جیا راؤ
محفلین
بی بی سی کے پروگرام میں پاکستان پر طنزیہ فقروں کے تیر چلتے ہوئے سن کر مجھے ایک تاریخی واقعہ یاد آ گیا۔ آپ نے بھی پڑھ لیا ہو گا یا سن لیا ہو گا کہ بی بی سی نے ہمارے وزیر دفاع چودھری احمد مختار کے غیر مزاحمتی بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آج گاندھی جی زندہ ہوتے تو چودھری صاحب کا ماتھا چوم لیتے کیونکہ چودھری صاحب نے گاندھی جی کے غیرمزاحمتی (Non Violence) فلسفے کی لاج رکھ لی ہے اور امریکی حملوں کے خلاف امن کے ذریعے جنگ لڑنے کے ارادے کا اظہار کیا ہے۔ گاندھی جی کو ہمیشہ یہی گلہ رہتا تھا کہ مسلمان لڑاکے ہیں۔ چنانچہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ نہ جانے اچھے بھلے امن پسند ہندو کو اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے ہی کیا ہو جاتا ہے کہ وہ لڑنے مارنے پر تیار ہو جاتا ہے اور بزدل سے بہادر بن جاتا ہے۔ اس لئے اگر آج گاندھی جی زندہ ہوتے تو یقینا بہت خوش ہوتے کہ ماشاء اللہ مسلمان کس قدر امن پسند ہو گئے ہیں کہ جب ان کے ملک پر حملے ہوتے ہیں اور ان کے شہری مرتے ہیں تو ان کا وزیر دفاع صاحب جواباً کہتا ہے کہ ہم تلوار سے نہیں بلکہ امن سے اپنا دفاع کریں گے۔ چنانچہ اسی امن کے فلسفے پر عمل کر کے وہ ہر روز اپنے شہریوں کو مروا رہے ہیں اور قوم کے حوصلے پست کر رہے ہیں۔
بلاشبہ گاندھی جی غیر مزاحمتی فلسفے کے پرچارک تھے اور اس حوالے سے ایک واقعے کا ذکر نہ ہی صرف مولانا ابوالکلام نے اپنی کتاب میں کیا ہے بلکہ اس کا ذکر اور بھی بہت سی کتابوں میں ملتا ہے۔ آپ کو علم ہے کہ جنگ عظیم دوم کے دوران لندن پر ہوائی حملے ہو رہے تھے جن کے نتیجے کے طور پر جانی و مالی نقصان ہو رہا تھا۔ ہندوستان کا انگریز وائسرائے ہندوستانی قائدین پر جنگ میں مدد کے لئے دباؤ ڈال رہا تھا۔ انہی دنوں گاندھی جی وائسرائے سے ملنے گئے تو وائسرائے نے ان سے مدد کی اپیل کی۔ اس کے جواب میں گاندھی جی نے کہا کہ براہ کرم حکومت برطانیہ کو میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ جنگی جارحیت کا مقابلہ روحانیت سے کریں۔ وائسرائے ہکا بکا رہ گیا اور پوچھنے لگا کہ وہ کس طرح ؟ گاندھی جی کا جواب تھا کہ آپ ذرہ بھر بھی مزاحمت نہ کریں، دشمن خود ہی تنگ آ کر حملے کرنا چھوڑ دے گا۔ وائسرائے نے دل میں سوچا کہ گاندھی جی کس قدر شاندار مشورہ دے رہے ہیں اور اس مرض کا کتنا تیر بہدف نسخہ تجویز کر رہے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ اس روحانی علاج کے دوران دشمن لندن کو خاک و راکھ کا ڈھیر بنا دے گا۔ ابوالکلام سمیت سارے مصنّفین نے لکھا ہے کہ وائسرائے یہ مشورہ سن کر اس قدر بوکھلایا اور گھبرایا کہ جب گاندھی جی اٹھ کر جانے لگے تو وہ کرسی سے اٹھ کر انہیں رخصت کرنا ہی بھول گیا حتیٰ کہ وہ گھنٹی بجانا بھی بھول گیا جو کہ ان ملاقاتوں کے معمول کا حصہ تھا۔ دراصل وائسرائے ایسے مواقع پر اپنی میز کے ساتھ لگا ہوا گھنٹی کا بٹن دبا دیا کرتا تھا۔ گھنٹی اس کے سیکرٹری کے کمرے میں بجتی تھی۔ سیکرٹری وائسرائے کے کمرے میں آ کر مہمان کو باہر لے آتا تھا اور اسے وائسرائے کی جانب سے رخصت کرتا تھا۔ اس روز گھبراہٹ میں وائسرائے گھنٹی کا بٹن دبانا بھول گیا چنانچہ گاندھی جی اکیلے ہی باہر نکلے اور اپنی گاڑی ڈھونڈھ کر خود ہی رخصت ہو گئے۔ ویسے اس طرح کے مشوروں کا یہی انجام ہوتا ہے۔
بی بی سی جب ہمارے ”وزیر غیردفاع“ کے بیان پر طنز کے نشتر چلا رہا تھا تو اس کا اشارہ گاندھی جی کے اسی مشورے کی جانب تھا کیونکہ آج کل پاکستان بھی اپنا دفاع روحانیت کے ذریعے ہی کر رہا ہے اور گاندھی جی کے راستے پر چلتے ہوئے ہمارے وزیر دفاع صاحب امن سے جارحیت کا جواب دینے کا اعلان کر رہے ہیں اسی لئے میں اپنے وزیر دفاع صاحب کو وزیر غیردفاع کہتا ہوں کیونکہ دنیا میں کبھی بھی جارحیت کا جواب ”منتوں ترلوں“ قدم بوسی اور وفاداری سے نہیں دیا جاتا۔ اگر ایسا ہی ہو تو پھر قوم کو بھوکا ننگا رکھ کر دفاع پر کھربوں روپے لگانے کا کیا تُک ہے۔ اور ایک عدد وزارت دفاع پالنے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر اس وزارت کا نام ”جی آیاں نوں“ رکھ دیں جس کا انگریزی ترجمہ ہو گا You Are Most Welcome ۔
ویسے میں الطاف بھائی کا خطاب سن کر اس صورت حال کا سارا الزام چودھری احمد مختار کو بھی نہیں دیتا کیونکہ ہماری وزارت دفاع نے دکھانے کے لئے اپنے ایف 16 طیارے وزیرستان کی فضاؤں میں بھیجے تھے اور بڑی بڑی خبریں لگوا دی تھیں تو امریکہ نے پاکستان کو دیے گئے ایف 16 طیاروں کے جواب میں ایف 18 بھجوا دیے۔ اب اس میں بیچارے چودھری صاحب کیا کریں کیونکہ ایف 18 بڑا خوفناک طیارہ ہے۔ ویسے امریکہ یہ طیارہ ہندوستان کو بھی دے چکا ہے۔ خدانخواستہ کل کلاں ہندوستان نے اس طیارے کا لشکارہ دکھا دیا تو چودھری صاحب کیا کریں گے؟ بہرحال اس میں ایک اچھی پیش رفت یہ ہے کہ جب ہمارے طیارے جاتے ہیں تو امریکی طیارے بھاگ جاتے ہیں جس سے ہمیں شاندار سرخیاں لگانے کا موقع مل جاتا ہے اور جب ہمارے طیارے واپس آجاتے ہیں تو امریکی طیارے اپنا کام کرنے لگتے ہیں۔ امید ہے کہ اسی طرح کامیابی سے یہ آنکھ مچولی کا کھیل جاری رہے گا اور چودھری صاحب کے امن کے فلسفے کو گزند نہیں پہنچے گا کیونکہ امریکہ کو للکارنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے اس کے لئے بڑی قومی غیرت و حمیت درکار ہے جس سے غلام ابن غلام قومیں محروم ہوتی ہیں ورنہ امریکہ کے قریب واقع دو ممالک بولیویا اور وینزویلا نے نہ ہی صرف امریکہ سے اپنے سفیر بلا لئے ہیں بلکہ احتجاج کے طور پر امریکہ کے سفیروں کو بھی دیس نکالا دے دیا ہے لیکن ہماری حکومت یہ رسک بھی نہیں لے گی کیونکہ اگر ہماری حکومت واشنگٹن میں تعینات اپنے سفیر حسین حقانی کو واپس بھی بلا لے تو وہ واپس نہیں آئیں گے۔ اس کی وجہ تو آپ جانتے ہی ہیں۔ مختصر یہ کہ جب پالیسی ساز اداروں میں ایجنٹ بھرے ہوں تو پھر جارحیت کا جواب صرف امن کے ذریعے ہی دیا جا سکتا ہے۔
چلئے امریکہ کے حملوں کا جواب آپ نہیں دے سکتے تو نہ دیجئے لیکن اپنی پارلیمنٹ کی پاس کردہ قراردادوں کا بھرم رکھنے کے لئے اور قوم کو تسلی دینے کے لئے کچھ تو کیجئے کیونکہ جب امریکی حملے ہمارے صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف کے بیانات کا مذاق اڑانے لگیں تو ہم پر کچھ نہ کچھ کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ مثلاً اگر آپ ہرگز مزاحمت یا جوابی کارروائی کرنا افورڈ نہیں کر سکتے تو نہ کیجئے لیکن آپ اتنا تو کر سکتے ہیں کہ امریکی اور نیٹو فورسز کی سپلائی بذریعہ پاکستان فقط چند روز کے لئے معطل کر دیں اور یہ کارروائی کرنے سے قبل امریکی حکومت کو باقاعدہ وارننگ دیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ دوم یہ کہ امریکہ پر واضح کر دیں کہ اگر آپ نے یونہی پاکستان پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا تو ہم سرحدی علاقوں میں جاری آرمی آپریشن بند کر دیں گے جو ہم نے امریکہ کے حکم پر شروع کیا ہے اور جس میں ہمارا بے پناہ جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے۔ تیسری آپشن یہ بھی ہے کہ آپ بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل کریں، سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلانے کی تجویز دیں اور امریکہ پر دباؤ بڑھائیں۔ بین الاقوامی رائے عامہ ڈپلومیسی کا موثر ہتھیار ہوتی ہے۔
اگر ان میں سے کوئی تجویز بھی آپ کے لئے قابل قبول نہیں تو پھر گاندھی جی کے غیرمزاحمتی فلسفے پر عمل کرتے ہوئے ایک کام کریں۔ وزیرستان کے لوگوں کو مشورہ دیں کہ جب ان کی فضا میں امریکی طیارے نمودار ہوں تو وہ باہر نکل آیا کریں اور میدانوں میں کھڑے ہو کر طیاروں کو جوتے لہرائیں۔ اس سے دو فائدے ہوں گے اوّل تو جوتوں کی سیل بڑھ جائے گی دوم گاندھی جی کی روح خوش ہو جائے گی، سوم احتجاج کی بھاپ بھی نکل جائے گی لیکن مجھے خدشہ ہے کہ چوہدری احمد مختار اس معصوم احتجاج کو بھی شرف قبولیت نہیں بخشیں گے کیونکہ جن قوتوں کی خوشامد کر کے اقتدار حاصل کیا جائے ان کو آنکھیں دکھانا ممکن نہیں ہوتا اور آقا کے مکوں کا جواب سر تسلیم خم کر کے ہی دیا جاتا ہے۔ سر تسلیم خم ہے جو مزاج ”آقا“ میں آئے !
روزنامہ جنگ
بلاشبہ گاندھی جی غیر مزاحمتی فلسفے کے پرچارک تھے اور اس حوالے سے ایک واقعے کا ذکر نہ ہی صرف مولانا ابوالکلام نے اپنی کتاب میں کیا ہے بلکہ اس کا ذکر اور بھی بہت سی کتابوں میں ملتا ہے۔ آپ کو علم ہے کہ جنگ عظیم دوم کے دوران لندن پر ہوائی حملے ہو رہے تھے جن کے نتیجے کے طور پر جانی و مالی نقصان ہو رہا تھا۔ ہندوستان کا انگریز وائسرائے ہندوستانی قائدین پر جنگ میں مدد کے لئے دباؤ ڈال رہا تھا۔ انہی دنوں گاندھی جی وائسرائے سے ملنے گئے تو وائسرائے نے ان سے مدد کی اپیل کی۔ اس کے جواب میں گاندھی جی نے کہا کہ براہ کرم حکومت برطانیہ کو میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ جنگی جارحیت کا مقابلہ روحانیت سے کریں۔ وائسرائے ہکا بکا رہ گیا اور پوچھنے لگا کہ وہ کس طرح ؟ گاندھی جی کا جواب تھا کہ آپ ذرہ بھر بھی مزاحمت نہ کریں، دشمن خود ہی تنگ آ کر حملے کرنا چھوڑ دے گا۔ وائسرائے نے دل میں سوچا کہ گاندھی جی کس قدر شاندار مشورہ دے رہے ہیں اور اس مرض کا کتنا تیر بہدف نسخہ تجویز کر رہے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ اس روحانی علاج کے دوران دشمن لندن کو خاک و راکھ کا ڈھیر بنا دے گا۔ ابوالکلام سمیت سارے مصنّفین نے لکھا ہے کہ وائسرائے یہ مشورہ سن کر اس قدر بوکھلایا اور گھبرایا کہ جب گاندھی جی اٹھ کر جانے لگے تو وہ کرسی سے اٹھ کر انہیں رخصت کرنا ہی بھول گیا حتیٰ کہ وہ گھنٹی بجانا بھی بھول گیا جو کہ ان ملاقاتوں کے معمول کا حصہ تھا۔ دراصل وائسرائے ایسے مواقع پر اپنی میز کے ساتھ لگا ہوا گھنٹی کا بٹن دبا دیا کرتا تھا۔ گھنٹی اس کے سیکرٹری کے کمرے میں بجتی تھی۔ سیکرٹری وائسرائے کے کمرے میں آ کر مہمان کو باہر لے آتا تھا اور اسے وائسرائے کی جانب سے رخصت کرتا تھا۔ اس روز گھبراہٹ میں وائسرائے گھنٹی کا بٹن دبانا بھول گیا چنانچہ گاندھی جی اکیلے ہی باہر نکلے اور اپنی گاڑی ڈھونڈھ کر خود ہی رخصت ہو گئے۔ ویسے اس طرح کے مشوروں کا یہی انجام ہوتا ہے۔
بی بی سی جب ہمارے ”وزیر غیردفاع“ کے بیان پر طنز کے نشتر چلا رہا تھا تو اس کا اشارہ گاندھی جی کے اسی مشورے کی جانب تھا کیونکہ آج کل پاکستان بھی اپنا دفاع روحانیت کے ذریعے ہی کر رہا ہے اور گاندھی جی کے راستے پر چلتے ہوئے ہمارے وزیر دفاع صاحب امن سے جارحیت کا جواب دینے کا اعلان کر رہے ہیں اسی لئے میں اپنے وزیر دفاع صاحب کو وزیر غیردفاع کہتا ہوں کیونکہ دنیا میں کبھی بھی جارحیت کا جواب ”منتوں ترلوں“ قدم بوسی اور وفاداری سے نہیں دیا جاتا۔ اگر ایسا ہی ہو تو پھر قوم کو بھوکا ننگا رکھ کر دفاع پر کھربوں روپے لگانے کا کیا تُک ہے۔ اور ایک عدد وزارت دفاع پالنے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر اس وزارت کا نام ”جی آیاں نوں“ رکھ دیں جس کا انگریزی ترجمہ ہو گا You Are Most Welcome ۔
ویسے میں الطاف بھائی کا خطاب سن کر اس صورت حال کا سارا الزام چودھری احمد مختار کو بھی نہیں دیتا کیونکہ ہماری وزارت دفاع نے دکھانے کے لئے اپنے ایف 16 طیارے وزیرستان کی فضاؤں میں بھیجے تھے اور بڑی بڑی خبریں لگوا دی تھیں تو امریکہ نے پاکستان کو دیے گئے ایف 16 طیاروں کے جواب میں ایف 18 بھجوا دیے۔ اب اس میں بیچارے چودھری صاحب کیا کریں کیونکہ ایف 18 بڑا خوفناک طیارہ ہے۔ ویسے امریکہ یہ طیارہ ہندوستان کو بھی دے چکا ہے۔ خدانخواستہ کل کلاں ہندوستان نے اس طیارے کا لشکارہ دکھا دیا تو چودھری صاحب کیا کریں گے؟ بہرحال اس میں ایک اچھی پیش رفت یہ ہے کہ جب ہمارے طیارے جاتے ہیں تو امریکی طیارے بھاگ جاتے ہیں جس سے ہمیں شاندار سرخیاں لگانے کا موقع مل جاتا ہے اور جب ہمارے طیارے واپس آجاتے ہیں تو امریکی طیارے اپنا کام کرنے لگتے ہیں۔ امید ہے کہ اسی طرح کامیابی سے یہ آنکھ مچولی کا کھیل جاری رہے گا اور چودھری صاحب کے امن کے فلسفے کو گزند نہیں پہنچے گا کیونکہ امریکہ کو للکارنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے اس کے لئے بڑی قومی غیرت و حمیت درکار ہے جس سے غلام ابن غلام قومیں محروم ہوتی ہیں ورنہ امریکہ کے قریب واقع دو ممالک بولیویا اور وینزویلا نے نہ ہی صرف امریکہ سے اپنے سفیر بلا لئے ہیں بلکہ احتجاج کے طور پر امریکہ کے سفیروں کو بھی دیس نکالا دے دیا ہے لیکن ہماری حکومت یہ رسک بھی نہیں لے گی کیونکہ اگر ہماری حکومت واشنگٹن میں تعینات اپنے سفیر حسین حقانی کو واپس بھی بلا لے تو وہ واپس نہیں آئیں گے۔ اس کی وجہ تو آپ جانتے ہی ہیں۔ مختصر یہ کہ جب پالیسی ساز اداروں میں ایجنٹ بھرے ہوں تو پھر جارحیت کا جواب صرف امن کے ذریعے ہی دیا جا سکتا ہے۔
چلئے امریکہ کے حملوں کا جواب آپ نہیں دے سکتے تو نہ دیجئے لیکن اپنی پارلیمنٹ کی پاس کردہ قراردادوں کا بھرم رکھنے کے لئے اور قوم کو تسلی دینے کے لئے کچھ تو کیجئے کیونکہ جب امریکی حملے ہمارے صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف کے بیانات کا مذاق اڑانے لگیں تو ہم پر کچھ نہ کچھ کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ مثلاً اگر آپ ہرگز مزاحمت یا جوابی کارروائی کرنا افورڈ نہیں کر سکتے تو نہ کیجئے لیکن آپ اتنا تو کر سکتے ہیں کہ امریکی اور نیٹو فورسز کی سپلائی بذریعہ پاکستان فقط چند روز کے لئے معطل کر دیں اور یہ کارروائی کرنے سے قبل امریکی حکومت کو باقاعدہ وارننگ دیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ دوم یہ کہ امریکہ پر واضح کر دیں کہ اگر آپ نے یونہی پاکستان پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا تو ہم سرحدی علاقوں میں جاری آرمی آپریشن بند کر دیں گے جو ہم نے امریکہ کے حکم پر شروع کیا ہے اور جس میں ہمارا بے پناہ جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے۔ تیسری آپشن یہ بھی ہے کہ آپ بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل کریں، سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلانے کی تجویز دیں اور امریکہ پر دباؤ بڑھائیں۔ بین الاقوامی رائے عامہ ڈپلومیسی کا موثر ہتھیار ہوتی ہے۔
اگر ان میں سے کوئی تجویز بھی آپ کے لئے قابل قبول نہیں تو پھر گاندھی جی کے غیرمزاحمتی فلسفے پر عمل کرتے ہوئے ایک کام کریں۔ وزیرستان کے لوگوں کو مشورہ دیں کہ جب ان کی فضا میں امریکی طیارے نمودار ہوں تو وہ باہر نکل آیا کریں اور میدانوں میں کھڑے ہو کر طیاروں کو جوتے لہرائیں۔ اس سے دو فائدے ہوں گے اوّل تو جوتوں کی سیل بڑھ جائے گی دوم گاندھی جی کی روح خوش ہو جائے گی، سوم احتجاج کی بھاپ بھی نکل جائے گی لیکن مجھے خدشہ ہے کہ چوہدری احمد مختار اس معصوم احتجاج کو بھی شرف قبولیت نہیں بخشیں گے کیونکہ جن قوتوں کی خوشامد کر کے اقتدار حاصل کیا جائے ان کو آنکھیں دکھانا ممکن نہیں ہوتا اور آقا کے مکوں کا جواب سر تسلیم خم کر کے ہی دیا جاتا ہے۔ سر تسلیم خم ہے جو مزاج ”آقا“ میں آئے !
روزنامہ جنگ