سلیم احمد کل نشاطِ قُرب سے موسم بہار اندازہ تھا - سلیم احمد

کل نشاطِ قُرب سے موسم بہار اندازہ تھا
کچھ ہوا بھی نرم تھی کچھ رنگِ گل بھی تازہ تھا

تھک کے سنگِ راہ پر بیھٹے تو اُٹھے ہی نہیں
حد سے بڑھ کر تیز چلنے کا یہی خمیازہ تھا

آئینہ دونوں کے آگے رکھ دیا تقدیر نے
میرے چہرے پر لہو تھا رائے گل پر غازہ تھا

مجھ کو ملّاحوں کے گیتوں سے محبت ہے مگر
رات ساحل پر ہوا کو شور بے اندازہ تھا

اب تو کچھ دکھ بھی نہیں ہے داغ بھی جاتا رہا
کل اسی دل میں یہیں اک زخم تھا اور تازہ تھا

گو یقینی تو نہیں تھے میرے تخمینے مگر
جو تجھے پیش آیا اس کا کچھ مجھے اندازہ تھا

میرے اوراقِ پریشاں دیکھنے والے ، کبھی
میں کتابِ عشق تھا اور دل مرا شیرازہ تھا

آنکھ میں اس کی چمک تھی پر ہوسنا کی بھی تھی
رنگ اس کے رُخ پر تھا لیکن رہینِ غازہ تھا

جوشِ گریہ میرے رونے کا یہ شورِ بازگشت
کچھ نہ تھا اک کوچہ گردِ صبر کا آوازہ تھا

جانے اندر کیا ہوا میں شور سن کر اے سلیمؔ
اُس جگہ پہنچا تو دیکھا بند وہ دروازہ تھا
سلیم احمد
 
Top