کل شب شبِ خیال تھی۔ ۔ ۔آزاد نظم

کل شب شبِ خیال تھی تم پاس آگئے
جانے کیوں مجھے بیتے سمے یاد آگئے
تھاما تھا تیرے ہاتھ کو جب میں نے چُوم کے
پھر مدّتوں رہا تھا اُس اک پل میں جھوم کے
شائد تمہیں بھی یاد ہو۔ ۔ ۔ ۔
تم نے ہی کہا تھا۔ ۔ ۔ ۔
"اب چھوڑ نہ دیجے گا کہیں تھام کر اسے"
تم ہی کہو۔ ۔ ۔جواب دو، خود فیصلہ کرو۔ ۔ ۔
وہ کون تھے جو چل دیئے ہاتھوں کو جھٹک کے
کیوں آئے تھے؟ گر جانا تھا دامن کو چھڑا کے۔ ۔ ۔
جو ہوگیا اچھا ہوا، بس یہ ملال ہے۔ ۔ ۔ ۔
الفت نے پرستش کی دکھائی تھی رہ جسے
وہ شخص تم سے کھو گیا۔ ۔ ۔ ۔
تم چھن گئیں اُس سے۔ ۔ !!!
 

الف عین

لائبریرین
غزنوی، تم اس بحر میں ہمیشہ کنفیوز ہوتے ہو، یعنی ان دو بحور کو ملا دیتے ہو۔
کل شب شبِ خیال تھی تم پاس آگئے
ایک بحر ہے (مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن۔فاعلات
کیوں آئے تھے؟ گر جانا تھا دامن کو چھڑا کے
دوسری بحر
اور زیادہ تر مصرعے ایسے ہیں جو آدھے پہلی بحر میں ہیں، اور آدھے دوسری بحر میں۔
ذرا تقطیع کر کے دیکھ لو۔
 
Top