کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل سینیٹ سے منظور، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کا احتجاج

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرقان احمد

محفلین
یہودی مذہبی تعلیمات کا مذاق لبرل اسرائیل میں بھی اڑایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ کل اسرائیلی آبادی کا 40 فیصد جبکہ صرف یہودی آبادی کا 50 فیصد طبقہ سیکولر /لبرل ہے:
PF_2016.03.08_israel-01-01.png
مسلم آبادی کو بھی سیکولرزمیں شمار کیا گیا ہے کیا؟ :)
 

فرقان احمد

محفلین
یعنی کہ، امر واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل میں لبرل چھائے ہوئے ہیں تاہم اس کے باوجود اس نوعیت کے فیصلے راہب کرتے ہیں ۔۔۔! :) اور لبرل محض اُن کا مذاق اڑانے میں مصروف رہتے ہیں ۔۔۔! لبرلز کی کارکردگی دیکھا چاہیے ہے ۔۔۔! :)
 

dxbgraphics

محفلین
قائد اعظم ؒ کی اپنی ویڈیو جس میں لپسنگ بلکل ٹھیک ہے اس میں اردو والی ڈبنگ کا کوئی ذکر نہیں۔ قادیانیوں کو کوئی بلیک ہول نہیں ملے گا اسلام کا لبادہ اوڑھنے یا مساجد اور اسلامی شعائر کو اپنانے کا۔ وہ ایک آزاد اقلیت ہیں لیکن آئین پاکستان کے تحت
 

جاسم محمد

محفلین
اور یہی ہمارا بنیادی نکتہ ہے۔۔۔
مکار یہودی اسرائیل میں تو اپنے دین پر چلیں گے۔۔۔
کیونکہ یہودی ریاست بنائی ہی اس لیے ہے۔۔۔
اور جس طرح بنائی ہے وہ ان کی مکاری عیاں کرنےکے لیے کافی ہے۔۔۔
لیکن ساری دنیا میں اپنے سازشی گرگے چھوڑ رکھے ہیں جو خصوصاً اسلامی احکامات کا مذاق اڑاتے ہیں، فتنے بپا کرتے ہیں، فساد پھیلاتے ہیں!!!
مضحکہ خیز۔ اسرائیل میں جہاں کچھ علاقہ جات انتہا درجہ کے یہودی کٹرپن کا شکار ہیں۔ وہیں بہت سے علاقے انتہا درجہ کے لبرل اور آزاد بھی ہیں۔ اور یہی اجتماعی قومی برداشت اسرائیلی قوم اور یہودیوں کی ترقیات کا اصل راز ہے۔ کیا کسی لبرل ترین مسلم ملک میں اس قسم کے’ہم جنس پرستوں کے جلوس‘ سرے عام باہر نکالے جا سکتے ہیں؟ ظاہر ہے نہیں۔مشتعل لوگ تو ان کو وہیں پر اُلٹا لٹکا دیں گے ۔
86957070991397640360no.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
حتیٰ کہ طلاق وغیرہ کے معاملات طے کرنے کے لیے اسرائیل میں عدالتیں بھی یہودی راہب ہی لگاتے ہیں ۔۔۔! :) یہ ایک دلچسپ بات ہے ۔۔۔!
شادیاں بھی وہی کراتے ہیں۔ یہ زیادہ دلچسپ بات ہے۔ :)
اور سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ ملک سے باہر کی گئی ہم جنس پرستوں کی ’شادیاں‘ اسرائیلی سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں قانونی حیثیت رکھتی ہیں :)
 

فرقان احمد

محفلین
شادیاں بھی وہی کراتے ہیں۔ یہ زیادہ دلچسپ بات ہے۔ :)
اور سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ ملک سے باہر کی گئی ہم جنس پرستوں کی ’شادیاں‘ اسرائیلی سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں قانونی حیثیت رکھتی ہیں :)
جی ہاں، جی ہاں ۔۔۔! راہب اس لطف و عنایت سے کیونکر محروم رہیں ۔۔۔! :)
 

جاسم محمد

محفلین
آپ تھوڑا اور مطالعہ کریں گے تو مزید کئی دلچسپ باتیں سامنے آئیں گی۔۔۔
مثلاً دنیا بھر میں خصوصاً اسلامی دنیا میں ان مکار یہودیوں نے خاندانی نظام تباہ کرنے کے جو مختلف شوشے چھوڑ رکھے ہیں۔۔۔
جیسا یہاں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں کہ کبھی ایک سے زیادہ شادی پر فتنہ ہے تو کبھی کم عمر شادی پر فساد۔۔۔
کبھی زیادہ بچے پیدا کرنے پر لگ جاتی ہے ان کو آگ۔۔۔
جبکہ اسرائیل میں خاندانی نظام تباہ کرنے کی کوئی مہم نہیں چلائی جاتی الٹا زیادہ بچے پیدا کرنے پر وظیفے باندھے جاتے ہیں۔۔۔
اسرائیل کے متعلق پڑھتے جائیے اور سر دھنتے جائیے۔۔۔
دنیا یوں ہی تو یہودیوں کو مکار اور سازشی نہیں کہتی!!!
اسرائیل میں ہم جنس پرستی عام ہے۔بض ہم جنس پرست جوڑوں کو اڈاپشن کی سہولت بھی میسر ہے۔ فحاشی بھی سر عام دیکھنے کو ملتی ہے۔
ان تمام بد اخلاقیوں ،بے حیائیوں کے باوجود یہ قوم پھل پھول رہی ہے اور ساتھ ساتھ پوری دنیا میں خطرناک سازشیں بھی کر رہی ہے۔
 

جان

محفلین
قائد اعظم ؒ کی اپنی ویڈیو جس میں لپسنگ بلکل ٹھیک ہے اس میں اردو والی ڈبنگ کا کوئی ذکر نہیں۔ قادیانیوں کو کوئی بلیک ہول نہیں ملے گا اسلام کا لبادہ اوڑھنے یا مساجد اور اسلامی شعائر کو اپنانے کا۔ وہ ایک آزاد اقلیت ہیں لیکن آئین پاکستان کے تحت
یہ ویڈیو ایک شعر کے جواب میں بھیجی گئی ہے، باقی آپ جو سمجھیں آپ کی مرضی۔ :)
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
اسرائیل میں ہم جنس پرستی عام ہے۔بض ہم جنس پرست جوڑوں کو اڈاپشن کی سہولت بھی میسر ہے۔ فحاشی بھی سر عام دیکھنے کو ملتی ہے۔
ان تمام بد اخلاقیوں ،بے حیائیوں کے باوجود یہ قوم پھل پھول رہی ہے اور ساتھ ساتھ پوری دنیا میں خطرناک سازشیں بھی کر رہی ہے۔
صاحب! اسرائیلی قوم ہر طرح سے پھل پھول رہی ہے اور ترقی کی شاہراہوں پر گامزن ہے۔ چلیے، اب یوں کرتے ہیں کہ موضوع کی طرف پلٹ آتے ہیں ۔۔۔! :)
 

جاسم محمد

محفلین
جاسم محمد پائین روٹی شوٹی کھا کے، جھٹ ریسٹ مار کے کوئی نووا مراسلہ کرو۔ وا وا رونق لائی ہوئی جے:)
مہمند ڈیم کی تقریب میں سابق عظمیٰ، یوٹرن اور ڈھول سپاہیا کی تقاریر’ ایک پیج پر‘ دیکھ کر لطف اندوز ہو رہا تھا۔ :sneaky:
خیر اب موضوع پر واپس آتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
قائد اعظم ؒ کی اپنی ویڈیو جس میں لپسنگ بلکل ٹھیک ہے اس میں اردو والی ڈبنگ کا کوئی ذکر نہیں۔
آپ قائد اعظم کی انگریزی والی تقریر کا ہی اردو میں ترجمہ کر کے اس پر آج عمل در آمد شروع کر دیں تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی:
No power can hold another nation, and specially a nation of 400 million souls in subjection; nobody could have conquered you, and even if it had happened, nobody could have continued its hold on you for any length of time, but for this. Therefore, we must learn a lesson from this. You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place or worship in this state of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the state. As you know, history shows that in England, conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some states in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class. Thank God, we are not starting in those days. We are starting in the days where there is no discrimination, no distinction between one community and another, no discrimination between one caste or creed and another. We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one state. The people of England in course of time had to face the realities of the situation and had to discharge the responsibilities and burdens placed upon them by the government of their country and they went through that fire step by step. Today, you might say with justice that Roman Catholics and Protestants do not exist; what exists now is that every man is a citizen, an equal citizen of Great Britain and they are all members of the nation.
Now I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the state. Jinnah, August 11, 1947 –chairing the constituent assembly.

قائد اعظم بنیادی طور پر پاکستانیوں کو ایک متحد قوم بنانا چاہتے تھے۔ مگر آج آزادی کے 72 سال بعد بھی قوم شیعہ، سنی، قادیانی، ہندو، مسیحی، پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتون، بلوچ میں بٹی ہوئی ہے۔ افسوس بنگالیوں کی عبرتناک جدائی سے بھی کچھ سبق حاصل نہ کیا۔
 

فرقان احمد

محفلین
آپ قائد اعظم کی انگریزی والی تقریر کا ہی اردو میں ترجمہ کر کے اس پر آج عمل در آمد شروع کر دیں تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی:
No power can hold another nation, and specially a nation of 400 million souls in subjection; nobody could have conquered you, and even if it had happened, nobody could have continued its hold on you for any length of time, but for this. Therefore, we must learn a lesson from this. You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place or worship in this state of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the state. As you know, history shows that in England, conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some states in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class. Thank God, we are not starting in those days. We are starting in the days where there is no discrimination, no distinction between one community and another, no discrimination between one caste or creed and another. We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one state. The people of England in course of time had to face the realities of the situation and had to discharge the responsibilities and burdens placed upon them by the government of their country and they went through that fire step by step. Today, you might say with justice that Roman Catholics and Protestants do not exist; what exists now is that every man is a citizen, an equal citizen of Great Britain and they are all members of the nation.
Now I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the state. Jinnah, August 11, 1947 –chairing the constituent assembly.

قائد اعظم بنیادی طور پر پاکستانیوں کو ایک متحد قوم بنانا چاہتے تھے۔ مگر آج آزادی کے 72 سال بعد بھی قوم شیعہ، سنی، قادیانی، ہندو، مسیحی، پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتون، بلوچ میں بٹی ہوئی ہے۔ افسوس بنگالیوں کی عبرتناک جدائی سے بھی کچھ سبق حاصل نہ کیا۔
قائداعظم تو سول بالادستی بھی چاہتے تھے مگر پچاس کی دہائی سے ہی خاکیان نے ایسی واردات ڈالی کہ اب تک ہم بے سمت ہیں ۔۔۔! :)
 

dxbgraphics

محفلین
مضحکہ خیز۔ اسرائیل میں جہاں کچھ علاقہ جات انتہا درجہ کے یہودی کٹرپن کا شکار ہیں۔ وہیں بہت سے علاقے انتہا درجہ کے لبرل اور آزاد بھی ہیں۔ اور یہی اجتماعی قومی برداشت اسرائیلی قوم اور یہودیوں کی ترقیات کا اصل راز ہے۔ کیا کسی لبرل ترین مسلم ملک میں اس قسم کے’ہم جنس پرستوں کے جلوس‘ سرے عام باہر نکالے جا سکتے ہیں؟ ظاہر ہے نہیں۔مشتعل لوگ تو ان کو وہیں پر اُلٹا لٹکا دیں گے ۔
86957070991397640360no.jpg
تو آپ ہم جنس پرستوں کے پرستار نکل آئے۔ جس کی تمام مذاہب میں سوائے قادیانی مذہب کے ممانعت ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
آپ قائد اعظم کی انگریزی والی تقریر کا ہی اردو میں ترجمہ کر کے اس پر آج عمل در آمد شروع کر دیں تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی:
No power can hold another nation, and specially a nation of 400 million souls in subjection; nobody could have conquered you, and even if it had happened, nobody could have continued its hold on you for any length of time, but for this. Therefore, we must learn a lesson from this. You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place or worship in this state of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the state. As you know, history shows that in England, conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some states in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class. Thank God, we are not starting in those days. We are starting in the days where there is no discrimination, no distinction between one community and another, no discrimination between one caste or creed and another. We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one state. The people of England in course of time had to face the realities of the situation and had to discharge the responsibilities and burdens placed upon them by the government of their country and they went through that fire step by step. Today, you might say with justice that Roman Catholics and Protestants do not exist; what exists now is that every man is a citizen, an equal citizen of Great Britain and they are all members of the nation.
Now I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the state. Jinnah, August 11, 1947 –chairing the constituent assembly.

قائد اعظم بنیادی طور پر پاکستانیوں کو ایک متحد قوم بنانا چاہتے تھے۔ مگر آج آزادی کے 72 سال بعد بھی قوم شیعہ، سنی، قادیانی، ہندو، مسیحی، پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتون، بلوچ میں بٹی ہوئی ہے۔ افسوس بنگالیوں کی عبرتناک جدائی سے بھی کچھ سبق حاصل نہ کیا۔
تو آپ مانتے ہیں کہ اردو والی ڈبنگ جھوٹ ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top