلس بنائے۔ کیا دیوانگی ہے۔
“زبردست،” اس نے کہا۔ “شاندار۔ تم زبردست کام کر رہے ہو،” اس نے کہا۔ “تم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ کبھی تمہارے ساتھ اس قسم کا واقعہ پیش آئے گا، بب؟ خیر، ہم سب جانتے ہیں زندگی عجیب چیز ہے۔ چلتے رہے، جاری رکھو۔”
میں نے محرابی کھڑکیاں بنائیں۔ میں نے ہوائی پشتے بنائے۔ میں نے بڑے بڑے دروازے بنائے۔ میں اب رک نہیں سکتا تھا۔ ٹی وی سٹیشن بند ہو گیا۔ میں نے قلم رکھ دیا اور اپنی انگلیاں کھولنے اور بند کرنے لگا۔ نابینا شخص کاغذ پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ اس نے اپنی انگلیوں کے پپوٹے کاغذ پر پھیرے۔ میں نے جو کچھ بنایا تھا اس کی انگلیاں اس پر چلتی رہیں، اور اس نے سر ہلایا۔
“بہت عمدہ،” نابینا شخص نے کہا۔
میں نے پھر قلم اٹھایا اور اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میں جتا رہا۔ میں کوئی فن کار نہیں ہوں۔ لیکن میں تصویر بناتا رہا۔
میری بیوی نے آنکھیں کھولیں اور ہمیں دیکھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی، اس کا گاؤن مزید کھل گیا۔ اس نے کہا، “کیا رہے ہو؟ مجھے بتاؤ، میں جاننا چاہتی ہوں۔”
میں نے جواب نہیں دیا۔
نابینا شخص نے کہا، “ہم ایک کلیسا بنا رہے ہیں۔ میں اور یہ اس پر کام کر رہے ہیں۔ زور سے دباؤ،” اس نے مجھے کہا۔ “ہاں، یہ ٹھیک ہے،” اس نے کہا۔ “بالکل۔ تم بالکل ٹھیک جا رہے ہو، بب، میں بتا سکتا ہوں۔ تمہارا خیال تھا کہ تم نہیں کر سکو گے۔ لیکن تم نے کر دکھایا ہے، ہے کہ نہیں؟ تمہارے اندر اب بجلیاں بھری ہوئی ہیں۔ جانتے ہو میں کیا کہہ رہا ہوں؟ بس ایک منٹ میں ہمارے سامنے ایک چیز تیار ہو جائے گی۔ بازو کیسا ہے؟” اس نے پوچھا۔ “اب یہاں کچھ لوگ بھی دکھا دو۔ وہ کلیسا ہی کیا جس میں لوگ نہ ہوں؟”
میری بیوی نے کہا، “کیا ہو رہا ہے رابرٹ؟ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہو رہا ہے؟”
“سب ٹھیک ہے،” اس نے میری بیوی سے کہا۔ “اپنی آنکھیں بند کر لو،” نابینا شخص نے مجھے کہا۔
میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ ایسے ہی جیسا اس نے کہا تھا۔
“بند ہیں؟” اس نے کہا۔ “بے ایمانی نہ کرنا۔”
“بند ہیں،” میں نے کہا۔
“بند ہی رکھنا،” اس نے کہا۔ “رکو مت، قلم چلاتے رہو۔”
سو ہم تصویر بناتے رہے۔ میری انگلیاں کاغذ پر چلتی رہیں، اس کی انگلیاں میری انگلیوں پر سوار تھیں۔ میری زندگی میں ایسا کوئی واقعہ نہیں پیش آیا تھا۔
پھر اس نے کہا، “لگتا ہے تصویر مکمل ہو گئی ہے۔لگتا ہے تم نے کام کر دکھایا ہے،” اس نے کہا۔ “دیکھو، کیا خیال ہے؟”
لیکن میں نے اپنی آنکھیں بند ہی رکھیں۔ میں نے سوچا ابھی تھوڑی دیر انہیں بند ہی رکھوں۔ میں نے سوچا کہ مجھے ابھی آنکھیں بند ہی رکھنی چاہیئیں۔
“تو پھر؟” اس نے کہا۔ “تم دیکھ رہے ہو؟”
میری آنکھیں اب بھی بند تھیں۔ میں اپنے گھر میں تھا۔ میں یہ جانتا تھا۔ لیکن مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میں کسی چیز کے اندر نہیں ہوں۔
“واقعی کچھ ہے،” میں نے کہا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
 

فرخ منظور

لائبریرین
افسانہ شریکِ محفل کرنے کا شکریہ زیف صاحب۔ میں نے آپ کے بنائے ہوئے دونوں دھاگے یکجا کر دیے ہیں یوں افسانہ ایک ہی دھاگے میں پرویا گیا ہے۔ دراصل ایک پیغام کی حد مقرر ہے لیکن آپ اسی دھاگے میں دوسرا، تیسرا وغیرہ پیغام بھیج سکتے ہیں۔
 

دوست

محفلین
اس افسانے کا ترجمہ بہت شاندار ہے۔ اسے اگر گوگل ٹرانسلیٹ پر انگریزی متن کے ساتھ جمع کرادیں تو اردو ترجمہ بہتر ہوجائے گا۔ طریقہ یہ ہے کہ پہلے انگریزی متن دے کر انگریزی سے اردو ترجمہ کرائیں۔ پھر سجیسٹ ٹرانسلیشن میں جاکر سارا ترجمہ پیسٹ کردیں اور جمع کرادیں۔
 

زیف سید

محفلین
اس افسانے کا ترجمہ بہت شاندار ہے۔ اسے اگر گوگل ٹرانسلیٹ پر انگریزی متن کے ساتھ جمع کرادیں تو اردو ترجمہ بہتر ہوجائے گا۔ طریقہ یہ ہے کہ پہلے انگریزی متن دے کر انگریزی سے اردو ترجمہ کرائیں۔ پھر سجیسٹ ٹرانسلیشن میں جاکر سارا ترجمہ پیسٹ کردیں اور جمع کرادیں۔

ترجمے کی پسندیدگی کا شکریہ۔ آپ نے اچھا مشورہ دیا ہے۔ چوں کہ یہ لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے اس لیے شاید گوگل کے کسی کام آ سکے۔

زیف
 

ابوشامل

محفلین
بہت خوب زیف صاحب، اردو کے اس طرح کے کام کی بہت ضرورت ہے۔ بین الاقوامی ادب کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کی تاکہ اس کا دامن مزید وسیع ہو۔ اس افسانے کو کاپی کر لیا ہے فرصت سے پڑھوں گا۔
 

زیف سید

محفلین
بہت شکریہ ابو شامل صاحب کہ آپ نے افسانے پر توجہ دی۔ میں نے یہ ترجمہ ایک اردو رسالے میں چھپنے کے لیے بھیجا تو مدیر نے افسانے کے بارے میں یہ لکھ کر بھیجا ہے:


آپ نے واقعی ایک عظیم کہانی دریافت کی ہے۔ ۔۔۔ اعلٰی ادب ہرکسی کے لیے نہیں ہوتا، لہٰذا ہر کس و ناکس پراپنا ’بھید‘ کھولتا بھی نہیں۔ یہ کہانی بھی خاص لوگوں کے لیے ہے۔ ایک ایسا آدمی جو اندھے سے کد رکھتا ہے آخر کیسے اس کی مہربانی کے سبب کتنے بڑے تجربے سے گزرتا ہے اورکیسے انوکھے راز سے آشنا ہو جاتاہے۔ یہ کایا کلپ کہانی کی تھیم ہے۔ کہانی تو یہ راز جان لینے کے بعد شروع ہوتی ہے جہاں کہانی کار نے اسے ختم کیاہے۔ قاری کے سوچنے کے لیے اتنا وافرمتن موجود ہے کہ بے اختیارفن کار کے حق میں داد اور دعا دل سے نکلتی ہے۔ اور مترجم کے لیے بھی! کہانی کا مثبت پہلو اپنی جگہ میرے دل میں مقام رکھتا ہے، بڑا ادب ہمیشہ مثبت اقدار کو سینچتا ہے۔ فنی سطح پر بھی کہانی بہت زیرک اور دل نشیں ہے۔

زیف
 

محمداحمد

لائبریرین
کل میں آوارہ گردی کرتے ہوئے یہاں پہنچ گیا۔ پہلی کہانی پڑھنا شروع کی تو یاد آیا کہ شاید پڑھی ہوئی ہے اور اردو میں پڑھی ہے۔ تلاش کرنے پر اردو محفل پہنچ گیا۔

ایک زمانہ تھا کہ اردو محفل اپنی ایسی ہی باتوں کی وجہ سے مشہور تھی۔

زیف سید صاحب کا ایک بار پھر شکریہ کہ اُنہوں نے ا ردو دان طبقے کے لئے عمدہ کہانی کا ترجمہ کیا ۔
 

الف عین

لائبریرین
کل میں آوارہ گردی کرتے ہوئے یہاں پہنچ گیا۔ پہلی کہانی پڑھنا شروع کی تو یاد آیا کہ شاید پڑھی ہوئی ہے اور اردو میں پڑھی ہے۔ تلاش کرنے پر اردو محفل پہنچ گیا۔

ایک زمانہ تھا کہ اردو محفل اپنی ایسی ہی باتوں کی وجہ سے مشہور تھی۔

زیف سید صاحب کا ایک بار پھر شکریہ کہ اُنہوں نے ا ردو دان طبقے کے لئے عمدہ کہانی کا ترجمہ کیا ۔
کیا سمت میں اسے دیکھ رہے تھے؟ اسے وہاں بھی شامل کر چکا ہوں
 

محمداحمد

لائبریرین
کیا سمت میں اسے دیکھ رہے تھے؟ اسے وہاں بھی شامل کر چکا ہوں

سمت میں بھی شاید میں نے یہ افسانہ دیکھا ہو ۔ لیکن مجھے یاد نہیں تھا کہ کہاں دیکھا یا کہاں پڑھا ہے اس لئے ویب سرچ کی اور یہاں پہنچ گیا۔ یہ البتہ ضرور ہے کہ اس لڑی میں میری ریٹنگ موجود ہے۔
 
Top