محترم چوہدری صاحب!
میں آپ کی بات اور اس لڑی سے متعلق موضوع کے سلسلے میں مختصرا چند ایک نکات تفصیل میں جائے بغیر ذکر کروں گا۔
: وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا - سورة الطلاق اية 4
اس آیت کریمہ میں ان عورتوں کا جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں (بوڑھی ) اور ان عورتوں کا جنہیں ابھی تک حیض نہیں آیا (کم عمری کی وجہ سے حیض نا آنا یا کسی بیماری کی وجہ سے بلوغت کو تو پہنچ چکی ہیں لیکن حیض نہیں آیا) ان کی مدت عدت تین ماہ ہے، لم یحضن کا مطلب ہے کہ ابھی تک انھیں ماہواری آنی شروع نہیں ہوئی ۔
قرآن دنیا دستور کی سب سے بہترین کتاب ہے ۔ کسی بھی دستور یا آئین کی بنیادی خوبی اس کی زبان کا جامع و مانع ہونا ہوتا ہے ۔ جامع کا مطلب کہ احکامات میں شامل ہونے والی تمام تر صورتیں حکم کے ذکر کرنے میں جمع ہو جائیں اور مانع کا مطلب یہ ہے کہ جو اس حکم سے خارج ہیں یہ تعریف یا حکم انھیں خارج کر دے ۔
لم یحضن کا یہ مطلب کہ ایسی عورتیں جنہیں ابھی کم عمر ہونے کی وجہ سے ماہواری نہیں آئی اور وہ عورتیں جو ماہواری کی عمر تک پہنچ گئی ہیں لیکن انھیں کسی بیماری کی وجہ سے ابھی تک حیض نہیں آ سکا اس آیت سے دونوں مراد ہیں اس پر تمام مفسرین کا اجماع ہے چاہے وہ امام طبری ہوں ، ابن کثیر ، صاحب جلالین ، ابن تیمیہ ، سید قطب وغیرہ وغیرہ ۔
البتہ کچھ عہد جدید کے مفسرین لم یحضن کا ترجمہ محض یہ کرتے ہیں کہ وہ عورتیں جنہیں کسی بیماری کی وجہ سے ابھی تک حیض نہیں آیا۔ اس عام حکم کو خاص کرنے کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔ جبکہ مفسرین کے قول کے احادیث میں دلائل ملتے ہیں ۔
دوسری بات نابالغ لڑکیوں کی شادی کیا شریعت اسلامی میں عام جائز ہے یا اس سلسلے میں شرائط ہیں ؟
تو فقہاء نے اس سلسلے میں جو احکامات و شرائط ذکر کی ہیں ان کا میں خلاصہ تفصیل میں جائے بغیر ذکر کرتا ہوں ، یاد رہے یہ احکامات احادیث صحیحہ سے مستنبط ہیں :
- نابالغ بیٹے یا بیٹی کی شادی صرف اور صرف والد ہی کروا سکتا ہے ، اس کے علاوہ کسی بھی ولی کو یہ حق حاصل نہیں ۔ والد کے علاوہ بھی دوسرے افراد والد کی عدم موجودگی میں جیسا کہ دادا ،بھائی چچا وغیرہ ولی بن سکتے ہیں لیکن نابالغ کی شادی کے سلسلے میں یہ ولی نہیں بن سکتے بلکہ یہ حق صرف والد کے پاس ہے ۔
- والد بھی اس صورت میں ہی کرے گا جب کوئی مصلحت راجحہ ہوجو تاخیر سے ختم ہو سکتی ہو ( جیسا کہ والد ضعیف العمر ہے اور اسے خدشہ ہے کہ اس کی جلد موت کے بعد ورثاء اس سلسلے میں حق تلفی سے کام لیں گے ۔
- نابالغ کی شادی کی صورت میں کفو (ہم پلہ )ہونا بھی ضروری ہے ۔ کفو کی مزید تفصیل بھی ہے لیکن اسے مختصرا ہم پلہ ہی سمجھ لیجئے ۔
- والد کا اس میں کوئی ذاتی مفاد پوشیدہ نہ ہو۔
- نکاح کے بعد اس وقت تک رخصتی نہ کی جائے جب تک لڑکی اس قابل نہ ہو جائے ۔
فقہاء اسلام کے اس مسئلہ میں کلام سے واضح ہوتا ہے کہ کم عمر لڑکی کی شادی ان تمام تر شرائط کے پورا ہونے پر کی جائے گی اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو کم عمر لڑکی کی شادی نہیں کی جا سکتی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے اور اس کی رضامندی حاصل کر لی جائے ۔
اچھا ہم کچھ دیر کیلئے دیکھتے ہیں کہ ہمارا درمیان نکتہ اختلاف کیا ہے ؟
آپ کہتے ہیں کہ نابالغ کی شادی کسی بھی صورت میں جائز نہیں ۔
ہم اسے فہم کا اختلاف کہتے ہوئے نظر انداز کر دیتے ہیں اور تسلیم کر لیتے ہیں کہ نابالغ کی شادی کسی صورت جائز نہیں ۔
اب ہم اس بات پر تو متفق ہیں کہ بالغ کی شادی بہت زیادہ تاکید کے ساتھ شریعت اسلامی میں ذکر ہے بلکہ کچھ صورتوں میں یہ واجب تک کے حکم میں ہو جاتی ہے جب کسی شخص کے گناہ میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو۔ (اس سلسلے میں بہت سی تاکیدنبی کریم ﷺ سے ذکر ہے جو احادیث کتب میں دیکھی جاسکتی ہیں جیسا کہ آپ نے حکمافرمایا کہ نوجوانوں کی جماعت شادی کرو اور جو شادی کی استطاعت نہیں رکھتا اسے چاہئے کہ روزے رکھے )
جیسا کہ بیہقی نے شعب الایمان میں انس بن مالک رضی اللہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ذکر کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان والدین کیلئے وعید بیان کی کہ جن کی اولاد بالغ ہو جائے اور وہ اس کی شادی نہ کریں اور ان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس کا گناہ والدین کو بھی ہو گا۔
ہم اس بات پر متفق ہیں کہ بالغ ہونے کے بعد شریعت کی رو سے شادی میں تاخیر کرنا مناسب نہیں ، بالخصوص جب ان کے گناہ میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو۔اب شرعا ، عقلا، اور اردگرد معاشرے کو دیکھ کر بتائیں کہ کیا بچے 18 سال کی عمر میں بالغ ہو رہے ہیں ؟
شریعت میں تو بلوغت کی چار صورتیں ہیں ان میں سے کوئی ایک پوری ہو جائے تو بچہ بالغ ہو جاتا ہے ، احتلام ، شرمگاہ کے گرد بالوں کا آنا، پندرہ سال کی عمر تک پہنچنا ، اور خواتین میں ماہواری کا آنا۔
ایک شخص 17 سال کا ہے وہ پاکدامن رہنے کیلئے نکاح کرنا چاہتا ہے لیکن قانون اس کے آڑے آ رہا ہےتو کیا یہ قانون اسلامی ہے یا خلاف شریعت؟
اور اس وجہ سے وہ گناہ میں مبتلا ہو رہا ہے تو اس کا گناہ کس کے سر ہے …؟
اسلام میں نکاح کے بہت سے مقاصد میں سے ایک پاکدامنی کا حصول بھی ہے ۔
اچھا اب خرابی کی جتنی بھی صورتیں بیان کی جاتی ہیں ان کا بہترین حل تویہ ہے کہ ان کے تدارک کیلئے شریعت کی روشنی میں قانون سازی کی جائے ۔
جیسا کہ ابو داؤد میں ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک لڑکی نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اس کے باپ نے اس کی شادی اس کی رضامندی کے بغیر کر دی اور اسے وہ شادی ناپسند تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا۔
لیکن بجائےلڑکی کی رضامندی عملی طور پر یقینی بنانے اور اس سلسلے میں اقدامات اٹھانے کے غیروں کے دباؤ تلے ایسی قانون سازی کئے جاتے ہیں جو صریحا شریعت اسلامی کے متصادم ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
والسلام