سید انور جاوید ہاشمی
محفلین
کمرے میں کوئی آنکھیں میچے بیٹھا تھا
چاند سرہانے کھڑکی کھولے بیٹھا تھا
دفتر جاتے وقت بسیں کب ملتی ہیں
میں مشکل سے جیسے تیسے بیٹھا تھا
بھوک سجی تھی دسترخوان کے بیچ کہیں
پانی کا جگ پیاس چھپائے بیٹھا تھا
انٹر نیٹ پہ اس سے باتیں ہوتی تھیں
یوں جیسے وہ سامنے آکے بیٹھا تھا
آوازوں پر کان لگائے تھی محفل ”اردو محفل!‘‘
میں ہی لبوں پر مہر لگائے بیٹھا تھا۔۔۔سیدانورجاویدہاشمی 5 مئی 2009
چاند سرہانے کھڑکی کھولے بیٹھا تھا
دفتر جاتے وقت بسیں کب ملتی ہیں
میں مشکل سے جیسے تیسے بیٹھا تھا
بھوک سجی تھی دسترخوان کے بیچ کہیں
پانی کا جگ پیاس چھپائے بیٹھا تھا
انٹر نیٹ پہ اس سے باتیں ہوتی تھیں
یوں جیسے وہ سامنے آکے بیٹھا تھا
آوازوں پر کان لگائے تھی محفل ”اردو محفل!‘‘
میں ہی لبوں پر مہر لگائے بیٹھا تھا۔۔۔سیدانورجاویدہاشمی 5 مئی 2009