طارق شاہ
محفلین
غزل
کم سِتم اُن پہ جب شباب آیا
ذوق و شوق اپنے پر عتاب آیا
کیا کہیں کم نہ کچھ عذاب آیا
درمیاں جب سے ہے حجاب آیا
تب سِتم اُن کے کب شمُار میں تھے
پیار جب اُن پہ بے حساب آیا
منتظر ہم تھے گفتگو کے ، مگر
ساتھ لے کر وہ اجتناب آیا
خُونِ دل سے لکھا جو مَیں نے اُسے!
مثبت اُس کا کہاں جواب آیا
خواہشِ دِل لئے تھا نامہ مِرا
التفات اُس سے کیا، عذاب آیا
دل سے مجبُور ہو کے در پہ اُسی
آج پھر آدمی خراب آیا
لا تعلّق ہُوا وہ تب ہی خلش!
لب پہ جب اُس کے! جی، جناب آیا
شفیق خلؔش