با ادب
محفلین
کل رات مے کدے میں عجب حادثہ ہوا ۔
• رات کی تاریکی کا سبب گہرے سیاہ راز ہیں جنھیں وہ اپنے اندر سمو کر جذب کر لیتی ہے ۔ اور جب دن کا اجا لا نکلتا ہے تو سفیدی تاریک کو پیچھے کہیں کسی گہرے غار میں دفنا کر مشرق کا سفر طے کر لیتی ہے ۔ ہر روز نیا سورج طلوع ہوتا ہے اور ہر رات نئے راز اپنی چادر میں چھپا لیتی ہے ۔
ساقی کو مے کدے سے شغف ہے واعظ کو رند سے
رند کی دنیا گہری ہے ۔
رند کی دنیا آزاد ہے
خوف اور فکر ، ڈر اور وہم رند کے پاس سے بھی نہیں گزرتے ۔
خوف تب تک خوف ہے جب تک واعظ بن کر سفیدی کی چادر اوڑھے رکھو ۔ جس دن چادر پہ دھبہ لگتا ہے اس دن واعظ مر جاتا ہے ۔ رندکی تو چادر ہی گھور اندھیری ، جتنے سیاہ دھبے لگتے رہیں وہ غم و فکر سے آزاد ہے ۔ واعظ یا تو قیامت تک دھبے دھو دھو کے ہلکان ہو جائے گا یا پھر رند کی صحبت میں پناہ ڈھونڈ لے گا ۔
کل رات مے کدے میں عجب حادثہ ہوا
زاہد کا زہد ڈر گیا اور خوف چیخ پڑا ۔ زاہد کا شغف نیکی تھا اور مشغلہ نیکیوں کی داد وصولنا ۔ پر بندہ ٹہرا خطا کا پتلا اور بشر بندے کی خطا کی تلاش میں سرگرداں ، کہاں نقطہ ملے اور بندہ زیر ہو ۔ تاریخ گواہ ہے جو زیر ہوئے دھڑن تختہ ہوگئے ۔ جو کان واہ واہ کے عادی ہوں تف تف کی ملامت سہنے کی تاب نہیں رکھتے ۔ کچھ جی دار بڑی ہمت والے ہوتے ہیں ۔ تف کے باوجود جی لیتے ہیں لیکن اس زاہد کا کیا کیجے جو تنفر کی اک نگاہ سے مسمار یو جاتا ہے ۔ آئندہ زہد سے توبہ کر کے رند ہوجاتا ہے ۔
اگر دنیا میں رند نہ ہوتے تو جینے کا خاک مزہ ہوتا ۔ پیارے لوگو رند کی زندگی جیو اور سرخ رو ٹھرو ۔ دنیا نے زاہد کو نہیں بخشا ، رند سے دنیا کا کوئی لینا دینا نہیں ۔
دنیا کی دلچسپی زاہد میں ہے رند تو شکست تسلیم کر بیٹھا ہے وہ تو مے خانے کا دیوانہ ٹہرا ، ساغر سے پیتا ہے لوگوں سے اسے کیا ۔ وہ اگر ساقی بنا مے خانے کا تو کیا بعید محبوب کے در پہ کسی دن ڈولتے ڈگمگاتے قدموں سے پہنچ جائے ۔
پینے پلانے پہ بھلا کس نے پابندی لگا رکھی ہے ۔
اور جو پیمانے سے پیئے وہی کافر ہے ۔
ھائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں ۔
زاہد نے عمر گزار دی پیمانے ناپتے ناپتے ، ساقی نے پیمانے توڑ ڈالے ۔
زہد سے رند کا رند سے ساقی تک کا سفر ، پاوءں آبلہ پا ۔
اور جس دن منزل مل گئی اور ساقی مے چڑھا گیا اس دن کے سرور نے ساری تھکن بھلا دینی ہے ۔
اور یہ اسی نشے کی چاہ ہے ساقی دیوانہ وار بھاگتا ہے دوڑتا ہے تھکتا ہے پھر دوڑتا ہے ۔ جس دن چور ہو کے گر پڑتا ہے سستانے کو آنکھیں موند لیتا ہے اس دن مےخانے کا در وا ہوتا ہے ۔ مٹکے بہائے جاتے ہیں ساغر سے پلایا جاتا ہے ۔
زاہد تو جمع تفریق میں مبتلا زندگی آزار کرتا ہے ،اتنی رکعتیں ہوں گی تو اتنے درجے ہوں گے ۔ ایک لاکھ پچیس ہزار کو مشکل کشا بنا ڈالا ۔ آفت آگئی در پہ پڑ جا ، آفت گئی در گیا ۔
ارے رند کا کیا ہے فرض ادا کر لیتا ہے تو لوگ کہتے ہیں سدھر گیا ۔ چھوڑ دے سب تو ہے ہی رند ۔
اور ایک دن منہ کو لگ جاتی ہے
اور پھر تو
چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی
اس دن مے خانےکا سراغ مل جاتا ہے ۔ اب پیاس توتب بجھتی ہے جب ہو اور بے بہا ہو بے حساب ہو ۔ ایک لاکھ گن کے پینا یہ ہم سے نہیں ہوتا ۔
کسی رات دبے پاوں مے کدے کا رخ کر لیں گے خوب پیئں گے اور پیئں گے ۔ نیم شبی میں گن کے پیا تو پیا ہی نہیں ۔ نصف شب میں پیمانے انڈیل دئیے جاتے ہیں اب تو سب بساط بھر پیئں ۔ اور جو نہ پیئے وہی رند ہے ۔
واعظ کی جمع جوڑ سے گھبرا گیا ہے جی
زاہد کے جہنم کی تمنا مجھے اب ہے
ملا کی خبرداری سے چڑنے لگا ہوں میں
ساقی شراب لا کہ میری پیاس اب بجھے
عمریں گزار دی ہیں امر اور نہی میں
اب مجھ کو تفکر کی ، تدبر کی طلب ہے
مجھ سے نہ کہہ نماز میں دل کا سکون ہے
میری نماز میں کجی دل میں فتور ہے
مجھ کو ادا سکھا دے گر ہو عشق کی ادا
تعویذ حل نہیں ہے ، ہے تعویذ حب تو دو
میں رند ہوں ، دنیا کی ملامت مجھے قبول
مجھ کو طلب ہے مے کی ، جنت نہیں مطلوب
واعظ مجھے نہ وعظ کر ترک گناہ کا
محشر میں ، میں کہہ دوں گا کہ واعظ ہے بے قصور
بندہ تھا میں ترا ، نہ ملا کا نہ واعظ کا
تو نے پلائی ہوتی تو ہوتا میں سرخ رو
دنیا میں بھی حساب ہے محشر میں بھی حساب
مضمون بدل دیجیئے میرے نصاب کا
خلقت پڑی ہے لیجیئے پرچہ حساب کا
عاشق ہوں میں مجھ سے نہیں ہوتا یہ جمع جوڑ
فتوی تیرے ملا کا مجھے کیا ڈرائے گا
میں رند ہوں مفتی کا سلیبس نہیں ہوں میں
از سمیرا امام
بتاریخ ۔ 20 فروری 2017
• رات کی تاریکی کا سبب گہرے سیاہ راز ہیں جنھیں وہ اپنے اندر سمو کر جذب کر لیتی ہے ۔ اور جب دن کا اجا لا نکلتا ہے تو سفیدی تاریک کو پیچھے کہیں کسی گہرے غار میں دفنا کر مشرق کا سفر طے کر لیتی ہے ۔ ہر روز نیا سورج طلوع ہوتا ہے اور ہر رات نئے راز اپنی چادر میں چھپا لیتی ہے ۔
ساقی کو مے کدے سے شغف ہے واعظ کو رند سے
رند کی دنیا گہری ہے ۔
رند کی دنیا آزاد ہے
خوف اور فکر ، ڈر اور وہم رند کے پاس سے بھی نہیں گزرتے ۔
خوف تب تک خوف ہے جب تک واعظ بن کر سفیدی کی چادر اوڑھے رکھو ۔ جس دن چادر پہ دھبہ لگتا ہے اس دن واعظ مر جاتا ہے ۔ رندکی تو چادر ہی گھور اندھیری ، جتنے سیاہ دھبے لگتے رہیں وہ غم و فکر سے آزاد ہے ۔ واعظ یا تو قیامت تک دھبے دھو دھو کے ہلکان ہو جائے گا یا پھر رند کی صحبت میں پناہ ڈھونڈ لے گا ۔
کل رات مے کدے میں عجب حادثہ ہوا
زاہد کا زہد ڈر گیا اور خوف چیخ پڑا ۔ زاہد کا شغف نیکی تھا اور مشغلہ نیکیوں کی داد وصولنا ۔ پر بندہ ٹہرا خطا کا پتلا اور بشر بندے کی خطا کی تلاش میں سرگرداں ، کہاں نقطہ ملے اور بندہ زیر ہو ۔ تاریخ گواہ ہے جو زیر ہوئے دھڑن تختہ ہوگئے ۔ جو کان واہ واہ کے عادی ہوں تف تف کی ملامت سہنے کی تاب نہیں رکھتے ۔ کچھ جی دار بڑی ہمت والے ہوتے ہیں ۔ تف کے باوجود جی لیتے ہیں لیکن اس زاہد کا کیا کیجے جو تنفر کی اک نگاہ سے مسمار یو جاتا ہے ۔ آئندہ زہد سے توبہ کر کے رند ہوجاتا ہے ۔
اگر دنیا میں رند نہ ہوتے تو جینے کا خاک مزہ ہوتا ۔ پیارے لوگو رند کی زندگی جیو اور سرخ رو ٹھرو ۔ دنیا نے زاہد کو نہیں بخشا ، رند سے دنیا کا کوئی لینا دینا نہیں ۔
دنیا کی دلچسپی زاہد میں ہے رند تو شکست تسلیم کر بیٹھا ہے وہ تو مے خانے کا دیوانہ ٹہرا ، ساغر سے پیتا ہے لوگوں سے اسے کیا ۔ وہ اگر ساقی بنا مے خانے کا تو کیا بعید محبوب کے در پہ کسی دن ڈولتے ڈگمگاتے قدموں سے پہنچ جائے ۔
پینے پلانے پہ بھلا کس نے پابندی لگا رکھی ہے ۔
اور جو پیمانے سے پیئے وہی کافر ہے ۔
ھائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں ۔
زاہد نے عمر گزار دی پیمانے ناپتے ناپتے ، ساقی نے پیمانے توڑ ڈالے ۔
زہد سے رند کا رند سے ساقی تک کا سفر ، پاوءں آبلہ پا ۔
اور جس دن منزل مل گئی اور ساقی مے چڑھا گیا اس دن کے سرور نے ساری تھکن بھلا دینی ہے ۔
اور یہ اسی نشے کی چاہ ہے ساقی دیوانہ وار بھاگتا ہے دوڑتا ہے تھکتا ہے پھر دوڑتا ہے ۔ جس دن چور ہو کے گر پڑتا ہے سستانے کو آنکھیں موند لیتا ہے اس دن مےخانے کا در وا ہوتا ہے ۔ مٹکے بہائے جاتے ہیں ساغر سے پلایا جاتا ہے ۔
زاہد تو جمع تفریق میں مبتلا زندگی آزار کرتا ہے ،اتنی رکعتیں ہوں گی تو اتنے درجے ہوں گے ۔ ایک لاکھ پچیس ہزار کو مشکل کشا بنا ڈالا ۔ آفت آگئی در پہ پڑ جا ، آفت گئی در گیا ۔
ارے رند کا کیا ہے فرض ادا کر لیتا ہے تو لوگ کہتے ہیں سدھر گیا ۔ چھوڑ دے سب تو ہے ہی رند ۔
اور ایک دن منہ کو لگ جاتی ہے
اور پھر تو
چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی
اس دن مے خانےکا سراغ مل جاتا ہے ۔ اب پیاس توتب بجھتی ہے جب ہو اور بے بہا ہو بے حساب ہو ۔ ایک لاکھ گن کے پینا یہ ہم سے نہیں ہوتا ۔
کسی رات دبے پاوں مے کدے کا رخ کر لیں گے خوب پیئں گے اور پیئں گے ۔ نیم شبی میں گن کے پیا تو پیا ہی نہیں ۔ نصف شب میں پیمانے انڈیل دئیے جاتے ہیں اب تو سب بساط بھر پیئں ۔ اور جو نہ پیئے وہی رند ہے ۔
واعظ کی جمع جوڑ سے گھبرا گیا ہے جی
زاہد کے جہنم کی تمنا مجھے اب ہے
ملا کی خبرداری سے چڑنے لگا ہوں میں
ساقی شراب لا کہ میری پیاس اب بجھے
عمریں گزار دی ہیں امر اور نہی میں
اب مجھ کو تفکر کی ، تدبر کی طلب ہے
مجھ سے نہ کہہ نماز میں دل کا سکون ہے
میری نماز میں کجی دل میں فتور ہے
مجھ کو ادا سکھا دے گر ہو عشق کی ادا
تعویذ حل نہیں ہے ، ہے تعویذ حب تو دو
میں رند ہوں ، دنیا کی ملامت مجھے قبول
مجھ کو طلب ہے مے کی ، جنت نہیں مطلوب
واعظ مجھے نہ وعظ کر ترک گناہ کا
محشر میں ، میں کہہ دوں گا کہ واعظ ہے بے قصور
بندہ تھا میں ترا ، نہ ملا کا نہ واعظ کا
تو نے پلائی ہوتی تو ہوتا میں سرخ رو
دنیا میں بھی حساب ہے محشر میں بھی حساب
مضمون بدل دیجیئے میرے نصاب کا
خلقت پڑی ہے لیجیئے پرچہ حساب کا
عاشق ہوں میں مجھ سے نہیں ہوتا یہ جمع جوڑ
فتوی تیرے ملا کا مجھے کیا ڈرائے گا
میں رند ہوں مفتی کا سلیبس نہیں ہوں میں
از سمیرا امام
بتاریخ ۔ 20 فروری 2017