کمال وقت کے دستِ ہنر میں دیکھا ہے

ثامر شعور

محفلین
کمال وقت کے دستِ ہنر میں دیکھا ہے
بدلتے خاک کو ہم نے گہر میں دیکھا ہے

جو تیرے ساتھ گزارا ،جو زیست کا حاصل
سمٹتا عمر کو اس اک پہر میں دیکھا ہے

جو ہونا چاہیے تھا مرے ہاتھ میں تحریر
ہر اک وہ فیصلہ اس کی نظر میں دیکھا ہے

ثبوت دیتا کسے اپنی بے گناہی کا
تمام شہر ہی اس کے اثر میں دیکھا ہے

بچھڑ کے تجھ سے کہوں کیا کہ زندگی کیا ہے
کوئی سفینہ کبھی کیا بھنور میں دیکھا ہے؟

ہزار ان کہی باتیں تھیں اس کی آنکھوں میں
چھپا ہوا کوئی شعلہ شرر میں دیکھا ہے

بسی ہے جب سے میرے دل میں جستجو اس کی
پڑاؤ کب کوئی ثامر سفر میں دیکھا ہے
 
Top