صائمہ رمضان
محفلین
زندگی ایک طویل سفر کی مانند ہے جس کے گزر جانے کے بعد وہ مختصر سا وقت محسوس ہوتی ہے یہ ایک پانی کے بلبلے کی طرح ہے جو نجانے کب پھٹ جائے، اس میں امتحانات اور دُشواریاں سبھی کو درپیش ہوتی ہیں کبھی انسان عقلمندی سے ان کا سامنا کرتا ہے تو کبھی جذبات کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے اپنی پیدائش کے بعد وقت کے ساتھ انسان نت نئی چیزیں دیکھتا اور نئے کام سیکھتا رہتا ہے اور سوجھ بوجھ میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے، ٹین ایج میں نادانی اور جذبات عروج پر ہوتے ہیں اکثر ٹین ایجر معاملات کو ان کی درست صورت میں سمجھ نہیں پاتے ایسے میں بعض اوقات غفلت کے مرتکب ہوجاتے ہیں جس میں حقیقتاً وہ قصور وار نہیں ہوتے لیکن بظاہر وہ زمانے کی نظر میں ”مجرم“ بن جاتے ہیں حالانکہ اس میں رہنمائی کی کمی اور کم عمری کا عمل زیادہ ہوتا ہے۔
ٹین ایج میں بچے زمانہ شناس نہیں ہوتے اور نہ ہی مکر و فریب کے جال سے آگاہ ہوتے ہیں یہ معصومیت کی عمر ہوتی ہے اس میں اگر ان سے کوئی غلطی کوتاہی سرزد ہوجائے تو اسے نظر انداز کرکے محبت کے ساتھ ان کی الجوئی کرنی چاہیے اور ان کا اعتماد جیتنا چاہیے۔ انہیں اپنے گھر میں بڑے بہن بھائی، والدین اور اساتذہ کی شفقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بچوں کے جذبات و احساسات کو سمجھے بغیر ہر کوئی جج بننے کی کوشش کرتا ہے اور بچوں کو ڈسپلن کے نام پر سخت قسم کی ذہنی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کے ذہن میں بچپن ہی سے سزا کا خوف ڈال دیا جاتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بچے بغاوت کرنے پر تُل جاتے ہیں۔جو بات تحمل کے ساتھ بیٹھ کر سمجھائی جا سکتی ہو اس کا ڈھنڈورا پیٹ کر بچے کو ”گناہ“ کا شدید احساس دلانے اور اُس کے ہم عمر بچوں میں اس کی رُسوائی کرنے کی کیا ضرورت ہے! بعض اوقات احساسِ گناہ سے بچے کی شخصیت کے اندر ایک باصلاحیت کردار مُرجھانا شروع ہو جاتا ہے جو آہستہ آہستہ ایک ناکارہ فرد کو جنم دیتا ہے۔ ایسے افراد معاشرے پر بوجھ اور نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔اگر بچوں کو بار بار ان کی غلطیاں جتلا کر مسلسل ان کی ننھی شخصیت کی رُسوائی جاری رکھی جائے تو یہ خاندان بھر کے لیے شدید پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ایک انسان اپنے معاملات میں تو وکیل بن کر ہزاروں دلائل اکٹھے کرکے خود کو سچا ثابت کرتا ہے لیکن وہی شخص دوسروں کے لیے ایک ظالم جج کا روپ دھار کر سخت فیصلے صادر کرتا ہے۔اگر والدین، عزیز و اقارب بچوں کے ساتھ قدم قدم پر اعتماد کے ساتھ چلیں تو بہت سی مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں، ورنہ نادان بچے سے غلطی تو ہو سکتی ہے لیکن اُسے سنبھالنے کے لیے بھی عقل و تدبر کی ضرورت ہوتی ہے، انسان سے غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں اگر ایسا نہ ہو تو وہ فرشتے کہلائیں لیکن خدا کی طرف سے توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے اگر شفقت و اُنس کے ساتھ بچوں کو سمجھایا جائے تو وہ راہِ راست پر آ سکتے ہیں اور اگر خدا ان کو معاف کر سکتا ہے تو پھر یہ لو گ کون سے جھوٹے خدا ہیں جو ہر وقت کوستے رہتے ہیں۔
در اصل جب بچے بالغ ہو رہے ہوتے ہیں تو یہ ان کی عمر کا بہت نازک موڑ ہوتا ہے جس میں نئی تبدیلیاں آتی ہیں اور نئے رُجحانات جنم لیتے ہیں ۔ ہمارے ہاں یہ رواج بھی پایا جاتا ہے کہ لڑکے جو مرضی کرتے پھریں انہیں کوئی پوچھنے والا یا سمجھانے والا نہیں ہے لیکن اگر کسی لڑکی سے جانے انجانے میں کوئی غلط قدم اُٹھ گیا تو وہ پھر سب کے عتاب کانشانہ بنتی ہے معاشرے میں ایک غلط عقیدہ پروان چڑھ چکا ہے کہ شاید عزت صرف لڑکیوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے حالانکہ قرآن مجید میں نظریں نیچے رکھنے کا حکم پہلے مردوں کو ہے پھر عورتوں والی آیت آتی ہے، لیکن یہاں غلطی کی سزا صرف عورت کو دی جاتی ہے اور ایک ”گناہ“ زندگی بھر کے لئے اس کے ساتھ چپک جاتا ہے کیونکہ یہ جذباتی لوگوں کا ایک جاہل جاہل معاشرہ ہے جہاں علم سے بے بہرہ اور عدل و انساف سے بے خبر لوگ رہتے ہیں۔
لوگ اپنے متشدد رویوں سے بچوں کا مستقبل خراب کر دیتے ہیں مقصد صرف اتنا ہونا چاہیے کہ جنسی تفریق کیے بغیر بے یا بچی کے نازک احساسات کو سمجھ کر اُن کے حق میں لڑنا چاہیے، وہ اس خوف سے بے نیاز ہوں کہ کوئی ان کا بال بھی بیکا کر سکتا ہے، خود اعتمادی ہی انہیں بے یقینی کی دلدل سے باہر نکال سکتی ہے، چھوٹے معاملات سے صرفِ نظر کرکے ان کی رہنمائی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور محبت و تعاون کر نا چاہیے تاکہ بچے پُر اعتماد ہوکر ایک اچھی زندگی بسر کر سکیں۔