کل کی ماں

نیلم

محفلین
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ظالم بادشاہ حجاج بن یوسف کے لشکر کے خلاف جہاد کرنے جارہے تھے۔ جہاد پر جانے سے پہلے اپنی ماں حضرت اسماء رضی اللہ عنہ
کے پاس آئے اور اجازت طلب کی۔ حضرت اسماء ر ضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کے لئے دعا فر مائی۔
یا اللہ میرا بیٹا جہاد پر جا رہا ہے اس کو شہادت عطا فرما اور اس کو شہادت میری زندگی میں عطا فرما تاکہ میں اس پر صبر کروں اور اس صبر کا ثواب بھی لے کر اس دنیا سے جاؤں ۔

کیا ہم اپنی اولاد کے لئے ایسی دعا مانگتے ہیں ۔ ہم اپنی اولاد کے لیے لمبی عمر کی دعا مانگتے ہیں تو ان کے لیے ہدایت نہیں مانگتے۔

ہم ان کے لیے کامیابی کی دعا مانگتے ہیں تو شہادت نہیں مانگتے
جس دن اس قوم کی ما ؤں کی دعائیں حضرت اسماء رضی اللہ عنہ کی دعا جیسی ہوگئی ۔ اس دن اس قوم میں حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ جیسے بیٹے پیدا جائنگے ۔ انشاء اللہ

غزوہ بدر کے وقت مائیں اپنے بارہ ، تیرہ سال کے بچوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لاتیں اور چاہتیں کہ ان کو جہاد میں شرکت کی اجازت مل جائے
لیکن کم عمری کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منع فرمادیتے تو وہ مائیں روتے ہوئے واپس گھروں کو جاتیں اور افسوس کرتیں کہ میرے بیٹے کو جہاد میں شرکت کا موقع نہیں ملا۔
کیا ان ماؤں کو اپنی اولاد سے محبت نہیں تھی ۔ نہیں بلکہ ان ماؤں کو اپنی اولاد سے ہم سے زیادہ محبت تھی ۔ یہ اپنی اولاد کا آخرت کا فائدہ چاہتی تھی ۔ وہی اصل فائدہ ہے
اور ہم اپنی اولاد کا صرف دنیاوی فائدہ دیکھتے ہیں جو ختم ہو جانے والا ہے
یا اللہ اس قوم کی ماؤں کو صحابیات جیسا فہم ، سوچ اور ہمت عطا فرما۔
 

نیلم

محفلین
کہو طائف ‘بدر‘ خندق کے رستے چھوڑ بیٹھے ہو
تو جنت ڈھونڈتے پھرتے ہو‘ بولو کن زمینوں میں ؟
 
Top