انشا اللہ خان انشا کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں۔ انشاء اللہ خان انشاّ‌کی مشہور غزل

جیہ

لائبریرین
انشاء اللہ انشاء کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی یہ غزل سکول کے زمانے سے میری پسندیدہ ہے۔ یہی وہ غزل ہے جسے انشاء نے آخری مرتبہ منظر عام پر آکر کہی تھی۔ مولانا محمد حسین آزاد نے انشاء اور اس غزل کے بارے میں اپنی کتاب آب حیات میں جو نقشہ کھینچا ہے، وہ پر تاثیر ہے



کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں

تصور عرش پر ہے اور سر ہے پائے ساقی ہر
غرض کچھ اور دُھن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں

بسانِ نقش پائے رہرواں کوئے تمنّا میں
نہیں اٹھنے کی طاقت، کیا کریں، لا چار بیٹھے ہیں

یہ اپنی چال ہے افتادگی سے اب کہ پہروں تک
نظر آیا جہاں پر سایہء دیوار بیٹھے ہیں

کہاں صبر و تحمل، آہ ننگ و نام کیا شے ہے
یہاں رو پیٹ کر ان سب کو ہم یکبار بیٹھے ہیں

نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جہاں پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بیکار بیٹھے ہیں

بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشا
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں​
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
محترمہ جیہ بہنا
سدا خوش و آباد رہیں آمین
بہت خوب
بہت شکریہ
"گزرا زمانہ یاد آیا "
نایاب
 

آصف شفیع

محفلین
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں


بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشا
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں

بہت خوب۔ یہ تین اشعار تو مشہورِ زمانہ ہیں اور زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ شکریہ پوسٹ کرنے کا
 

شاہ حسین

محفلین
بسانِ نقش پائے رہرواں کوئے تمنّا میں
نہیں اٹھنے کی طاقت، کیا کریں، لا چار بیٹھے ہیں

بہت خوب جناب عمدہ انتخاب ہے
 

فاتح

لائبریرین
انشاء اللہ انشاء کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی یہ غزل سکول کے زمانے سے میری پسندیدہ ہے۔ یہی وہ غزل ہے جسے انشاء نے آخری مرتبہ منظر عام پر آکر کہی تھی۔ مولانا محمد حسین آزاد نے انشاء اور اس غزل کے بارے میں اپنی کتاب آب حیات میں جو نقشہ کھینچا ہے، وہ پر تاثیر ہے



کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں​
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں​
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی​
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں​
تصور عرش پر ہے اور سر ہے پائے ساقی ہر​
غرض کچھ اور دُھن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں​
بسانِ نقش پائے رہرواں کوئے تمنّا میں​
نہیں اٹھنے کی طاقت، کیا کریں، لا چار بیٹھے ہیں​
یہ اپنی چال ہے افتادگی سے اب کہ پہروں تک​
نظر آیا جہاں پر سایہء دیوار بیٹھے ہیں​
کہاں صبر و تحمل، آہ ننگ و نام کیا شے ہے​
یہاں رو پیٹ کر ان سب کو ہم یکبار بیٹھے ہیں​
نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو​
جہاں پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بیکار بیٹھے ہیں​
بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشا​
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں​
آج جلیل قدوائی کا ایک انتخاب نظر سے گزرا اور اس میں اس مشہورِ زمانہ غزل کے چند مصرعے مختلف شکل میں درج تھے جب کہ ایک شعر بھی اضافی موجود تھا۔ اضافی شعر اور مختلف شکل کے مصرعے سرخ رنگ میں درج کر رہا ہوں۔

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں

تصور عرش پر ہے اور سر ہے پائے ساقی ہر
خیال ان کا پرے ہے عرشِ اعظم سے کہیں ساقی
غرض کچھ اور دُھن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں

بسانِ نقش پائے رہرواں کوئے تمنّا میں
نہیں اٹھنے کی طاقت، کیا کریں، لا چار بیٹھے ہیں

یہ اپنی چال ہے افتادگی سے اب کہ پہروں تک
یہ اپنی چال ہے افتادگی سے ان دنوں پہروں
نظر آیا جہاں پر سایہء دیوار بیٹھے ہیں

کہاں صبر و تحمل، آہ ننگ و نام کیا شے ہے
کہیں ہیں صبر کس کو، آہ ننگ و نام کیا شے ہے
یہاں رو پیٹ کر ان سب کو ہم یکبار بیٹھے ہیں
غرض رو پیٹ کر ان سب کو ہم یکبار بیٹھے ہیں

نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جہاں پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بیکار بیٹھے ہیں

نئی یہ وضع شرمانے کی سیکھی آج ہے تم نے
ہمارے پاس صاحب ورنہ یوں سو بار بیٹھے ہیں

بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشا
کہاں گردش فلک کی چین دیتی ہے سنا انشا
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
کلیاتِ انشا مطبع نول کشور 1876 سے دیکھ کر یہ غزل نقل کی گئی۔

کمر باندھے ہوئے چلنے پہ یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں

خیال ان کا پرے ہے عرشِ اعظم سے کہیں ساقی
غرض کچھ اور دھُن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں

بسانِ نقش پائے رہرواں کوئے تمنّا میں
نہیں اٹھنے کی طاقت، کیا کریں، لا چار بیٹھے ہیں

یہ اپنی چال ہے افتادگی سے ان دنوں پہروں
نظر آیا جہاں پر سایۂ دیوار بیٹھے ہیں

کہیں ہیں صبر کس کو، آہ ننگ و نام کیا شے ہے
غرض رو پیٹ کر ان سب کو ہم یکبار بیٹھے ہیں

کہیں بوسہ کی مت جرات دلا کر بیٹھیو ان سے
ابھی اس حد کو وہ کیفی نہیں، ہشیار بیٹھے ہیں

نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جسے پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بیکار بیٹھے ہیں

نئی یہ وضع شرمانے کی سیکھی آج ہے تم نے
ہمارے پاس صاحب ورنہ یوں سو بار بیٹھے ہیں

کہاں گردش فلک کی چین دیتی ہے سنا انشا
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں

(انشاءاللہ خان انشا)
 
Top