کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل سینیٹ سے منظور، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کا احتجاج

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

جاسم محمد

محفلین
تو آپ ہم جنس پرستوں کے پرستار نکل آئے۔
اسرائیل میں بیک وقت موجود دو انتہاؤں یعنی شدید دقیانوسی یہودی مذہبیت اور شدید لبرل سیکولرآزادی کی ایک جھلک دکھائی تھی۔ آپ نے اس میں سے بھی اپنے محبوب قادیانی نکال لئے ہیں۔ آج تک کوئی ایک ہم جنس پرست قادیانی منظر عام پر آیا ہو تو بتائیں۔
 

جان

محفلین
مسئلہ اردو یا انگریزی والے حصے کا ہرگز نہ ہے۔ اگر بالفرض یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اردو والا حصہ کسی کی شرارت ہے تو اس کے علاوہ بھی قائد کے کئی ایسے بیانات آن ریکارڈ ہیں۔ لیکن اگر کوئی بات میرے نظریات کی کنفرمیشن نہیں کرتی یا میں کسی بھی نقطہ نظر سے متفق نہ ہوں تو میں اپنے نظریات کو ان سے برتر سمجھوں گا اور ان پہ تنقیدی نگاہ حتی الامکان ڈالنے سے کتراؤں گا چاہے میرے اپنے نظریات مٹی کی ریت پہ ہی کیوں نہ کھڑے ہوں۔ یہی مجھ سمیت ہر انسان کی کمزوری ہے کہ وہ بائیسڈ نظریات پہ چلتا ہے چاہے وہ دائیں طرف کے ہوں یا بائیں طرف کے۔
 

جان

محفلین
احقر کی اس حوالے سے رائے یہ ہے کہ بہت سے معاشرتی و ثقافتی معاملات جن میں شادی کی عمر بھی شامل ہے اس پہ اسلام نے کوئی حکم نہیں دیا اور اس وجہ سے کہ ایک وقت میں ہر علاقے میں معاشرت و ثقافت ایک نہیں ہوتے اور معاشرت ہمیشہ ارتقاء کے مراحل میں رہتی ہے چاہے اس کی سمت تنزلی کی طرف ہو یا ترقی کی طرف، اس لیے بہت سارے معاملات معاشرت پہ ہی چھوڑ دیے گئے ہیں اور اس پر کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ شادی پر کسی مجتہد کا اجتہاد تو ہو سکتا ہے، کسی خاص فقہ کا اپنا نظریہ بھی ہو سکتا ہے، کسی مفتی کا فتوی بھی ہو سکتا ہے لیکن میری ناقص رائے میں اس پہ اصل حق معاشرت کا ہی رہے گا اور ہر آنے والی معاشرت مشورے سے ایسے معاملات طے کر سکتی ہے۔ مسئلہ صرف بچے پیدا کرنا نہیں یا خاندان بسانا نہیں، ان کی تعلیم و تربیت اور ایک اچھا انسان اور خاندان معاشرے کو دینا بھی ہے۔ مسلمانوں کی تعداد محض بچے پیدا کر کی ہی نہیں بڑھائی جا سکتی بلکہ تبلیغ کا طریقہ بھی موجود ہے جو خود حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت بھی ہے۔ اور مسئلہ زیادہ یا کم بچوں کا نہ ہے بلکہ ایک اچھا مسلمان بنانے کا بھی ہے، ان کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کا بھی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ شادی کے وقت حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی عمر کیا تھی؟ اس سے اختلاف کا ہر کسی کو پورا حق حاصل ہے تاہم کسی فتوے سے اجتناب ضروری ہے کہ اللہ کریم کو اپنے اعمال کا جواب دہ میں خود ہوں۔
 
آخری تدوین:

ابن جمال

محفلین
جب یہ طے نہیں ہے کہ کیا کیا جرم نہیں ہے تو اس کو جائز و ناجائز کون طے کرے گا؟ میں نے قومی اسمبلی کے اس بل پہ کوئی بات نہیں کی بلکہ محض یہ جاننا چاہا ہے کہ جو چیز طے نہیں ہے اسے کون طے کرے گا؟ جب آپ کے مطابق کسی نے بھی لغو قرار نہیں دیا تو وہ قانون کی حیثیت کیسے پا لے گا؟ آپ نجانے دوسرے اور تیسرے پیرے میں کس سے مخاطب ہیں وہ میرا موضوع ہی نہیں ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت خوبصورت جواب دیا ہے اور اسی میں آپ کی منطق کا جواب موجود ہے۔
آپ کی سوئی اسی پر اٹکی ہوئی ہے،جب کہ یہ واضح ہے کہ جس کو جرم قرارنہیں دیاگیاوہ جرم نہیں ہے،مثلاپاکستان کے دستور اورقانون میں جوچیزیں جرم نہیں ہیں، وہ چیزیں جائز ہیں،کیااس کو بھی سمجھنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے،اگرآپ نے اصول فقہ یعنی اسلامی شریعت کے ماخذ کا مطالعہ کیاہوگاتواس میں فقہاء نے تفصیل سے اس کو بیان کیاہے کہ شریعت جن امور کے بارے میں خاموش ہے،وہ جائز اورمباح ہیں،ان کے جواز کیلئے الگ سے کسی دلیل کی ضرورت نہیں،علاوہ ازیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ عہد رسالت میں، عہد صحابہ وتابعین میں اورمابقی ادوار میں نابالغی کی شادیاں ہوتی رہیں ہیں،اگریہ شریعت میں ناجائز ہوتاتوکسی نے بھی توآواز اٹھائی ہوتی،لیکن ہمیں کسی قابل ذکر مجتہد کا نام نہیں ملتا جس نے نابالغی کی شادی کوناجائز قراردیاہو۔
ویسےپہلے موضوع طے کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ کی بحث کا مرکزی نقطہ نابالغی کی شادی ہے یاپھر قانون جس امر سے خاموش ہےاس کاجواز کاثبوت ہے۔
 

ابن جمال

محفلین
ایک سوال
بالغ ہونے کے بعد مذہب نے شادی پر عمر کی قید نہیں لگائی، اب ایک مسلمان ملک کی پارلیمنٹ اکثریت کے ساتھ شادی کی کم سے کم عمر کا قانون بنا دے تو کیا یہ اسلام کے خلاف ہو گا؟
یہ سوال اس لیے ذہن میں آیا کہ اسلام نے ایک سے زیادہ شادی پر پابندی نہیں لگائی اور زیادہ سے زیادہ شادیوں کی حد چار مقرر کی ہے۔
اب پاکستان میں مرد کو دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے قانونا اجازت لینا پڑتی ہے۔ ملائشیا میں تو باقاعدہ عدالت کو مطمئن کرنا پرٹا ہے۔ کیا اس طرح کے قانون اسلام کے خلاف ہوں گے؟
دوسری شادی پر پابندی یاپہلی بیوی سے اجازت لینے کی شرط دونوں غلط ہیں، یہ تو ایسے ہی ہے کہ کوئی کہہ دے کہ نماز کرتا پاجامہ میں ہی اداکیاجائے یاپینٹ شرٹ میں ہی پڑھی جائے اورکہے کہ ہم نے نماز پر پابندی تھوڑی لگائی ہے ہم بس چاہتے ہیں کہ نماز کی صفوں میں نمازیوں کے درمیان لباس کے لحاظ سے یکسانیت ہو،جیسے یہ یکسانیت کے فارمولہ کے تحت نماز کیلئے کسی مخصوص لباس کو متعین کرناغلط ہوگا،اسی طرح دوسری شادی پر پابندی یاپھر پہلی بیوی سے شرط کی اجازت بھی غلط ہوگی،اورجیسے نمازکی ادائیگی کیلئے کسی خاص لباس کو متعین کرنے والی کی یہ دلیل قابل قبول نہیں ہے کہ منع کی دلیل کیاہے تم پیش کرو اسی طرح دوسری شادی پر پابندی یاپہلی والی سے اجازت کے حامی افراد کی یہ دلیل بھی بے تکی اوربودی ہے کہ ان شرائط کے خلاف شریعت ہونے کی دلیلیں لائو۔ جوکوئی اقدام کرتاہے دلیل دینا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے،نہ کہ اس کی مخالفت کرنے والے پر دلیل دینے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
ایک اہم بحث یہ ہے کہ انتظامی اداروں کے اختیارات کی حدود کس حد تک ہیں،اور شرعی قوانین اور انتظامیہ کاتال میل کیسے ہو،لیکن یہ الگ موضوع ہے۔
۱۹۷۹ میں آپ کے علما کرام کو کام کرنے کا بھرپور موقع دیا گیا تھا۔ انہوں نے متفقہ طور پر عین شرعی حدود آرڈیننس پاس کرکے ایسا معاشرتی بگاڑ پیدا کیا کہ ۲۰۰۶ میں اسے تبدیل کرنا پارلیمانی اکثریت کیلیے ناگزیر ہو چکا تھا۔
اس تاریخی پھٹکار کے باوجود آپ لوگ پھر بھی بضد ہیں کہ معاشرہ کی اصلاح عین شرعی قوانین سے ہی ممکن ہے۔
اگر مشرف صاحب کے اقتدار کادور تھوڑا مزید طویل ہوتا تویہی پارلیمانی اکثریت قرآن کی بعض آیتوں کو نصاب سے نکال باہربھی کرتی تھی اور ظاہرسی بات ہے کہ پارلیمانی اکثریت کی شریعت کے تحت آپ اس کے پابند ہوجاتے تھے کہ مشرف کے دین الہی کی تابعداری ضروری ہے۔

احقر کی اس حوالے سے رائے یہ ہے کہ بہت سے معاشرتی و ثقافتی معاملات جن میں شادی بھی شامل ہے اس پہ اسلام نے کوئی حکم نہیں دیا اور اس وجہ سے کہ ایک وقت میں ہر علاقے میں معاشرت و ثقافت ایک نہیں ہوتے اور معاشرت ہمیشہ ارتقاء کے مراحل میں رہتی ہے چاہے اس کی سمت تنزلی کی طرف ہو یا ترقی کی طرف، اس لیے بہت سارے معاملات معاشرت پہ ہی چھوڑ دیے گئے ہیں اور اس پر کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ شادی پر کسی مجتہد کا اجتہاد تو ہو سکتا ہے، کسی خاص فقہ کا اپنا نظریہ بھی ہو سکتا ہے، کسی مفتی کا فتوی بھی ہو سکتا ہے لیکن میری ناقص رائے میں اس پہ اصل حق معاشرت کا ہی رہے گا اور ہر آنے والی معاشرت مشورے سے ایسے معاملات طے کر سکتی ہے۔ مسئلہ صرف بچے پیدا کرنا نہیں یا خاندان بسانا نہیں، ان کی تعلیم و تربیت اور ایک اچھا انسان اور خاندان معاشرے کو دینا بھی ہے۔ مسلمانوں کی تعداد محض بچے پیدا کر کی ہی نہیں بڑھائی جا سکتی بلکہ تبلیغ کا طریقہ بھی موجود ہے جو خود حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت بھی ہے۔ اور مسئلہ زیادہ یا کم بچوں کا نہ ہے بلکہ ایک اچھا مسلمان بنانے کا بھی ہے، ان کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کا بھی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ شادی کے وقت حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی عمر کیا تھی؟ اس سے اختلاف کا ہر کسی کو پورا حق حاصل ہے تاہم کسی فتوے سے اجتناب ضروری ہے کہ اللہ کریم کو اپنے اعمال کا جواب دہ میں خود ہوں۔
بادی النظر میں آپ کی بات اپیل کرتی ہے لیکن گہرائی سے غورکرنے پر بالکل بودی معلوم ہوتی ہے، ذاتی امور میں تو بہت سارے معاملات میں انسان کے اپنے فیصلے پر چھوڑے گئے ہیں، جیسے حدیث میں ہے،استفت قلبک اپنے دل سے فتوی پوچھو،حدیث میں ہے،الاثم ماحاک فی نفسک ،گناہ وہ ہے جوتمہارے دل میں کھٹکے،لیکن اجتماعی امور اورمعاملات میں یہ ذمہ داری نہیں دی جاتی ہے، دنیاوی قوانین کا آپ کا مطالعہ کتنا ہے، میں نہیں جانتا میں خود اس معاملے میں طفل مکتب ہوں، لیکن شریعت میں اس بارے میں نہایت تفصل سے احکام دیئے گئے ہیں، فقہ اسلامی کا مطالعہ کرنا اگرمشکل نہ ہو تواس کا مطالعہ کیجئےاوردیکھئے کہ شریعت میں نکاح ومعاشرتی امور ومعاملات کے بارے میں کتنی دقت نظری اورباریک بینی وگہرائی سے قوانین بنائے گئے ہیں، اگر فقہ اسلامی کا مطالعہ دشوار ہوتو حدیث کی کسی معتبر کتاب کے کتاب النکاح، کتاب الطلاق اور اس طرح کے معاشرتی امور ومعاملات کے ابواب کا مطالعہ کریں اورپھر اپنی رائے پر دوبارہ غورکریں کہ ’’بہت سارے معاملات معاشرت پر ہی چھوڑدیئے گئے ہیں‘‘۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام مکمل نظام ہے توہم اس کا اقرار کرتے ہیں کہ انسانی زندگی کا کوئی پہلو اسلامی شریعت کے دائرہ سے خارج نہیں ہے، جب قرآن ہم سے مطالبہ کرتاہے کہ ادخلوا فی السلم کافۃ تواس کا مطلب یہی ہے کہ پورے طورپر شریعت کی تابعداری میں آجائو، ایسانہیں ہے کہ شریعت میں معاشرت پر معاملات چھوڑدیئے گئے ہیں،بلکہ ہرمعاملے کے متعلق ایسی اصولی رہنمائی موجو دہے کہ اس کلیہ کا کوئی جزئیہ اس سے باہر نہیں ہوسکتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
علاوہ ازیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ عہد رسالت میں، عہد صحابہ وتابعین میں اورمابقی ادوار میں نابالغی کی شادیاں ہوتی رہیں ہیں،اگریہ شریعت میں ناجائز ہوتاتوکسی نے بھی توآواز اٹھائی ہوتی،لیکن ہمیں کسی قابل ذکر مجتہد کا نام نہیں ملتا جس نے نابالغی کی شادی کوناجائز قراردیاہو۔
اب آئے نا اصل نکتہ پر۔ دنیا کی مختلف تہذیبوں سے زمانہ قدیم میں کم عمری کی شادیاں و جنسی تعلقات کا ذکر ملتا ہے۔ یونان، روم میں باقاعدہ ’پیڈرسٹی‘ کا کلچرموجود تھا ۔ جہاں بالغ مرد کم سن لڑکوں کے ساتھ تعلقات قائم کر سکتا تھا۔ اور اسے معاشرہ میں بالکل نارمل بلکہ اچھا سمجھا جاتا تھا۔
اسی طرح قدیم اسرائیل، جاپان چین،، خطہ عرب، افریقہ کے چند قبائل اور بہت سی تہذیبیں اس کا شکار رہی ہیں۔ افغانستان اور وسطی ایشیا کی کچھ ریاستوں میں آج بھی ’بچہ بازی‘ کی وبا کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ گو کہ یہ قومیں پچھلے ہزار سال سے پکی مسلمان ہیں ۔ اس کے باوجود اس قسم کے غیراخلاقی تعلقات ان کے معاشروں سے ختم نہ ہو سکے۔
یہ سچ ہے کہ عہد رسالت ، عہد صحابہ وتابعین میں ہمیں کم سنی کی شادیوں کا ذکر ملتا ہے۔ البتہ یہ واقعات ہزارسال قدیم ہیں۔ اس وقت کا طرز معاشرت آج سے کافی مختلف تھا ۔
د ور جدید کی طبی سائنس نے تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ کم سنی کی شادیاں متاثرہ بچوں کی ذہنی وجسمانی نشونما کیلئے انتہائی سخت نقصان دہ ہیں۔ یہی نہیں بلکہ آگے چل کر اس کے مضر اثرات آنے والی نسلوں میں منتقل ہونے کا اندیشہ بھی موجود ہے۔
The Devastating Impact of Child Marriage on Girls Around the World
Child Marriage – Devastating Consequences | Unchained At Last

یہی وجہ ہے کہ حالیہ دور میں اس قدیم کلچرل پریکٹس کی روک تھام کیلئے نئے قوانین بنائے گئے ہیں اور بنائے جا رہے ہیں۔ تاکہ کم سن بچوں کو وہ قانونی تحفظ دیا جا سکے۔ جو ان کا حق ہے۔
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
حیرت ہے کہ لبرل ازم کے حامیوں سے بھی یہ لبرٹی برداشت نہیں ہو رہی ۔ وہ بھی قدامت پسند ملاؤں کی طرح اس شخصی آزادی پر قدغن لگانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ :)
یہ بات تو طے ہے اگر نکاح کے لیے اٹھارہ سال کی عمر کی حد اسلام نے مقرر کی ہوتی تو اب تک ہیومن رائٹس کی کتنی تنظیمیں سر گرمِ عمل ہو چکی ہوتیں۔ اور ان کی بات درست بھی ہوتی۔ ظاہر ہے اگر کوئی عمر کی اس حد تک پہنچنے سے پہلے شادی کا خواہشمند ہو تو شریعت کو کیا پڑی ہے کہ اس کی راہ میں خواہ مخواہ روڑے اٹکائے۔
یہ کیسا دوہرا رویہ ہے کہ آگہی کے نام پر کم عمری میں جنسی تعلیم کو تو نہایت ضروری سمجھا جائے اور یہ نصاب کا لازمی حصّہ بھی قرار پائے۔ لیکن اس کا شعور حاصل ہونے کے بعد، اس عمر میں نکاح کو اتنا ہی ناپسندیدہ گردانا جائے۔
جہاں تک چائلڈ لیبر یا کم سن بچوں کی جبری شادیوں کے معاملات ہیں تو یہ بہرحال اپنی جگہ نہایت سنگین مسائل ہیں ۔ اس سے چشم پوشی کسی طور ممکن نہیں۔ ظلم چاہے کسی بھی شکل یا لبادے میں ہو، قابلِ مذمت ہوتا ہے۔ اس کا فوری تدارک اور سدِ باب لازمی ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کچھ مذہبی گروہ، شریعت میں دی گئی رعایات کا ذاتی مفاد کے لیے نہایت غلط استعمال کرتے ہیں۔ جس سے الٹا ظلم پنپتا ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر فرد کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دے۔ تاہم قانون سازی کرتے ہوئے سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکا جا سکتا۔
 

زیک

مسافر
شریعت کے نام پر شرمناک رویوں کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ یہیں ایسا جواز بھی پیدا کیا گیا ہے جس میں چھ یا نو سال کی عمر میں شادی بھی اسلام میں جائز ہے۔

بیکار کی بحث جاری ہے۔ آپ میں سے کس کی شادی 18 سال سے کم میں ہوئی؟ کونسا محفلین ہے جو اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی اٹھارہ سال عمر سے پہلے کر چکا یا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
حیرت ہے کہ لبرل ازم کے حامیوں سے بھی یہ لبرٹی برداشت نہیں ہو رہی ۔ وہ بھی قدامت پسند ملاؤں کی طرح اس شخصی آزادی پر قدغن لگانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ :)
یہ کیسا دوہرا رویہ ہے کہ آگہی کے نام پر کم عمری میں جنسی تعلیم کو تو نہایت ضروری سمجھا جائے اور یہ نصاب کا لازمی حصّہ بھی قرار پائے۔ لیکن اس کا شعور حاصل ہونے کے بعد، اس عمر میں نکاح کو اتنا ہی ناپسندیدہ گردانا جائے۔
یہ قدغن بچوں کی ہی حفاظت کیلئے لگائی گئی ہے۔
جنسی بلوغت کی عمرپہنچنے سے قبل اس کی آگہی دینا بچوں اور معاشرے دونوں کیلئے سود مند ہے۔ بروقت آگہی دینے سے جوش جوانی کے غیرضروری جنسی تعلقات سے بچا جا سکتا ہے۔ نیز اس سے بچوں کو اپنے حق حقوق بھی معلوم ہوجاتے ہیں۔ تاکہ کوئی عمر میں بڑا ان کے ساتھ زور زبردستی یا نکاح کر کے تعلق قائم کرنے کی جسارت نہ کر سکے۔
اس آگہی مہم کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ جلد سے جلد بچوں کی شادیاں کروانے کیلئے تیاری کرائی جائے ۔ کیونکہ محض جسمانی طور پر تعلق قائم کرنے کے قابل ہو جانے سے بچے شادی کیلئے "بڑے" نہیں ہو جاتے۔ اس کیلئے ذہنی و دماغی طور پر بھی بڑا ہونا پڑتا ہے۔ جس کیلئےانہیں ابھی مزید کچھ سال درکار ہوتے ہیں ۔ ماہرین دماغ کے مطابق 17-18 سال کی عمر میں انسانی دماغ مکمل طور پر ڈویلپ ہو جاتا ہے۔ یوں اس پختہ عمر کو پہنچ کر اب یہ ذہنی بلوغت یعنی شادی کے قابل ہے :)

2019-05-02-23-30-41.jpg

آسان الفاظ میں اسے گاڑی اور ٹریفک سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ یعنی 10سے 13 سال کی عمر کا بچہ جسمانی طور پر گاڑی چلانے کے قابل تو ہوجاتا ہے البتہ بھری ٹریفک میں اس سے گاڑی چلوانے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ کیونکہ ذہنی طور پر وہ ابھی یہ ذمہ داری اٹھانے کے قابل نہیں ہوا۔
یہی حال جنسی بلوغت اور ذہنی بلوغت کا ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
شریعت کے نام پر شرمناک رویوں کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ یہیں ایسا جواز بھی پیدا کیا گیا ہے جس میں چھ یا نو سال کی عمر میں شادی بھی اسلام میں جائز ہے۔
یہ جواز شریعت نے شادی کی عمر جنسی بلوغت کی عمر رکھ کر خود فراہم کیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کم سنی کی شادی
02/05/2019 خورشید ندیم


برادرم علی محمد کو غلط فہمی ہوئی ہے۔شادی کی عمر کا تعلق شریعت سے نہیں، سماج اور عرف سے ہے۔ نظمِ اجتماعی اس باب میں قانون سازی کر سکتا ہے۔ شریعت سے اس معاملے کا تعلق بالواسطہ ہے۔
شریعت نام ہے قرآن و سنت کا۔ اس کے سوا جو کچھ ہے، وہ استنباط ہے، شرح ہے، تفہیم ہے اور بس۔ اسی کو فقہ کہتے ہے۔ فقہ یا شرح و تفہیم انسانی عمل ہے جس میں جتنا امکان صحت کا ہے، اتنا ہی امکان خطا کا بھی ہے۔ آفاقیت شریعت کا وصف ہے نہ کہ فقہ و تفہیم کا۔ قرآن مجید اور اللہ کے رسولﷺ نے شادی کی کوئی عمر مقرر نہیں کی، اس کا معیار بیان کیا ہے۔ اگر شارع نے کوئی عمر مقرر نہیں کی تو معیار کو سامنے رکھتے ہوئے، عمر کا تعین خلافِ شریعت کیسے ہو گیا؟
ہمارے ہاں فقہ اور شریعت میں فرق نہیں کیا جاتا۔ لوگ کسی قدیم کتاب سے فقہا کی آرا نقل کرتے اور اسے بطور شریعت پیش کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ استنباط کے باب میں ان آرا کی بہت اہمیت ہے اور اہلِ علم ان سے صرفِ نظر نہیں کرتے؛ تاہم ان میں غلطی کا امکان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہا ایک دوسرے سے بھی اختلاف کرتے ہیں اور اسی کے نتیجے میں ہمارے ہاں ایک سے زیادہ فقہی مسالک وجود میں آئے۔ اگر ماضی میں امام ابو حنیفہ اور قاضی ابو یوسف سے اختلاف جائز تھا تو آج کیوں نہیں؟ اختلاف سے احترام میں کوئی فرق نہیں آتا۔ ان کی علمی مساعی ہماری تاریخ کا درخشندہ باب ہے۔
قرآن و سنت ہی شریعت ہیں لیکن استنباط کے ساتھ، ایک مسئلہ ان کی تفہیم بھی ہے۔ تفہیم میں بھی اختلاف ہو جاتا ہے اور یہ فطری ہے۔ یہ اختلاف صحابہ میں بھی ہوا۔ کوئی تفسیر اٹھا کر دیکھ لیں، ایک آیت کے ذیل میں کئی آرا ملیں گی۔ بعد کے مفسر اُن میں ترجیح قائم کرتے ہیں۔ گویا دوسرے صحابہ کی تفسیری آرا سے اختلاف کرتے ہیں۔ یہ اختلاف معلوم ہے اور قابلِ قبول ہے۔ یہ اختلاف شریعت سے اختلاف نہیں، انسانی تفہیم سے ہے۔
شادی کی عمر کا، جب شارع نے تعین نہیں کیا تو اس ضمن میں کہی گئی ہر بات تفہیم کے دائرے میں آئے گی۔ اہلِ علم نے اپنے طور پر اس باب میں شریعت کا مدعا سمجھا اور اسے بیان کر دیا۔ ہم ان کے دلائل کو دیکھیں گے۔ ان سے اتفاق ہو سکتا ہے اور اختلاف بھی۔ کوئی صلاحیت رکھتا ہے تو اس مسئلے سمیت کسی بھی معاملے میں، کوئی نئی بات بھی کہہ سکتا ہے۔ اس کے رد و قبول کا فیصلہ بھی ظاہر ہے کہ دلیل کی بنیاد پر ہو گا۔
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح ایک سماجی معاہدہ ہے۔ ایک مرد اور عورت جب آزادانہ طور پر ایک ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان کے درمیان معاہدہ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ہمارے ہاں نکاح کے لیے عقد کا لفظ بھی مستعمل ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں مرد اور عورت کی جو بنیادی ذمہ داریاں وجود میں آتی ہیں، قرآن مجید نے انہیں بیان کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر گھر کی معاشی ذمہ داری مرد پر ہے۔
قرآن مجید نے جہاں جہاں اس رشتے کا ذکر کیا ہے، اس سے واضح ہے کہ یہ گڈی گڈے کا کھیل نہیں۔ وہ توجہ دلاتا ہے کہ نکاح سے ایک ایسا ادارہ وجود میں آ رہا ہے جس سے انسانیت کا مستقبل وابستہ ہے۔ کچھ ماہ کے بعد، یہ مستقبل ایک بچے کی صورت میں خاتون کے آغوش میں ہو گا۔ اب وہ محض مرد و زن نہیں، باپ اور ماں ہیں۔ کیا عقل اسے تسلیم کرتی کہ عالم کا پروردگار یہ مستقبل ایسے ہاتھوں میں دے رہا ہے جو حیاتیاتی اعتبار سے تو ماں باپ بن سکتے ہیں لیکن اس بچے کو ایک اچھا انسان بنانے کی دیگر لوازم پورے نہیں کرتے؟
دیگر لوازم کیا ہیں؟ اچھی تربیت۔ اچھی تعلیم۔ اچھا ماحول۔ کیا چودہ اور پندرہ سال کے والدین یہ ذمہ داری ادا کر سکتے ہیں؟ شریعت نے اگر بلوغت کو نکاح کے لیے لازم قرار دیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس سے صرف جسمانی بلوغت مراد لی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے کم سنی کی شادی کو جائز کہا ہے، ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اسے پسندیدہ نہیں سمجھتی۔
شریعت نے جن امور میں صرف اصول بیان کیے ہیں، ان میں قانون سازی یا اطلاق کو معاشرتی حالات یا عرف پر چھوڑ دیا ہے۔ گویا یہ نظمِ اجتماعی یا حکومت کا کام ہے کہ حالات کے مطابق قانون بنائے۔ ایک حکومت ایک قانون بنا سکتی ہے اور آنے والی حکومت اس کو بدل سکتی ہے، اگر اس کے خیال میں سماجی حالات بدل گئے ہیں۔ خلافتِ راشدہ سے اس کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ کیسے ایک خلیفہ راشد کے فیصلے کو بعد میں آنے والے خلیفہ راشد نے بدل دیا۔
شادی کی عمر بھی ایسا ہی ایک مسئلہ ہے۔ ہماری آج کی حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ اس معاملے میں قانون سازی سماجی حالات کی ضرورت ہے تو وہ قانون بنا سکتی ہے اور پہلے سے موجود قانون کو تبدیل بھی کر سکتی ہے۔ شریعت کا کوئی حکم اس میں مانع نہیں۔ میرے نزدیک شریعت کا منشا یہ ہے کہ کسی کو ایک ذمہ داری اسے وقت سونپی جائے جو وہ اس کا اہل ہو۔ قرآن مجید کا کہنا ہے: ‘امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو‘۔
انسانیت کا مستقبل انہیں نہیں سونپا جانا چاہیے جو اس کے اہل نہ ہوں۔ آدمی اور جانور میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ جانور بچہ پیدا کر کے فطرت کے حوالے کر دیتا ہے یا فطرت خود اسے اپنے آغوش میں لے لیتی ہے۔ آدمی اس کی ذمہ داری اٹھاتا ہے کہ وہ پیدا ہی نہیں کرے گا، اسے انسان بھی بنائے گا۔ وہ اس کی مادی بقا ہی کا نہیں، اخلاقی سلامتی کا بھی ضامن بنتا ہے۔
اصولی بحث سے ایک اور سوال بھی جڑا ہوا ہے۔ ایک معاشرے میں کوئی قانون کب نتیجہ خیز ہوتا ہے؟ تجربہ یہ ہے کہ اگر سماج کسی قانون کو شعوری طور پر قبول نہ کرتا ہو تو وہ نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔ اس لیے پہلے مرحلے میں لازم ہوتا ہے کہ اس کی ذہنی تربیت کی جائے۔ اس میں شعوری سطح پر آگہی پیدا کی جائے۔ معاشرتی حقائق کے ساتھ اس کی مطابقت پیدا کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس باب میں مفتی محمد شفیع کی رائے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ موقف اپنایا ہے کہ قانون سازی سے پہلے، معاشرے کو کم سنی کی شادی کے مفاسد سے آگاہ کیا جائے۔
لوگوں کو متنبہ کیا جائے کہ اس سے کیا کیا سماجی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ گویا جب معاشرہ شعوری طور پر اس بات کو سمجھنے کے قابل ہو تو پھر قانون بھی بنایا جا سکتا ہے؛ تاہم یہ سوال کہ معاشرہ اس کے لیے شعوری طور پر تیار ہے یا نہیں، ایک سماجی مسئلہ ہے، شرعی نہیں۔
سماجی مسائل میں نت نئے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ سماج ارتقا پذیر ہے۔ ذرائع پیداوار کی تبدیلی سے، سماج کی ساخت بدل جاتی ہے۔ نئے حالات نئے قوانین کا تقاضا کرتے ہیں۔ اسلام کی آفاقیت کی یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ اس نے ان امور میں انسان کو کسی خاص معاشرتی بندوبست کا پابند نہیں کیا جو بدل جانے والے ہیں۔ اس باب میں نظمِ اجتماعی کو غیر معمولی اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ تاریخ میں سیدنا عمر فاروق ؓ نے اسلام کی اس تصور کو سب سے بہتر طور پر سمجھا۔
معاصر مسلمان معاشروں میں شادی کی عمر، دوسری شادی کے لیے حکومت کی اجازت سمیت نکاح و طلاق کے باب میں بہت قانون سازی ہوئی ہے۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح دورِ حاضر کے فقہا کی آرا کو بھی جاننا چاہیے، اس احساس کے ساتھ کہ شریعت غیر متبدل ہے لیکن اس کی تفہیم انسانی کاوش ہے جو تنقید سے ماورا نہیں۔
برادرم علی محمد اور پارلیمنٹ میں تشریف فرما دینی جماعتوں کے راہنماؤں سے درخواست ہے کہ ریاست کے دینی تشخص کی حفاظت سے مراد قدیم آرا پر مورچہ لگانا نہیں، دین کو اصل ماخذ سے سمجھنا اور اسے روحِ عصر سے ہم آہنگ بنانا ہے۔ شادی کے لیے عمر کا تعین، شرعی نہیں، ایک سماجی مسئلہ ہے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا
 

La Alma

لائبریرین
یہ قدغن بچوں کی ہی حفاظت کیلئے لگائی گئی ہے۔
جنسی بلوغت کی عمرپہنچنے سے قبل اس کی آگہی دینا بچوں اور معاشرے دونوں کیلئے سود مند ہے۔ بروقت آگہی دینے سے جوش جوانی کے غیرضروری جنسی تعلقات سے بچا جا سکتا ہے۔ نیز اس سے بچوں کو اپنے حق حقوق بھی معلوم ہوجاتے ہیں۔ تاکہ کوئی عمر میں بڑا ان کے ساتھ زور زبردستی یا نکاح کر کے تعلق قائم کرنے کی جسارت نہ کر سکے۔
اس آگہی مہم کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ جلد سے جلد بچوں کی شادیاں کروانے کیلئے تیاری کرائی جائے ۔ کیونکہ محض جسمانی طور پر تعلق قائم کرنے کے قابل ہو جانے سے بچے شادی کیلئے "بڑے" نہیں ہو جاتے۔ اس کیلئے ذہنی و دماغی طور پر بھی بڑا ہونا پڑتا ہے۔ جس کیلئےانہیں ابھی مزید کچھ سال درکار ہوتے ہیں ۔ ماہرین دماغ کے مطابق 17-18 سال کی عمر میں انسانی دماغ مکمل طور پر ڈویلپ ہو جاتا ہے۔ یوں اس پختہ عمر کو پہنچ کر اب یہ ذہنی بلوغت یعنی شادی کے قابل ہے :)

2019-05-02-23-30-41.jpg

آسان الفاظ میں اسے گاڑی اور ٹریفک سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ یعنی 10سے 13 سال کی عمر کا بچہ جسمانی طور پر گاڑی چلانے کے قابل تو ہوجاتا ہے البتہ بھری ٹریفک میں اس سے گاڑی چلوانے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ کیونکہ ذہنی طور پر وہ ابھی یہ ذمہ داری اٹھانے کے قابل نہیں ہوا۔
یہی حال جنسی بلوغت اور ذہنی بلوغت کا ہے۔
بلوغت سے قبل جنسی تعلیم بعض بچوں کے نزدیک کافی ٹرامیٹک ہوتی ہے۔ بچوں کی نفسیات پر اس کے نہایت گہرے اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ اتنی ہی ناپسندیدہ ہے جتنی کم عمری میں نکاح۔ بچے اپنی حفاظت کو کیسے یقینی بنائیں اس حوالے سے ان کی تعلیم و تربیت کی اسٹریٹجی مختلف ہونی چاہیے۔
 

سید عمران

محفلین
اسرائیل میں ہم جنس پرستی عام ہے۔بض ہم جنس پرست جوڑوں کو اڈاپشن کی سہولت بھی میسر ہے۔ فحاشی بھی سر عام دیکھنے کو ملتی ہے۔
ان تمام بد اخلاقیوں ،بے حیائیوں کے باوجود یہ قوم پھل پھول رہی ہے اور ساتھ ساتھ پوری دنیا میں خطرناک سازشیں بھی کر رہی ہے۔
یعنی سیدھا سیدھا یہ کہیں کہ بدی پھل پھول رہی ہے۔۔۔
اس میں قابلِ فخر بات کیا ہے؟؟؟
سوائے بدی کے پجاریوں کی خوشی کے جو بدی کو پھلتا پھولتا دیکھ کر اسے قابل فخر کام جان کر فخر سے سب کو بتا رہے ہیں!!!
 

dxbgraphics

محفلین
مسئلہ اردو یا انگریزی والے حصے کا ہرگز نہ ہے۔ اگر بالفرض یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اردو والا حصہ کسی کی شرارت ہے تو اس کے علاوہ بھی قائد کے کئی ایسے بیانات آن ریکارڈ ہیں۔ لیکن اگر کوئی بات میرے نظریات کی کنفرمیشن نہیں کرتی یا میں کسی بھی نقطہ نظر سے متفق نہ ہوں تو میں اپنے نظریات کو ان سے برتر سمجھوں گا اور ان پہ تنقیدی نگاہ حتی الامکان ڈالنے سے کتراؤں گا چاہے میرے اپنے نظریات مٹی کی ریت پہ ہی کیوں نہ کھڑے ہوں۔ یہی مجھ سمیت ہر انسان کی کمزوری ہے کہ وہ بائیسڈ نظریات پہ چلتا ہے چاہے وہ دائیں طرف کے ہوں یا بائیں طرف کے۔
عارف سے ملتی جلتی تحریریں ہیں آپ کی۔۔
 

dxbgraphics

محفلین
قادیانی اس کو اچھا سمجھتے ہیں؟؟؟
سوائے قادیانیوں کے ہر مذہب میں اس کو برا سمجھا جاتا ہے لیکن آج تک قادیانی مذہب میں جنس پرستی کے خلاف کوئی تحریر بیان دیکھنے کو نہیں ملا۔ عارف کی ہم جنس پرستی کی حمایت بھی اس تناظر میں اہمیت رکھتی ہے
 

جاسم محمد

محفلین
سوائے قادیانیوں کے ہر مذہب میں اس کو برا سمجھا جاتا ہے لیکن آج تک قادیانی مذہب میں جنس پرستی کے خلاف کوئی تحریر بیان دیکھنے کو نہیں ملا۔
مضحکہ خیز۔ قادیانیوں کی آفیشل ویب سائٹ سے:
Homosexuality is a delicate and controversial subject prevalent in today’s society. You may be wondering about the Islamic position on homosexuality in the face of radical gay activism versus fundamentalist Christian teachings. Islam considers same-sex marriages to be invalid, thus all homosexual activity is extra-marital. As you have already read in Chapter 3, Islam forbids all sexual activity outside of marriage. Therefore, homosexual acts are considered to be sin. More specifically, Islam forbids “lewdness” between men and men, women and women, and men and women who are not married to each other. (See Holy Qur’an, 4:16-17). In addition, numerous hadith of the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be on him) condemn sodomy as hateful in the sight of God. This position against homosexuality supports the Islamic teaching of chastity and of the sanctity of sex within marriage. In general, it is consistent with a Muslim’s goal of always seeking his or herself and spiritual development and leaving aside those things which attract the lower, baser side of human
beings’ nature
Chapter 6: Islamic Viewpoint on Contemporary Issues | Islam Ahmadiyya
 

جاسم محمد

محفلین
بلوغت سے قبل جنسی تعلیم بعض بچوں کے نزدیک کافی ٹرامیٹک ہوتی ہے۔
مغرب میں یہ تعلیم ۷ ویں جماعت یعنی ۱۱ - ۱۲ سال سے شروع ہوتی ہے اور ۱۰ ویں جماعت تک اس کا اختتام ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے بچوں میں بلوغت کے آثار نمودار ہوتے ہیں ویسے ویسے نصاب سیٹ کر دیا جاتا ہے۔ اس لئے یہاں ٹراما والی کوئی بات نہیں۔ اپنے ہی جسم سے کیا ڈرنا!
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top