کاشفی
محفلین
غزل
(جناب میر مہدی صاحب مجروح دہلوی مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ)
کل نشہ میں تھا وہ بُت مسجد میں گر آجاتا
ایماں سے کہو یارو! پھر کس سے رہا جاتا
مردے کو جلا لیتے، گرتے کو اُٹھا لیتے
اک دم کو جو یاں آتے تو آپ کا کیا جاتا
یہ کہیئے کہ دھیان اُس کو آتا ہی نہیں، ورنہ
محشر سے تو سو فتنے وہ دم میں اُٹھا جاتا
محفل میں مجھے دیکھا تو ہنس کے لگے کہنے
آنے سے ہر اک کے ہے صحبت کا مزا جاتا
ایذائیں یہ پائی ہیں ،مقدور اگر ہوتا
میں رسم تعشق کو ، دنیا سے اُٹھا جاتا
کیوں پاس مرے آکر یوں بیٹھے ہو منہ پھیرے
کیا لب ترے مصری ہیں ، میں جن کو چبا جاتا
کیا جلوہ نما وہ مہ ، کوٹھے پہ ہوا آکر
کچھ آج سویرے سے سورج ہے چھپا جاتا
یہ کاہشیں کیوں ہوتیں گھبرا کے اگر یہ دل
پہلو سے نکل جاتا ،آرام سا آجاتا
اچھا ہوا محفل میں مجروح نہ کچھ بولا
وہ حال اگر کہتا تو کس سے سُنا جاتا