جیہ
لائبریرین
انشاء اللہ انشاء کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی یہ غزل سکول کے زمانے سے میری پسندیدہ ہے۔ یہی وہ غزل ہے جسے انشاء نے آخری مرتبہ منظر عام پر آکر کہی تھی۔ مولانا محمد حسین آزاد نے انشاء اور اس غزل کے بارے میں اپنی کتاب آب حیات میں جو نقشہ کھینچا ہے، وہ پر تاثیر ہے
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں
تصور عرش پر ہے اور سر ہے پائے ساقی ہر
غرض کچھ اور دُھن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں
بسانِ نقش پائے رہرواں کوئے تمنّا میں
نہیں اٹھنے کی طاقت، کیا کریں، لا چار بیٹھے ہیں
یہ اپنی چال ہے افتادگی سے اب کہ پہروں تک
نظر آیا جہاں پر سایہء دیوار بیٹھے ہیں
کہاں صبر و تحمل، آہ ننگ و نام کیا شے ہے
یہاں رو پیٹ کر ان سب کو ہم یکبار بیٹھے ہیں
نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جہاں پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بیکار بیٹھے ہیں
بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشا
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں
تصور عرش پر ہے اور سر ہے پائے ساقی ہر
غرض کچھ اور دُھن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں
بسانِ نقش پائے رہرواں کوئے تمنّا میں
نہیں اٹھنے کی طاقت، کیا کریں، لا چار بیٹھے ہیں
یہ اپنی چال ہے افتادگی سے اب کہ پہروں تک
نظر آیا جہاں پر سایہء دیوار بیٹھے ہیں
کہاں صبر و تحمل، آہ ننگ و نام کیا شے ہے
یہاں رو پیٹ کر ان سب کو ہم یکبار بیٹھے ہیں
نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جہاں پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بیکار بیٹھے ہیں
بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشا
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں