طالوت

محفلین
"کل اور آج
یہ 1918 کا ذکر ہے
میں قبلہ والد صاحب کے ہمراہ امرتسر گیا ۔ میں ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا ، جہاں نہ بلند عمارات ، نہ مصفا سڑکیں ، نہ کاریں ، نہ بجلی کے قمقمے اور نہ اس وضع کی دکانیں ۔ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ لاکھوں کے سامان سے سجی ہوئی دکانیں۔ اور بورڈ پر کہیں رام بھیجا سنت رام لکھا ہے ، کہیں دُنی چند اگروال، کہیں سنت سنگھ سبل اور کہیں شادی لال فقیر چند۔ ہال بازار کے اس سرے سے اس سرے تک کسی مسلمان کی کوئی دکان نظر نہ آئی۔ ہاں مسلمان ضرور نظر آئے۔ کوئی بوجھ اٹھا رہا تھا کوئی گدھے لاد رہا تھا۔کوئی مالگدام سے بیل گاڑی پہ ہندو کا سامان لاد رہا تھا ۔ کوئی کسی ٹال پر لکڑیاں چیر رہا تھا اور کوئی بھیک مانگ رہا تھا۔ غیر مسلم کاروں اور فٹنوں پر جا رہے تھے اور مسلمان اڑھائی من بوجھ کے نیچے دبا ہوا مشکل سے قدم اٹھا رہا تھا۔ ہندوؤں کے چہروں پر رونق بشاشت اور چمک تھی اور مسلمان کا چہرہ فاقہ، مشقت ، فکر اور جھریوں کی وجہ سے افسردہ و مسخ شدہ۔
میں نے والد صاحب سے پوچھا
"کیا مسلمان ہر جگہ اسی طرح سے زندگی بسر کر رہے ہیں"
والد صاحب: ہاں
میں:- اللہ نے مسلمان کو بھی ہندوکی طرح دو ہاتھ دو پاؤں اور ایک سر عطا کیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہندو تو زندگی کے مزے لوٹ رہا ہے اور مسلمان ہر جگہ حیوان سے بدتر زندگی بسر کر رہا ہے؟
والد صاحب:یہ دنیا مردار سے زیادہ نجس ہے اور اس کے متلاشی کتوں سے زیادہ ناپاک۔ اللہ نے یہ مردار ہندوؤں کے حوالے کر دیا ہے اور جنت ہمیں دے دی ہے۔ کہو کون فائدے میں رہا ؟ ہم یا وہ ۔
میں:- اگر دنیا واقعی مردار ہے تو آپ تجارت کیوں کرتے ہیں اور مال تجارت خریدنے کے لیے امرت سر تک کیوں آئے ہیں ؟ ایک طرف دنیوی سازوسامان خرید کر نفع کمانا اور دوسری طرف اسے مردار قرار دینا ، عجیب قسم کی منطق ہے ۔
والد صاحب: بیٹا ! بزرگوں سے بحث کرنا سعادت مندی نہیں۔ جو کچھ میں نے تمھیں بتایا ہے وہ ایک حدیث کا ترجمہ ہے ۔ رسول اللہ نے فرمایا تھا ؛
"الدنیا جیفۃ و طلابھا کلاب" یہ دنیا ایک مردار ہے اور اس کے متلاشی کتے
حدیث کانام سن کر میں ڈر گیا اور بحث بند کر دی۔ سفر سے واپس آ کر میں نے گاؤں کے مُلا سے اپنے شبہات کا اظہار کیا۔ اس نے بھی وہی جواب دیا۔ میرے دل میں اس معمے کو حل کرنے کی تڑپ پیدا ہوئی۔ لیکن میرے قلب و نظر پر تقلید کے پہرے بیٹھے ہوئے تھے۔ علم کم تھا اور فہم محدود ، اسلیے معاملہ زیادہ الجھتا گیا۔
میں مسلسل چودہ برس تک حصول علم کے لیے مختلف علما و صوفیا کے ہاں رہا۔ درسِ نظامی کی تکمیل کی ۔ سینکڑوں واعظین کے واعظ سنے۔ بیسویں دینی کتابیں پڑھیں۔ اور بالاخر مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام رائج کا ماحاصل یہ ہے:
1—فرائض خمسہ ، یعنی توحید کا اقرار اور صلوۃ ، زکوۃ، صوم اور حج کی بجا آوری۔
2—اذان کے بعد ادب سے کلمہ شریف پڑھنا۔
3—مختلف رسوم مثلاََ جمعرات ، چہلم ، گیارہویں ، وغیرہ کو باقاعدگی سے ادا کرنا۔
4—قران کی عبارت پڑھنا۔
5—اللہ کے ذکر کو سب سے بڑا سمجھنا۔
6—قران اور درود کے ختم کرانا۔
7—اُچھل اُچھل کر ہُو حق کا ورد کرنا۔
8—نجات کے لیے کسی مرشد کی بیت کرنا۔
9—مردوں سے مرادیں مانگنا۔
10—مزاروں پر سجدے کرنا۔
11—غلیظ لباس کو پیغمبری لباس سمجھنا۔
12—سڑکوں اور بازاروں میں سب کے سامنے ڈھیلا کرنا۔
13—تعویزوں اور منتروں کو مشکل کشا سمجھنا۔
14—آنحضرت کو عالم الغیب نیز حاضر و ناظر قرار دینا۔
15—کسی بیماری یا نجات کے لیے مولوی جی کی ضیافت کرنا۔
16—گناہ بخشوانے کے لیے قوالی سننا۔
17—غیر مسلم کو ناپاک اور نجس سمجھنا۔
18—امام ابو حنیفہ کی فقہ پر ایمان لانا۔
19—صحاح ستہ کو وحی سمجھنا۔
20—تمام علوم جدیدہ ، مثلاََ طبعیات ، ریاضیات، اقتصادیات، تعمیرات وغیرہ کو کفر خیال کرنا۔
21—غور و فکر اور اجتہاد و استنباط کو گناہ قرار دینا۔
22—صرف کلمہ پڑھ کر بہشت میں پہنچ جانا۔
23—ہر مشکل کا علاج عمل اور محنت سے نہیں بلکہ دعاؤں سے کرنا۔ مثلاََ سوتے وقت یہ دعا پڑھو۔ اللھم با سمک اموت و احی ، خواب میں خواجہ خضر کی زیارت ہو گی۔ جاگو تو بسم اللہ الذی احیانی بعد اما تنی کا ورد کرو ، حوریں تمھارا منہ چاٹیں گی۔ سبحان اللہ و بحمد ہ کا جملہ منہ سے نکالو تو ساری زندگی کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ وضو میں منہ دھوتے وقت جعلت قرۃ عینی فی الصلوۃ کا ورد کرو تو تمھیں حضرت (سیدنا) آدم کے دس لاکھ حج کا ثواب ملے گا۔ نماز کے بعد لا حول و لا قوۃ پڑھو تو سات آسمانوں اور سات زمینوں جتنا ثواب ملے گا۔ وغیرہ وغیرہ
"


ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب "دو اسلام" کے "حرفِ اول" سے اقتباس
--------------------------------
قریبا 90 برس قبل ایک تعلیم یافتہ شخص نے اپنے احساسات کچھ اس طرح سے بیان کیے تھے ۔۔ آج ایک صدی ہونے کو آئی مگر ہماری حالت جوں کی توں ۔۔ اگر کچھ فرق پڑا ہے تو اس قدر کہ اس میں کچھ مزید اضافہ ایسے ہوا ہے کہ ہم اب
"میاں مٹھو کی فال"
"نقش لوح سلیمانی"
"آپ کا ستارہ اور برج"
"یہ ہفتہ کیسا رہے گا"
"آج کا دن کیسا گزرے گا"
"کونسا پتھر آپ کے لیے مفید ہوگا"
"تاش کے پتوں سے قسمت کا حال"
"نام اور علم اعداد سے مستقبل بہتر بنائیں"
"کوئی بھی نیا کام شروع کرنے سے پہلے حضرت سے استخارہ ضرور کروائیں"
جیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں ۔۔ اور یہ سیلاب ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ، قانون فطرت سے نا آشنائی ، ہر چیز کو منجانب اللہ سمجھنا، تقدیر کے بہانے، قسمت کے رونے، راتوں رات کچھ بن جانے کی تمنا اور نہ جانے کیا کچھ ! علم و عمل سے چھٹکارا پانے کی آسان تراکیب ہیں ۔۔ کیونکہ علم و عمل کی راہ بڑی کھٹن ہے ، اور ہم آرام طلب !
-------------
وسلام
 

علی ذاکر

محفلین
نو مسلم فارنیز کے صیہونی و عیسائ علماء نے سوچا کے اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا بے کار ہے الٹے اثرات کا حامل ہے اس لیئے آسان کام یہ ہے کہ مسلمانوں‌کا رخ بدلدو اس کے دو طریقے ہیں ایک مغربی خیالات کے زیراثر مسلمانوں کی توجہ مزہب سے ہٹ جائے گی وہ مذہب کو ایک غیر ضروری چیز سمجھنے لگ جایئں گے اور زندگی کی جانب ان کا رویہ مادی اور سیکولر ہو جائے گا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اسلام کی شکل مسخ کر دو اسلام کو بھی عام مذہبوں کی طرح ریچوال میں‌بدل دو مسلمانوں‌کی توجہ علم،عقل ، اور تحقیق سے موڑ دو اور انہیں‌رسمی عبادات ، پیر اور خانقاہی نظام کی طرف متوجہ کر سو اس طرح‌ وہ ضہیف الاعتقادی اور اوہام پرستی کی جانب چل نکلیں‌گے تعویز گنڈے اور وظیفے وظائف کو اپنا لیں گے اور سب سے اہم بات یہ ان پڑھ اجارہ داروں کی ایک ایسی جماعت قائم کر دو جو مسلمانوں اس میں پھنسارکھے اپنے منسوبوں میں مغربی اقوام کامیاب ہیں اور انہیں‌اپنی کا پورا شعور ہے فرانس کا بادشاہ لوئ ہشتم جب مسلمانوں کی قید سے آزاد ہوا تو اس نے یورپی عیسائیوں کے ارباب اختیار سے مل کر ایک لائحہ عمل بنایا جس کا مقصد اسلام کو ختم کرنا اور مسلمانوں‌کو یورپی تسلط میں‌لانا تھا اس پالیسی ساز کا لائحہ عمل آج بھی پریس میں‌محفوظ ہے
اس کی شقیں‌مختصر طور پر یہ ہیں‌
مسلمانوں‌کے درمیان اختلاف اور تفرقہ پیدق کرو
تفرقہ پیدا ہو جائے اس کو مزید گہرا کرو
مسلمان ممالک میں نیکوصالح کے حکمران کے قیام کو ناممکن العمل بناو
مسلمان ممالک میں کرپشن کو ہوا دو انتظامیہ میں رشوت اور اقرباخوازی کی رسم ڈالو
عورتیں‌کے ذریعے اہلکاروں‌کے اخلاق کو داغ دار کرو
مسلمانوں‌میں‌جذبہ جھاد کو کمزور کرو
عرب ممالک میں پھوٹ ڈالنے کی پالیسی پر عمل کرو
اور آج ہم ان سب چیزوں سے عمل کر رہے ہیں جس کی وجہ سے آج بھی وہی ہیں جہاں ایک صدی پہلے تھے
 

arifkarim

معطل
مگر سارا الزام سازشیوں پر تھوپ دینا ، کالی بھیڑوں کی خبر کون لے گا ؟
وسلام

اس سے تو اسلام اور مسلمانوں کی کمزوری ہی ثابت ہوگی کہ ایسا دین جو قیامت کیلئے ہے، وہ چند مشرکین اور منافقین کی چالوں کا مقابلہ نہ کر سکے!:biggrin:
 

طالوت

محفلین
گویا آپ یہ فرماتے ہیں ، مریض جو اپنی بے احتیاطی کے باعث جانبر نہ ہوا اس کی وجہ طبیب ہے ۔۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
گویا آپ یہ فرماتے ہیں ، مریض جو اپنی بے احتیاطی کے باعث جانبر نہ ہوا اس کی وجہ طبیب ہے ۔۔
وسلام

میں ایک مریض کی بات نہیں کر رہا۔ یوں تو سارے مسلمان اجتماعی طور پر کمزور ثابت ہو جائیں گے جنہیں گنتی کے منافقین نے اپنے تابع کر لیا!
 

علی ذاکر

محفلین
میں ایک مریض کی بات نہیں کر رہا۔ یوں تو سارے مسلمان اجتماعی طور پر کمزور ثابت ہو جائیں گے جنہیں گنتی کے منافقین نے اپنے تابع کر لیا!

وہ تو ہوں گے ہی کیونکہ کمزوروں کے مقابلہ میں طاقتور اس قدرہیں کے جب کمزور سویا ہوا مسلمان جگانے کی کوشش کرتے ہیں تو جو مصنوعی مسلماں ہیں وہ فتوی لگانے میں ذرا برابر بھی دہر نہیں‌ کرتے اور عوام ان جیسے مصنوعی مسلمانوں کے چنگل میں پھس چکی ہے۔
وسلام
 

باذوق

محفلین
والد صاحب: بیٹا ! بزرگوں سے بحث کرنا سعادت مندی نہیں۔ جو کچھ میں نے تمھیں بتایا ہے وہ ایک حدیث کا ترجمہ ہے ۔ رسول اللہ نے فرمایا تھا ؛
"الدنیا جیفۃ و طلابھا کلاب" یہ دنیا ایک مردار ہے اور اس کے متلاشی کتے


ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب "دو اسلام" کے "حرفِ اول" سے اقتباس
--------------------------------
جس قول کو حدیث کے نام سے ذکر کیا گیا ہے ، یعنی :
الدنيا جيفة وطلابها كلاب (یہ دنیا مردار ہے اور اسکے طلبگار کتے ہیں)
یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ قول نہیں ہے۔ امام صغانی (متوفی : 1252ء) کی مشہور کتاب "الموضوعات" کے صفحہ:6 پر اس روایت کو تابعی "شهر بن حوشب" سے منسوب قول کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
مزید تفصیل : یہاں

غلام جیلانی برق کے اس اقتباس کا ایک طویل جواب :
صفحہ:20 تا 35 تک
اِس کتاب میں :
تفہیم اسلام - از : مسعود احمد بی ایس سی
صفحات : 579
پ۔ڈ۔ف فائل سائز : 58 ایم۔بی
ڈاؤن لوڈ لنک
 

ظفری

لائبریرین
"والد صاحب: بیٹا ! بزرگوں سے بحث کرنا سعادت مندی نہیں۔ جو کچھ میں نے تمھیں بتایا ہے وہ ایک حدیث کا ترجمہ ہے ۔ رسول اللہ نے فرمایا تھا ؛
"الدنیا جیفۃ و طلابھا کلاب" یہ دنیا ایک مردار ہے اور اس کے متلاشی کتے
حدیث کانام سن کر میں ڈر گیا اور بحث بند کر دی۔ سفر سے واپس آ کر میں نے گاؤں کے مُلا سے اپنے شبہات کا اظہار کیا۔ اس نے بھی وہی جواب دیا۔ میرے دل میں اس معمے کو حل کرنے کی تڑپ پیدا ہوئی۔ لیکن میرے قلب و نظر پر تقلید کے پہرے بیٹھے ہوئے تھے۔ علم کم تھا اور فہم محدود ، اسلیے معاملہ زیادہ الجھتا گیا۔
میں مسلسل چودہ برس تک حصول علم کے لیے مختلف علما و صوفیا کے ہاں رہا۔ درسِ نظامی کی تکمیل کی ۔ سینکڑوں واعظین کے واعظ سنے۔ بیسویں دینی کتابیں پڑھیں۔ اور بالاخر مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام رائج کا ماحاصل یہ ہے:1

باذوق صاحب ۔۔۔ میری دانست میں آپ کو طالوت کے اس اقتباس سے کچھ غلطی لگی ہے ۔ جس غلطی کی طرف آپ اشارہ فرما رہے ہیں ۔ دراصل وہ یہی بات کہنے کی کوشش میں اس اقتباس کا یہاں اجراء کر بیٹھا ہے ۔ سرخ رنگ میں اقتباس کے الفاظ پر اگر آپ غور کریں تو صاحب تحریر کا منشاء یہی ہے کہ اسلام کی اساس کی بنیادیں کہاں اور کیسے تبدیل کی گئیں ہیں ۔
اس کے بعد صاحبِ تحریر نے گنوا گنوا کر اسلام میں سرفراز ہونے کے نقاط کی نشان دہی کی ہے ۔ اب ان نقاط پر آپ کوئی اعتراض نہ جڑ دیجیئے گا کہ وہ نقاط اپنی ذات میں خود اعتراضات ہیں ۔ :)
 

ساجد

محفلین
"کل اور آج
یہ 1918 کا ذکر ہے
میں قبلہ والد صاحب کے ہمراہ امرتسر گیا ۔ میں ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا ، جہاں نہ بلند عمارات ، نہ مصفا سڑکیں ، نہ کاریں ، نہ بجلی کے قمقمے اور نہ اس وضع کی دکانیں ۔ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ لاکھوں کے سامان سے سجی ہوئی دکانیں۔ اور بورڈ پر کہیں رام بھیجا سنت رام لکھا ہے ، کہیں دُنی چند اگروال، کہیں سنت سنگھ سبل اور کہیں شادی لال فقیر چند۔ ہال بازار کے اس سرے سے اس سرے تک کسی مسلمان کی کوئی دکان نظر نہ آئی۔ ہاں مسلمان ضرور نظر آئے۔ کوئی بوجھ اٹھا رہا تھا کوئی گدھے لاد رہا تھا۔کوئی مالگدام سے بیل گاڑی پہ ہندو کا سامان لاد رہا تھا ۔ کوئی کسی ٹال پر لکڑیاں چیر رہا تھا اور کوئی بھیک مانگ رہا تھا۔ غیر مسلم کاروں اور فٹنوں پر جا رہے تھے اور مسلمان اڑھائی من بوجھ کے نیچے دبا ہوا مشکل سے قدم اٹھا رہا تھا۔
وسلام
بہت اچھی شراکت ہے طالوت بھائی۔
سُرخ ”تضاد“ مجھے کھٹکا ۔ کیا یہ ٹائپو ہے؟۔
 

طالوت

محفلین
کاروں کی عدم موجودگی کا ذکر ڈاکٹر جیلانی نے اپنے گاؤں کے حوالے سے کیا ہے ، جبکہ آخری سطر میں وہ امرتسر کا ذکر کر رہے ہیں۔ میرا خیال میں یہ تضاد نہیں ، آپ کا کیا خیال ہے۔
 

ساجد

محفلین
کاروں کی عدم موجودگی کا ذکر ڈاکٹر جیلانی نے اپنے گاؤں کے حوالے سے کیا ہے ، جبکہ آخری سطر میں وہ امرتسر کا ذکر کر رہے ہیں۔ میرا خیال میں یہ تضاد نہیں ، آپ کا کیا خیال ہے۔
ہاں شاید ایسا ہی ہے۔ وہ اپنے گاؤں کا ذکر کر رہے تھے۔
 
Top