کاشفی
محفلین
غزل
(مبصر لکھنوی)
کل صراحی کی تھی مٹی اب ہے پیمانے کی خاک
اپنی حد میں کروٹیں لیتی ہے میخانے کی خاک
دوری منزل سے ہے واماندگی بھی شوق بھی
بیٹھتی اُٹھتی چلی جاتی ہے دیوانے کی خاک
چلتے ہی بادبہاری ہوگیا میدان صاف
تھی مگر زندان کی دیواروں میں ویرانے کی خاک
جذب کامل کی بدولت اُٹھ گیا فرق دوئی
اب بجائے شمع، لَو دیتی ہے پروانے کی خاک
دیکھ لینا وادیء وحشت سے تامیدانِ حشر
آگے آگے ناقہ، پیچھے پیچھے دیوانے کی خاک
توبہ کیا ہو، ترکِ مے ہے میری فطرت کے خلاف
دل کا پیمانہ بنا ہے لے کے میخانے کی خاک
زلزلوں سے قبر ٹوٹی، قبر سے آندھی اُٹھی
قید ہو کر رہ نہیں سکتی تھی دیوانے کی خاک
آرزو اب کس جگہ روئیں کہاں آنسو بہائیں
ایک کردی آسماں نے اپنے بیگانے کی خاک