کمال یہ ہے کہ دنیا کو کچھ پتہ نہ لگے

محمدظہیر

محفلین
عزیزالرحمان شہید فتح پوری


کمال یہ ہے کہ دنیا کو کچھ پتہ نہ لگے
ہو التجا بھی کچھ ایسی کہ التجا نہ لگے

پرانی باتیں ہیں اب ان کا ذکر بھی چھوڑو
اگر کسی کو سناؤں تو اک فسانہ لگے

وہ ایک لمحہ تھا جس نے کیا مجھے بسمل
میں داستاں بتاؤں تو اک زمانہ لگے

بسے ہیں جلوے کچھ ایسے نگاہ عاشق میں
جسے بھی دیکھے کوئی تجھ سے ماسوا نہ لگے

نہ جانے کون سی منزل پہ عشق آ پہنچا
دوا بھی کام نہ آئے کوئی دعا نہ لگے

یہ کائنات کی سچائی اب کہاں ڈھونڈوں
سہانی رات کا منظر ہو اور سہانا لگے

میں دور بیٹھا تھا صحرا میں اک امید لیے
اسے بتاؤں تو یہ سچ بھی اک بہانہ لگے

بنا لیا ہے اک آئینہ اپنے دل کو شہید
مجھے تو شہر میں اب کوئی بے وفا نہ لگے
 
آخری تدوین:
Top