کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل سینیٹ سے منظور، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کا احتجاج

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

جاسم محمد

محفلین
حضورِ والا ہر برائی کا آغاز کسی نہ کسی نقطے سے ہوتا ہے اور رومانس پہلی سیڑھی ہے جنسی روابط کی۔
حقیقی زندگی میں ایسا رومانس آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔
اچھا اچھا یعنی اب رومانس کرنا بھی غلط کام ہو گیا۔ کیا اسلام میں محبت کی شادیاں ناجائز ہیں؟
رومانس ہوگا تو پسند کی شادیاں ہو گی۔ یا اس کے بغیر بھی کوئی راہ نکالی جا سکتی ہے؟
 

جان

محفلین
اچھا اچھا یعنی اب رومانس کرنا بھی غلط کام ہو گیا۔ کیا اسلام میں محبت کی شادیاں ناجائز ہیں؟
رومانس ہوگا تو پسند کی شادیاں ہو گی۔ یا اس کے بغیر بھی کوئی راہ نکالی جا سکتی ہے؟
محبت کی شادی رومانس کے بغیر بھی ہو سکتی ہے قبلہ محترم، اس کے لیے اماں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہہ کی حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ابتداء سے اختتام تک رفاقت کے دورانیے کا مطالعہ کریں۔ محبت محض جذبوں کا کھیل نہیں۔ جذبات کی بنا پر کی گئی شادیاں اکثر و بیشتر ناکام ہوتی ہیں کیونکہ شادی کے بعد جب حقائق کا سامنا ہوتا ہے تو بندے کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
محبت کی شادی رومانس کے بغیر بھی ہو سکتی ہے
یقینا ہو سکتی ہیں۔ البتہ صرف اس بنیاد پر رومانس کو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔
رومانس انسانی فطرت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اسے غیرفطری انداز میں دبانے سے نئے معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں۔
 

جان

محفلین
رومانس انسانی فطرت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اسے غیرفطری انداز میں دبانے سے نئے معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں۔
اس اٹوٹ انگ کو شادی کے بعد اپنی بیوی سے کر لینے میں کوئی برائی پھیلنے کا خدشہ نہیں بلکہ میاں بیوی میں محبت بڑھتی ہے لہذا اس کو دبانے کا تو کوئی سوال ہی نہیں، سوال شادی سے پہلے یا بعد کا ہے۔ پہلے کرنے سے یقیناً جنسی روابط کی طرف راغب ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور حقیقی دنیا میں ایسا ہوتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس اٹوٹ انگ کو شادی کے بعد اپنی بیوی سے کر لینے میں کوئی برائی پھیلنے کا خدشہ نہیں بلکہ میاں بیوی میں محبت بڑھتی ہے لہذا اس کو دبانے کا تو کوئی سوال ہی نہیں، سوال شادی سے پہلے یا بعد کا ہے۔
اس بابت تو شادی کا ’طویل تجربہ‘ رکھنے والے محمد وارث بھائی ہی بہتر سکیں گے کہ آیا شادی کے بعد رومانس ہوتا ہے یا محض سمجھوتا :)
 
شادی یا نکاح کے لئے عمر؟ یعنی جماعت اسلامی اور جے یو آئی کا کافر ہونے کا اقرار :)

1۔ بالغ ہونا شرط ہے -

النساء آیت نمبر6 --- وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُواْ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُواْ عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللّهِ حَسِيبًا
اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ بالغ ہو کر نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر ان میں ہوشیاری دیکھو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو اور انصاف کی حد سے تجاوز کر کے یتیموں کا مال نہ کھا جاؤ اور ان کے بڑے ہونے کے ڈر سے ان کا مال جلدی نہ کھاؤ اور جسے ضرورت نہ ہو تو وہ یتیم کے مال سے بچے او رجو حاجت مند ہو تو مناسب مقدار کھالے پھر جب ان کے مال ان کے حوالے کر و تو اس پر گواہ بنا لو اور حساب لینے کے لیے الله کافی ہے

بلوغت کس عمر میں حاصل ہوتی ہے؟
جواب: جس عمر میں ایک شخص (مرد یا عورت) اپنا مال سنبھالنے کے مناسب طریقے سے لائق ہوجاتا ہے۔
6:152 وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُواْ الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ لاَ نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُواْ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَبِعَهْدِ اللّهِ أَوْفُواْ ذَلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اور سوائے کسی بہتر طریقہ کے یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت (جوانی) کو پہنچے اور ناپ اور تول کو انصاف سے پورا کرو ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور جب بات کہو انصاف سے کہو اگرچہ رشتہ داری ہو اور الله کا عہد پورا کرو تمہیں یہ حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو

اللہ تعالی نے قرآں حکیم میں شادی کے لئے بلوغت کی شرط رکھی ہے اور بلوغت کی نشان دہی، اس مثال سے کی ہے کہ جب ایک شخص اپنا مال سنبھالنے کے لائق ہو جائے تو اس کو ذہنی اور جسمانی بلوغت کی نشانی سمجھا جائے گا۔ لہذا وہ لوگ جو اپنی ہوس میں قرآن کے اس واضح حکم کی تکفیر کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی بچیوں پر نظر رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ بلوغت کی کوئی عمر ہی نہیں ہے۔

آئیے بلوغت کے بارے میں مزید قرآنی احکامات دیکھتے ہیں۔

جب یوسف علیہ السلام جوان ہوئے تو نبوت، حکومت اور علم عطا ہوئے۔ کیا یوسف علیہ السلام کو نبوت، حکومت اور علم بچپن میں عطا ہوئے تھے یا جوانی میں ؟
12:22 وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
اور جب وہ (یوسف علیہ السلام) اپنی بلوغت ( کمالِ شباب) کو پہنچ گیا (تو) ہم نے اسے حکومِت اور علمِ عطا فرمایا، اور اسی طرح ہم نیکوکاروں کو صلہ بخشا کرتے ہیں

17:34 وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُواْ بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْؤُولاً
اور تم یتیم کے مال کے (بھی) قریب تک نہ جانا مگر ایسے طریقہ سے جو (یتیم کے لئے) بہتر ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے, اور وعدہ پورا کیا کرو، بیشک وعدہ کی ضرور پوچھ گچھ ہوگی

جو عمر مال سنبھالنے کے لئے جوانی یعنی بلوغت کہلائے گی وہی عمر شادی کے لئے بلوغت کہلائے گی ۔

عموماً لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کتنے سال کی عمر ہے جس کو ہم جوانی یا بلوغت تصور کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کے بیان کی حکمت یہ ہے کہ کچھ لوگ، جلد ذہنی اور جسمانی طور سے اتنے جوان یا بالغ ہو جاتے ہیں کہ اپنا مال سنبھال سکیں ور کچھ لوگ تھوڑے سست ہوتے ہیں۔

اب سوال ہے میرا اسلامی نظریاتی کونسل کے اُلوماء سے کہ کیا وہ مجھے اجازت دیں گے کہ میں کوئی کاروباری معاہدہ ان کے 8، 10 ، 12 ، 14 ، 16 ، 18 یا 20 سال کے بچوں میں سے کسی سے کروں ؟ ان الوما کے نزدیک کاروباری معاہدے کے لئے کون سی عمر قابل قبول ہوگی؟ کہ یہ الوما سمجھیں کہ میں کسی بچے سے معاہدہ نہیں کررہا؟ شادی بھی دو افراد کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔ قران کے مطابق وہ افراد جو بالغ ہیں ان سے ہی معاہدہ اور شادی ہو سکتی ہے۔ لۃذا یہ اعتراض قاب قبول نہیں کہ اسلام نے ادی کی کوئی عمر نہیں رکھی ہے۔ قرآن نے بلوغت (جوانی تک پہنچنے) کی عمر صاف صاف واضح کی ہے، جو مانے تو مومن ، جو نا مانے تو قرآن کی تکفیر :)
 

جاسم محمد

محفلین
جو عمر مال سنبھالنے کے لئے جوانی یعنی بلوغت کہلائے گی وہی عمر شادی کے لئے بلوغت کہلائے گی ۔
اب سوال ہے میرا اسلامی نظریاتی کونسل کے اُلوماء سے کہ کیا وہ مجھے اجازت دیں گے کہ میں کوئی کاروباری معاہدہ ان کے 8، 10 ، 12 ، 14 ، 16 ، 18 یا 20 سال کے بچوں میں سے کسی سے کروں ؟ ان الوما کے نزدیک کاروباری معاہدے کے لئے کون سی عمر قابل قبول ہوگی؟ کہ یہ الوما سمجھیں کہ میں کسی بچے سے معاہدہ نہیں کررہا؟ شادی بھی دو افراد کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔ قران کے مطابق وہ افراد جو بالغ ہیں ان سے ہی معاہدہ اور شادی ہو سکتی ہے۔
زبردست۔ دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ اب مزید بحث کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اس قرآنی تشریح کے تحت شادی و نکاح کیلئے خالی جنسی بلوغت کافی نہیں۔ بلکہ بالغ کا اس پختہ عمر تک پہنچنا بھی لازمی ہے جب دو فریقین کے مابین معاہدے قانونی تصور کیئے جاتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیاکم سن بچوں کی شادیاں خلاف اسلام ہیں ؟
06/05/2019 خواجہ محمد کلیم


’’تم ہندو ہو ، تمہیں یہ بل پیش ہی نہیں کرنا چاہئے تھا‘‘۔ یہ مشورہ نہیں پاکستان میں بسنے والے غیر مسلم ارکان پارلیمنٹ اور دستور پاکستان کے منہ پر زور کا طمانچہ ہے ۔ ہندوبرادری کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ شکوہ کیا کہ کم سن بچوں کی شادیوں پر پابندی کابل پیش کرنے پر اس کی مخالفت کوئی انہونی بات نہیں لیکن جب یہ الفاظ ان ہی کی سیاسی جماعت کے وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے انہیں کہے تو انہیں افسوس ہوا ۔

پارلیمنٹ کے ایوان بالا اور ایوان زیریں میں مختلف سیاسی ،سماجی ، دفاعی اور مالیاتی امورپیش ہوتے رہتے ہیں اور ان مجوزہ قانونی مسودوں کی تائیداور مخالفت بھی کوئی انہونی بات نہیں ۔ سیاسی نظم کے یہ تحت قائم کئے گئے یہ ایوان ہوتے ہی اس لئے ہیں کہ عوام کے منتخب نمائندے باہمی مشاورت سے سماج اور ریاست کی بہتری کے لئے قوانین مرتب کریں تاکہ معاشرے میں امن وسکون اور استحکام آئے ۔ لیکن کسی غیر مسلم رکن قومی اسمبلی سے یہ کہنا کہ کم سن بچوں کی شادیاں مسلمانوں کا معاملہ ہے اور کوئی غیر مسلم اس پر بات نہیں کرسکتا یہ دستور پاکستان کی توہین ہے ۔

شادیاں اسلام سے پہلے بھی ہوتی رہی ہیں ۔ شادی صرف اسلام ہی نہیں کسی بھی سماج کا ایک مروج معمول ہے ۔مغربی سماج کی بات ہم رہنے دیتے ہیں کہ وہ تو اس حد سے بہت آگے جاچکے۔ نسل انسانی کی بقا اورخاندان کی بنیاد رکھنے کے لئے شادی ایک سماجی معاہدہ ہے۔ ہر معاشرے میں شادی کے کچھ رسوم و رواج موجود ہیں جو ہر ملک،مذہب اور علاقے میں مختلف ہوسکتے ہیں۔

یہ کہنا کہ پاکستان میں کم سنی کی شادیوں پر کوئی غیر مسلم بات نہیں کرسکتا ،بالواسطہ طور پر اس بات کا اعتراف ہے کہ یہ قبیح فعل صرف مسلمانوں میں ہی پایا جاتا ہے ۔الفاظ کچھ سخت ہوں تو معاف کیجئے گا لیکن ایک ایسے بچے کو جسے شادی کا معانی و مفہوم تک نہیں معلوم ، میاں اور بیوی کے رشتے کی نزاکت ، اہمیت اور اس کے تقاضوں سے وہ نابلد ہے تو اس کی شادی کو رضامندی سے ہونے والا عمل کیسے تصور کیا جاسکتا ہے ۔

عام طور پر یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ سن بلوغت کا تعین ایک مشکل امر ہے اور ہر خطے میں اس کا معیار مختلف ہوسکتا ہے ۔ یہ کہ اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے (پاکستان میں بلوغت کی عمر اٹھارہ برس طے ہے ) نکاح تو ہو سکتا ہے لیکن رخصتی نہیں ۔ یہ سب دلائل اسلام کے نام پر دیئے جاتے ہیں لیکن شادی کی’’ استطاعت‘‘یا ’’طاقت ‘‘رکھنے کا جو اصول اسلام نے بتایا ہے اس کی بات ہی کوئی نہیں کرتا۔

ملکی قوانین کا احترام اپنی جگہ لیکن ایک لمحے کے لئے ذرا سوچئے کہ اٹھارہ برس کی عمر تک ایک لڑکا یا لڑکی سکول کی تعلیم یعنی ایف اے مکمل کرپاتے ہیں ۔پاکستان میں ہائیر سکینڈری سکول سے نکلنے والے کتنے بچے بچیاں ہیں جو شادی جیسے اہم ترین رشتے کی اہمیت کو جانتے اور سمجھتے ہیں ؟۔اٹھارہ برس کے کتنے لڑکے اور لڑکیا ں ہیں جو میاں بیوی کے حقوق فرائض س کما حقہ آگاہ ہیں ؟اس عمر کے کتنے لڑکے لڑکیا ں ہیں جو ماں باپ کے حقوق و فرائض کا ادراک رکھتے ہیں اور ماں یا باپ کا رشتہ نبھانے کی صحت ، معاشی استطاعت یا ذہنی صلاحیت رکھتے ہیں ؟ کتنے بچوں کے والدین ہیں جنہوں نے اس عمر تک پہنچنے والی اولادکو اس رشتے سے متعلق بتایا بھی ہوتا ہے کہ یہ کیا بلاہے ۔کیا یہ ریاست کا کام ہے؟اگر ہاں تو اس سے متعلق مواد نصابی کتب میں شامل کرنے پر اسے بے حیائی سے تعبیر کیوں کیا جاتا ہے ؟۔کیا کم سنی کی شادیاں صرف مسلمانوں میں ہوتی ہیں؟۔

در اصل شادی مذہبی معاملہ ہر گز نہیں ، مختلف مذاہب میں اس کی رسوم ورواج اور میاں بیوی کی ذمہ داریوں کا تعین الگ سے ہوسکتا ہے لیکن شادی خالصتاََ ایک سماجی معاملہ ہے اور اس کے متعلق قوانین بھی سماجی تقاضو ں کے مطابق ہی بنائے جانے چاہئیں۔ کہا جاتا ہے کہ کم سنی کی شادیوں پر پابندی خلاف اسلام ہے تو سوال یہ ہے کہ اسلام نے کہاں یہ حکم دیا ہے کہ دس، پندرہ یا بیس برس کے لڑکے یا لڑکی کی شادی لازم ہے ۔ ایسی صورت میں ان خواتین اور مردوں کے لئے کیا احکامات ہیں جن کی شادیاں اس عمر میں نہیں ہوپاتیں ؟۔کیا ان کے لئے کوئی سزا متعین کی جانی چاہیے ؟خاص طور پر ان خواتین کا معاملہ کیا ہوگا جو تعلیم یافتہ یا باشعور ہونے کے باوجود غربت کے جرم یا خوبصورتی کے معیارپر پورا نہ اترنے کی صورت میں شادی کے انتظار میں بوڑھی ہوجاتی ہیں ؟

مذہبی حلقے کم سنی کی شادی کا جواز ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کی حضور اکرمﷺکے ساتھ شادی سے نکالتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ وہ شادی کن حالات ، کس معاشرے اور کن تقاضو ں کے تحت ہوئی ۔ ایسے افراد کو اگر یہ بتایا جائے کہ حضرت عائشہ کی رخصتی تقریباََ انیس برس کی عمر میں ہوئی تھی تو انہیں حیرانی ہوگی کیونکہ انہوں نے زندگی میں کبھی اس بارے میں چھان بین کی کوشش نہیں کی ہوگی بلکہ روایتی ملاؤں کی بتائی ہوئی باتوں کو دہرانے کے بعد ان کاعلم جواب دے جاتا ہے ۔

ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حضرت عائشہ کا نکاح چونکہ رخصتی سے پہلے ہو چکا تھا اس لئے کم سنی میں نکا ح تو ہوسکتا ہے لیکن رخصتی سن بلوغت کے بعد ہو گی یا پھربلوغت کی عمر میں لڑکا یا لڑکی اس نکا ح کے بندھن سے اپنی مرضی کے مطابق آزاد ہو سکتے ہیں ۔ معاف کیجئے گا جو رشتہ زبان کی ایک ناں یا سر کی ایک جنبش کی مار ہے اس کے لئے آپ اتنا تردد فرما کیوں رہے ہیں ؟جلدی کیا ہے ؟یہ جلد بازی ہی بتاتی ہے کہ مقصود اسلامی روایات و قوانین کی سربلندی نہیں بلکہ کچھ اور ہے ۔ ہمارے ہاں تو جوان خواتین مرضی کی شادی کی جسارت کم ہی کر سکتی ہیں تو جس لڑکی کی شادی ہی کم سنی میں کر دی جائے ؟کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ناپسندیدگی کی صورت میں زبردستی کے اس نکاح سے انکار کر پائے گی ۔

وقت بہت آگے جا چکا ، ان مسائل کا شکار صرف لڑکیاں یا خواتین ہی نہیں بلکہ لڑکے اور مرد بھی ہیں ۔ آج کل کی مائیں اپنے بیٹوں یہ کہہ کر بلیک میل کرتی ہیں کہ ’’ میں تینوں بتی دھاراں نئیں بخشنیاں‘‘۔(میں تمہیں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی)،لیجئے بتیس دھاریں بخشوانے کے چکر میں زبردستی کی شادی کے بعد وہ بتیس برس کی عمر ساٹھ برس کا بیمار دکھائی دیتا ہے ۔ کچھ دن پہلے گفتگو میں ایک محترم خاتون نے کہا ’’ میری نظر میں اس معاشرے کے اسی فیصد مردزبردستی کی شادیاں نبھانے پر مجبور ہیں ‘‘۔دیجئے اب اس بات کا جواب؟جو معاشرہ اس نہج پر پہنچ چکا ہو اس معاشرے میں آپ جنسی بے راہ روی اور اس جیسے دوسرے جواز گھڑ کر کم سنی کی شادیوں کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں ؟

وزیر مذہبی امور نو رالحق قادری کی نواز ش ،فرمایا اس بارے اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت کرنی چاہیے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی بھی سن لیجئے !سیاسی اور ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر اسلامی نظریاتی کونسل اپنی اہمیت اور ساکھ کھو بیٹھی ہے ۔اسلامی نظریاتی کونسل میں براجمان ذاتی مفادات کے اسیر بعض ارکان کی لڑائیاں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ۔ اور پھرخود اسلامی نظریاتی کونسل بھی یہ بات تسلیم کرچکی ہے کہ کم سنی کی شادیاں معاشرتی مسائل کا سبب بن رہی ہیں ۔ لیکن ساتھ ہی اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ کہہ کر دودھ میں مینگنیاں ڈال دیں کہ اس پر پابندی کی بجائے اس کے خلاف مہم شروع کی جائے ۔جب ایک عمل معاشرتی مسائل اور بگاڑ کا سبب بن رہا ہے تو اس پر پابندی کی بجائے مہم کا دلیل ماورائے عقل و دانش ہے ۔

وقت کا تقاضہ ہے کہ کم سنی کی شادیوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے بچنے کے لئے ریاست اس پر پابندی عائد کرے ۔میاں بیوی کے اس مقدس رشتے کو پیچیدگیوں سے پاک رکھنے کے لئے لازم ہے کہ نکاح کے موقع پر میاں بیوی سے ان کی مرضی پوچھنے کے لئے ریاست آزاد ماحول فراہم کرے اور زبردستی کے رشتے بنانے سے احتراز کیا جائے تاکہ معاشرے کوطلاق جیسے ناپسندیدہ اور خاندانوں کے بکھرنے کے تکلیف دہ امر سے ہر ممکن حد تک بچاجا سکے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
کمسن بچی کی شادی؟ خدا کا خوف کرو علی محمد!
07/05/2019 نورالہدیٰ شاہ


پیارے علی محمد!

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جس اونچی کرسی پر شان سے بیٹھے ہو، اس کرسی کی جڑوں میں رینگتے سماج پر کبھی جھک کر نگاہ ڈالی ہے؟
تم اور میں جس جاگیردارانہ سماج سے تعلق رکھتے ہیں علی محمد! وہاں جرگے کے نام پر بچیوں کا لین دین ہوتا ہے، کیا تم اس سے بے خبر ہو؟
خدا کو حاضر ناظر جان کر سچ کہو کہ کیا تم نہیں جانتے کہ بڑی بڑی کلف لگی اونچی پگڑیوں والے جب محکوم رعایا کے فیصلے کرنے کے لیے جرگے لگاتے ہیں تو خون کے بدلے قاتل کی قریبی رشتے کی کم عمر بچی مقتول کے خاندان کے مرد کے حوالے کر دیتے ہیں!

صرف قتل کا فیصلہ ہی نہیں بلکہ ریپ، اغوا، بھاگ کر یا بھگا کر شادی کرنے کے فیصلے میں بھی مجرم قرار دیے گئے خاندان کی بچی پیش کر دی جاتی ہے!

جرمانے کے طور پر ادا کی گئی یہ کم عمر بچیاں نکاح کے ذریعے حلال کی جاتی ہیں اور انہیں چیلنج کرنے کا کفر کوئی مائی کا لال نہیں کرسکتا۔
کیا تم یہ نہیں جانتے علی محمد؟

کیا تمہیں یہ بھی خبر نہیں ہے کہ غربت کی لکیر سے بھی نیچے رینگتے سماج میں نشئی اور سگے سوتیلے باپ اکثر آٹھ دس سال کی بچیوں کو دو تین لاکھ کے عوض عمر رسیدہ مردوں کے ہاتھ نکاح کے نام پر بیچ دیتے ہیں؟

خریدار کسی کارِ ثواب کے لیے نہیں خرید کرتا، بلکہ محض کم عمر لڑکی کی کم عمری کی لذت لینے کے لیے بچی کو خرید کرتا ہے۔ اس لذت کی نفسیات کو مجھ سے زیادہ تم سمجھ سکتے ہو علی محمد!

اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ جو مرد نکاح کرکے لے جاتا ہے وہ اس بچی کا حقِ زوجیت صرف اپنی شہوت کی صورت ادا کرتا ہے۔ مزید حقوق کا کوئی تصوّر ہی موجود نہیں۔ ہاں اسے بیماریوں کے دلدل میں ضرور دھکیل دیتا ہے۔
لاتعداد اسقاطِ حمل اور پے در پے بچے۔ کسی ایک بچے پر بالآخر وہ مر بھی جاتی ہے ورنہ خون تھوکتی رہتی ہے۔

کیا تمہیں نہیں خبر علی محمد! کہ بہت سی بچیاں نکاح کے نام پر خرید کر آگے بیچ دی جاتی ہیں اور کئی ہاتھوں سے گزرتی کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی ہیں۔ جس کے نکاح میں ہوتی ہیں وہ اس کا مالک ہوتا ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی اسے چیلنج کرنے کا کفر نہیں کرسکتا۔

کیا تمہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کیچڑ زدہ سماج میں نکاح کے لیبل کے ساتھ کم عمر بچیاں فقط جسم فروشی کے کاروبار میں ہی استعمال نہیں ہوتیں، بلکہ وہ جہاں نکاح کرکے لے جائی جاتی ہیں وہاں کے محرم مرد بھی ان پر ہاتھ صاف کر رہے ہوتے ہیں۔

وہ بچیاں اپنی کم عمری اور کم علمی کے باعث اس سب کو یا تو زندگی کا حصہ سمجھتی ہیں یا پھر لمبے، چوڑے، تگڑے مردوں کے سامنے سہم جاتی ہیں، جن کی کہنیوں تک کا قد ہوتا ہے ان بچیوں کا کہ گردن میں بازو ڈال کر دبوچو تو چڑیا کی پھڑپھڑاہٹ جتنی بھی سکت نہیں ہوتی ان میں۔

اس گندے سماج میں بچیوں کو سگے اور رشتے کے سسر اور دیور تک نوچ کھاتے ہیں۔ چچا، ماموں اور باپ کا تو نام لیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔

بچی بیچاری نے ابھی جینا سیکھا ہی نہیں ہوتا کہ مردوں کی ٹانگوں تلے آجاتی ہے!

ارے میاں علی محمد! جس شان سے سینہ تان کر بچی کی کم عمری کی شادی کو عین اسلامی فریضہ قرار دیتے ہو نا، اسی طرح سینہ تان کر ذرا مسجدوں اور مدرسوں میں ریپ ہوتے اور مرتے کم عمر بچوں اور بچیوں کے لیے آواز بلند کرکے تو دکھاؤ۔

خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ بھی سچ سچ کہو کہ اپنی کسی قریبی کم عمر بچی کا نکاح کسی مسٹنڈے کے ساتھ کرو گے؟

کبھی نہیں کرو گے۔

تو پھر تم دوسروں کی بچیوں اور بالخصوص غریبوں اور ان پڑھ لوگوں کی بچیوں کے لیے بے دردی کے ساتھ فتوے کیسے جاری کرسکتے ہو کہ ان کی جسمانی عمر مرد کی شہوانی ضرورت پوری کرنے کے قابل ہوچکی ہو تو ان کی شادیاں کروانا عین مذہبی فریضہ ہے!

خدا کا خوف کرو میاں!

دیکھ رہے ہونا کہ چھوٹے چھوٹے بچے اور خاص طور پر کمسن بچیاں کس بڑی تعداد میں ریپ کرکے، نوچ نوچ کر زخمی کرکے مردہ حالت میں پھینک دی جاتی ہیں!

اس نفسیاتی مرض کو ہوا مت دو میاں!

یہ وہ نفسیات ہے جو تم جیسوں کی بلند آواز میں کم عمر بچی کی شادی کو جائز قرار دیتے فتوے سے مزید وحشی ہوجاتی ہے۔

تمہیں اندازہ ہے اس طرح کی باتیں شہوت کے مریض وحشیوں پر کیا نفسیاتی اثر چھوڑتی ہیں؟

ان الفاظ کے اثر پر غور کرو علی محمد!

کم عمر بچی!

جسمانی بلوغت (پیوبرٹی)!

شادی کے قابل!

وغیرہ وغیرہ

اوپر سے تمہاری دیکھا دیکھی ایک اور بچی کی وڈیو سوشل میڈیا پر چل رہی ہے آجکل۔ جس میں وہ پیوبرٹی پیوبرٹی پیوبرٹی کی مسلسل گردان کے ساتھ زنا سے بچاؤ کے طریقے کے طور پر کم عمر بچی کی شادی کے بارے میں دلائل دے رہی ہے اور نہ صرف یہ ثابت کررہی ہے کہ جسمانی بلوغت کے ساتھ ہی لڑکی نکاح کے قابل ہوجاتی ہے، بلکہ جنسی تعلق کو سمجھ بھی سکتی ہے اور اس کا علم بھی رکھتی ہے!

ساتھ ہی وہ بھی اس معاملے کو عین اسلامی قرار دے رہی ہے۔

وڈیو میں فتوے دیتی اس بیچاری بچی کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہ کم عمر بچی کے لیے معاشرے میں دندناتے پھرتے درندوں کے کن وحشی جذبات کو ہوا دے رہی ہے!

ان سوالوں کا جواب اب اس بیچاری بچی سے کون مانگے کہ بیٹا! کیا بچیاں جسمانی بلوغت پر پہنچتے ہی زانی بن جاتی ہیں کہ ان کی فوری شادیاں کرانے سے معاشرے سے زنا ختم ہوجائے گا؟

کیا شادی شدہ مرد اور عورتیں اس گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے؟

کیا بچیوں کو ریپ کرنے والے صرف کنوارے مرد ہیں؟

اور پھر کیا سب کنوارے لڑکے اتنے بھوکے ہیں کہ ان کے آگے کم عمر بچیوں کا چارہ ڈال دیا جائے تاکہ معاشرے سے زنا ختم ہوجائے؟

جس سماج میں لوگ اپنے اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے گردے بیچ کر پیٹ پوجا کا بندوبست کرتے ہیں، وہاں ہم تم پیٹ بھر کر اسمارٹ فونز اور لاؤڈ اسپیکرز پر دوسروں کو اسلام کے اصول بتاتے ہیں!

صد شکر کہ یہ بل کافر نے پیش کیا کہ تھوڑی سی لعنت ملامت کے بعد جان بخشی ہوگئی۔ مسلمان ہوتا تو اب تک کفر کے الزام پر ٹھوکروں میں کُچلا جا چکا ہوتا۔

سو میاں علی محمد! ہاتھ جوڑ کر میں گنہگار درخواست کرتی ہوں کہ للہ اس عظیم دین کو کم عمر بچی کی شادی سے نتھی نہ کرو۔

صرف سورۃ طلاق کی آیت 4 میں طلاق کے بعد عدت کے حوالے سے ان بیویوں کا ذکر ہے، جنہیں اب حیض کی امید نہیں رہی، اور وہ جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو ۔۔۔۔۔

جنہیں حیض کی امید نہیں رہی، انہیں چھوڑ کر ہماری سوئی ان بیویوں پر پھنس گئی جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو۔

یہ بات کس تناظر میں کہی جارہی ہے اور اس ہدایت کی وسعت کیا ہے اور زمانوں کے کن کن حوادث و پھیلاؤ کی بنیاد پر یہ ہدایت جاری کی جا رہی ہے، اس سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم دور بین لگا کر کمسن بچیوں کے پیچھے پڑ گئے!

ورنہ دیکھو کہ قرآن میں ہی اس معاملے پر کتنی گہری احتیاط برتی گئی ہے کہ صرف اس جگہ عدت جیسے ایک نکتے پر نابالغ بیوی کا ذکر آیا ہے کہ اگر کہیں کسی کے پاس ایسی بچی موجود ہو!

ورنہ جہاں جہاں قرآن نے عورت کے معالات پر بات کی ہے، واضع طور پر دکھتا ہے کہ ذہنی طور پر بالغ عورت کی بات ہورہی ہے۔

خود سورۃ طلاق میں طلاق یافتہ عورت کو دورانِ عدت جو عزت و احترام اور حقوق دینے کی سابقہ شوہر کو ہدایت کی گئی ہے اس حکم سے بھی کسی کو دلچسپی نہیں۔

بس کتابیں سیاہ ہوگئیں نابالغ بچی کے مختصر اور انتہائی محتاط ذکر پر!

اللہ معاف کرے،

اللہ کے کلام کو اپنے مطلب کے لیے ہم نے کس کس طرح نہ استعمال کیا ہے!

اوپر سے ظلم کی انتہا یہ کہ عدت سے متعلق قرآن کے اس حکم سے اپنا مقصد نکالنے کے لیے نبیِ کریمﷺ کی زوجہ مطہرہ کو کمسن بچی کی شادی کا سرٹیفکیٹ بناکر انتہائی بے حیائی کے ساتھ مسلسل زیر بحث لاتے رہے ہیں!

حیاتِ طیبہ و بیانِ طیبہ کا معاملہ تو اتنا حساس و نازک ہے میاں علی محمد! کہ حضرت عباس رضی الله عنه جو نبی کریمﷺ کے چچا اور بیحد قریبی ساتھی تھے اور عمر میں صرف تین سال بڑے تھے۔ نبی کریمﷺ کے بعد 21 سال تک حیات رہے۔ 84/85 سال کی عمر میں 32 ہجری میں وفات پائی۔

ان سے جب حیاتِ طیبہ سے منسوب کوئی بیان یا واقعہ پوچھا جاتا تو وہ رو پڑتے۔ پریشان ہوجاتے۔ بیحد محتاط ہوجاتے۔ روتے ہوئے فرماتے کہ پتہ نہیں ایسے کہا تھا یا ویسے کہا تھا! شاید یوں کہا تھا! شاید یوں نہیں یوں کہا تھا!

یہ ہے وہ احتیاط حیاتِ طیبہ اور بیانِ طیبہ کے بارے میں کہ حقیقی چچا کی زبان پریشان ہوجائے کہ کہیں الفاظ کی خطا نہ ہوجائے مجھ سے ذاتِ عظیم کے بارے میں!

اور ہم مسلمانوں کا حال یہ ہے میاں علی محمد! کہ لگے ہوئے ہیں صدیوں سے نبیﷺ کی ایک زوجہِ مطہرہ کی عمر کا تعین کرنے میں!

الامان و الحفیظ!

اللہ معاف کرے۔

مسلمانوں نے کتابوں کے پہاڑ لکھ لکھ ڈالے اس ایک بحث پر، صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ کم عمر بچی کو نکاح میں لانا جائز ہے!؟

جن علماء و محققین نے 6 اور 16 کے ہندسوں کو حقائق کی بنیاد پر پرکھا اور کم عمری کی تردید کی ان کی آواز نقار خانے کے شور میں ہمیشہ دبا دی گئی۔

حالانکہ یہ تو نبی کریمﷺ کی وہ زوجہ مطہرہ ہیں جن کی زندگی میں جب بعض مسلمانوں نے ان کے لیے گستاخ زبان استعمال کی تو براہِ راست اللہ کی غیظ و غضب بھری آیات کا نزول ہوگیا۔

اُف! علی محمد! کبھی کرسی کے گورکھ دھندوں سے فرصت ملے تو گہری تنہائی میں بیٹھ کر سورۃِ نور کا مطالعہ کرنا۔

رواں رواں لرز اٹھتا ہے اللہ کا غیظ و غضب اس بات پر دیکھ کر کہ بعض مسلمان مردوں اور عورتوں نے ان سیّدہ مطہرہ کی شان کے خلاف اپنی گستاخ زبان کھولی ہی کیوں؟

اتنا جلال ہے ان آیات میں علی محمد کہ مسلمان اپنی زبان پر نبیِ کریمﷺ کی اس محبوب ہستی کا نام تک لاتے ہوئے زباں پتھر تلے رکھ دے اپنی!

آہ ۔۔۔۔

صد افسوس کہ نبیﷺ کی زوجہ مطہرہ کی عمر کا بہانہ بنا کر ہم اپنے نفس کے لیے دلائل دیتے ہیں!

ہمارے منہ میں خاک کہ اللہ کے محبوب ترین پیغمبرﷺ کی خلوَتوں میں جھانکتے ہیں اور کم عمر بچیوں کی شادیوں کی مثال بناتے ہیں!

ارے میاں علی محمد!

بس اتنا کہوں گی خود کو بھی اور تمہیں بھی کہ کچھ تو خدا کا خوف کرو۔

کچھ تو نبی کریمﷺ سے حیا کرو۔
 

آصف اثر

معطل
یہ سماج کا مسئلہ ہے، شریعت مطہرہ کا نہیں۔ اٹھو اور اندرون سندھ اس کالے دھندے کو روک لو۔ بھٹو کو قبر میں ہمیشہ کے لیے دفن کردو۔ تب ہی یہ مسئلہ حل ہوگا۔ ورنہ اس وڈیرہ نظام میں یہی شادیاں، یہی بلیک میلنگ اور یہی خون ہوتا رہے گا۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ اندرون خانہ تو اس نظام کی پشت پناہی ہورہی ہے لیکن اسلام کو بدنام کرنے کے لیے ظاہری قوانین بنائے جارہے ہیں۔
 

dxbgraphics

محفلین
="ف
اب سوال ہے میرا اسلامی نظریاتی کونسل کے اُلوماء سے کہ کیا وہ مجھے اجازت دیں گے کہ میں کوئی کاروباری معاہدہ ان کے 8، 10 ، 12 ، 14 ، 16 ، 18 یا 20 سال کے بچوں میں سے کسی سے کروں ؟ ان الوما کے نزدیک کاروباری معاہدے کے لئے کون سی عمر قابل قبول ہوگی؟ کہ یہ الوما سمجھیں کہ میں کسی بچے سے معاہدہ نہیں کررہا؟ شادی بھی دو افراد کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔ قران کے مطابق وہ افراد جو بالغ ہیں ان سے ہی معاہدہ اور شادی ہو سکتی ہے۔ لۃذا یہ اعتراض قاب قبول نہیں کہ اسلام نے ادی کی کوئی عمر نہیں رکھی ہے۔ قرآن نے بلوغت (جوانی تک پہنچنے) کی عمر صاف صاف واضح کی ہے، جو مانے تو مومن ، جو نا مانے تو قرآن کی تکفیر :)

کن عالما او متعلما او مستعما او محب فلا تکن خامس فتھلك

معذرت کیساتھ آپ کی تحریر سے آپ کے چچھورے پن کا اندازا لگایا جاسکتا ہے۔ قرآن کی بات کرتے ہیں قرآن میں سورہ حجرات آیت 11 میں یہ بھی واضح ہے کہ کسی کو غلط ناموں سے مت پکارو۔ لیکن چچھورا پن آپ کو مجبور کر رہا ہے کہ انگلی ضرور کرنی ہے۔ اور خواہ مخواہ کسی سے ڈانٹ ڈپٹ ضرور سننی ہے۔
حدیث سے بغض اگر ہے تو اپنے تک محدود رکھیں۔ اسے علماء پر الزام تراشی یا برے القابات کے ذریعے سے اپنے چچھورے پن کا تعفن پھیلانے سے گریز کریں
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
تنی افسوس کی بات ہے کہ اندرون خانہ تو اس نظام کی پشت پناہی ہورہی ہے لیکن اسلام کو بدنام کرنے کے لیے ظاہری قوانین بنائے جارہے ہیں۔
قانون تو اس غلط پریکٹس (کم عمری کی شادی) کو روکنے کیلئے ہی بنائے جا رہے ہیں۔ جو کبھی مذہب ، کبھی تہذیب تو کبھی روایت کے نام پر جاری و ساری ہے۔
 

آصف اثر

معطل
قانون تو اس غلط پریکٹس (کم عمری کی شادی) کو روکنے کیلئے ہی بنائے جا رہے ہیں۔ جو کبھی مذہب ، کبھی تہذیب تو کبھی روایت کے نام پر جاری و ساری ہے۔
آپ مغالطے کا شکار ہیں۔ اوپر کالم میں جو باتیں کی گئیں ہیں، ان میں اور پاس کیے گئے قانون میں بہت فرق ہے۔
 
کن عالما او متعلما او مستعما او محب فلا تکن خامس فتھلك

معذرت کیساتھ آپ کی تحریر سے آپ کے چچھورے پن کا اندازا لگایا جاسکتا ہے۔ قرآن کی بات کرتے ہیں قرآن میں سورہ حجرات آیت 11 میں یہ بھی واضح ہے کہ کسی کو غلط ناموں سے مت پکارو۔ لیکن چچھورا پن آپ کو مجبور کر رہا ہے کہ انگلی ضرور کرنی ہے۔ اور خواہ مخواہ کسی سے ڈانٹ ڈپٹ ضرور سننی ہے۔
حدیث سے بغض اگر ہے تو اپنے تک محدود رکھیں۔ اسے علماء پر الزام تراشی یا برے القابات کے ذریعے سے اپنے چچھورے پن کا تعفن پھیلانے سے گریز کریں

شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔
یہ خبر ملاحظہ فرمائیے
Murder of Zainab Ansari - Wikipedia

۔یہ ایک ایسے درندے کا جرم ہے جس نے ایک آٹھ سالہ لڑکی کو جنسی تشدد کے بعد موت کے کے گھاٹ اتارا۔ یہ جرم آج بھی جرم ہے اور یہ جرم کل بھی جرم تھا۔ آپ کی یہ ہمت ہے کہ حدیث کے پردے میں رسول اکرم پر چھ سالہ لڑکی سے شادی کرنے کی فرد جرم عائید کرتے ہیں اور اس کو اعزاز قرار دیتے ہیں؟ چھچورا پن تو یہ ہے کہ در پردہ رسول اکرم کی توہین کی جائے اور پھر زور دیا جائے کہ اس کو مانو؟ دبئی کے بے نام گرے فیکس، ، تم رسول اکرم کی توہین کے مرتکب ہو۔ ایسے تمام افراد توہین کے مرتکب ہیں جو رسول اکرم پر ایسا الزام عائید کرتے ہیں، مجرم ہیں اور ایسے الوما مجرم ہی کہلائیں گے۔

جس نبی اکرم کی زبان سے قرآن ادا ہوا، یہی اسی قرآن کا فرمان ہے کہ شادی کرنے کے لئے ذہنی و جسمانی بلوغت ضروری ہے تو ہم کس طرح مان لیں کہ ایسا بتانے والا رسول اکرم ، خود ایک چھ سالہ لڑکی سے شادی کرے گا؟ صاحب آپ ایسے فرد جرم، حدیث کے پردے میں عائید کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں ؟ اگر نبی اکرم اس طرح کا جرم کرنے والے افراد سے ہوتے تو آج ان کی سنت اکرمہ کی عزت نا ہوتی۔۔
آپ کی کتب روایات کو پڑھ کر ہی میرا ایمان قرآن حکیم پر کامل ہوا ہے۔ کہ یہ قرآن اللہ کی کتاب ہے اور اللہ تعالی اس کی حفاظت کررہا ہے۔
 
یہ سماج کا مسئلہ ہے، شریعت مطہرہ کا نہیں۔ اٹھو اور اندرون سندھ اس کالے دھندے کو روک لو۔ بھٹو کو قبر میں ہمیشہ کے لیے دفن کردو۔ تب ہی یہ مسئلہ حل ہوگا۔ ورنہ اس وڈیرہ نظام میں یہی شادیاں، یہی بلیک میلنگ اور یہی خون ہوتا رہے گا۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ اندرون خانہ تو اس نظام کی پشت پناہی ہورہی ہے لیکن اسلام کو بدنام کرنے کے لیے ظاہری قوانین بنائے جارہے ہیں۔

شریعت ، میڈ ان بغداد شریف ، یہی تعلیم دیتی ہے کہ چھوٹی بچیوں سے شادی جائز ہے، ایسی شریعت کو قرآن والے اسلام سے الگ ہی رکھا جائے تو بہتر ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔
یہ خبر ملاحظہ فرمائیے
Murder of Zainab Ansari - Wikipedia

۔یہ ایک ایسے درندے کا جرم ہے جس نے ایک آٹھ سالہ لڑکی کو جنسی تشدد کے بعد موت کے کے گھاٹ اتارا۔ یہ جرم آج بھی جرم ہے اور یہ جرم کل بھی جرم تھا۔ آپ کی یہ ہمت ہے کہ حدیث کے پردے میں رسول اکرم پر چھ سالہ لڑکی سے شادی کرنے کی فرد جرم عائید کرتے ہیں اور اس کو اعزاز قرار دیتے ہیں؟ چھچورا پن تو یہ ہے کہ در پردہ رسول اکرم کی توہین کی جائے اور پھر زور دیا جائے کہ اس کو مانو؟ دبئی کے بے نام گرے فیکس، ، تم رسول اکرم کی توہین کے مرتکب ہو۔ ایسے تمام افراد توہین کے مرتکب ہیں جو رسول اکرم پر ایسا الزام عائید کرتے ہیں، مجرم ہیں اور ایسے الوما مجرم ہی کہلائیں گے۔

جس نبی اکرم کی زبان سے قرآن ادا ہوا، یہی اسی قرآن کا فرمان ہے کہ شادی کرنے کے لئے ذہنی و جسمانی بلوغت ضروری ہے تو ہم کس طرح مان لیں کہ ایسا بتانے والا رسول اکرم ، خود ایک چھ سالہ لڑکی سے شادی کرے گا؟ صاحب آپ ایسے فرد جرم، حدیث کے پردے میں عائید کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں ؟ اگر نبی اکرم اس طرح کا جرم کرنے والے افراد سے ہوتے تو آج ان کی سنت اکرمہ کی عزت نا ہوتی۔۔
آپ کی کتب روایات کو پڑھ کر ہی میرا ایمان قرآن حکیم پر کامل ہوا ہے۔ کہ یہ قرآن اللہ کی کتاب ہے اور اللہ تعالی اس کی حفاظت کررہا ہے۔

ہمارے ہاں پشتو میں ایک کہاوت ہے۔
ڈھولکیا وھم دے چرتہ ۔ غگیگے چرتہ
بالکل آپ پر صادق آتی ہے ۔

آپ کا لہجہ تم پر پھر تم سے تو پر آجائیگا۔ بات کرنے کی تمیز سیکھ لیں تو پھر میں آپ سے امید رکھ سکوں گا کہ آپ تعمیری گفتگو کے شاید لائق ہوں۔ جیسا کہ آپ نے پھر علماء کو غلط لقب دے کر پکارا ظاہر ہے آپ کا معیار گفتگو کیا ہے۔
ویسے کچھ ہفتوں پہلے آئین پاکستان کے تناظر میں قادیانیوں کے بارے میں میری ایک پوسٹ ایک محترم منتظم نے ڈیلیٹ کر دی۔ لیکن افسوس ہے کہ یہاں پر علماء کے بارے میں چھچوری زبان استعمال کرنے پر بھی انہی منتظم صاحب نے دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔
 

سید عمران

محفلین
کمسن بچی کی شادی؟ خدا کا خوف کرو علی محمد!
07/05/2019 نورالہدیٰ شاہ


پیارے علی محمد!

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جس اونچی کرسی پر شان سے بیٹھے ہو، اس کرسی کی جڑوں میں رینگتے سماج پر کبھی جھک کر نگاہ ڈالی ہے؟
تم اور میں جس جاگیردارانہ سماج سے تعلق رکھتے ہیں علی محمد! وہاں جرگے کے نام پر بچیوں کا لین دین ہوتا ہے، کیا تم اس سے بے خبر ہو؟
خدا کو حاضر ناظر جان کر سچ کہو کہ کیا تم نہیں جانتے کہ بڑی بڑی کلف لگی اونچی پگڑیوں والے جب محکوم رعایا کے فیصلے کرنے کے لیے جرگے لگاتے ہیں تو خون کے بدلے قاتل کی قریبی رشتے کی کم عمر بچی مقتول کے خاندان کے مرد کے حوالے کر دیتے ہیں!

صرف قتل کا فیصلہ ہی نہیں بلکہ ریپ، اغوا، بھاگ کر یا بھگا کر شادی کرنے کے فیصلے میں بھی مجرم قرار دیے گئے خاندان کی بچی پیش کر دی جاتی ہے!

جرمانے کے طور پر ادا کی گئی یہ کم عمر بچیاں نکاح کے ذریعے حلال کی جاتی ہیں اور انہیں چیلنج کرنے کا کفر کوئی مائی کا لال نہیں کرسکتا۔
کیا تم یہ نہیں جانتے علی محمد؟

کیا تمہیں یہ بھی خبر نہیں ہے کہ غربت کی لکیر سے بھی نیچے رینگتے سماج میں نشئی اور سگے سوتیلے باپ اکثر آٹھ دس سال کی بچیوں کو دو تین لاکھ کے عوض عمر رسیدہ مردوں کے ہاتھ نکاح کے نام پر بیچ دیتے ہیں؟

خریدار کسی کارِ ثواب کے لیے نہیں خرید کرتا، بلکہ محض کم عمر لڑکی کی کم عمری کی لذت لینے کے لیے بچی کو خرید کرتا ہے۔ اس لذت کی نفسیات کو مجھ سے زیادہ تم سمجھ سکتے ہو علی محمد!

اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ جو مرد نکاح کرکے لے جاتا ہے وہ اس بچی کا حقِ زوجیت صرف اپنی شہوت کی صورت ادا کرتا ہے۔ مزید حقوق کا کوئی تصوّر ہی موجود نہیں۔ ہاں اسے بیماریوں کے دلدل میں ضرور دھکیل دیتا ہے۔
لاتعداد اسقاطِ حمل اور پے در پے بچے۔ کسی ایک بچے پر بالآخر وہ مر بھی جاتی ہے ورنہ خون تھوکتی رہتی ہے۔

کیا تمہیں نہیں خبر علی محمد! کہ بہت سی بچیاں نکاح کے نام پر خرید کر آگے بیچ دی جاتی ہیں اور کئی ہاتھوں سے گزرتی کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی ہیں۔ جس کے نکاح میں ہوتی ہیں وہ اس کا مالک ہوتا ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی اسے چیلنج کرنے کا کفر نہیں کرسکتا۔

کیا تمہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کیچڑ زدہ سماج میں نکاح کے لیبل کے ساتھ کم عمر بچیاں فقط جسم فروشی کے کاروبار میں ہی استعمال نہیں ہوتیں، بلکہ وہ جہاں نکاح کرکے لے جائی جاتی ہیں وہاں کے محرم مرد بھی ان پر ہاتھ صاف کر رہے ہوتے ہیں۔

وہ بچیاں اپنی کم عمری اور کم علمی کے باعث اس سب کو یا تو زندگی کا حصہ سمجھتی ہیں یا پھر لمبے، چوڑے، تگڑے مردوں کے سامنے سہم جاتی ہیں، جن کی کہنیوں تک کا قد ہوتا ہے ان بچیوں کا کہ گردن میں بازو ڈال کر دبوچو تو چڑیا کی پھڑپھڑاہٹ جتنی بھی سکت نہیں ہوتی ان میں۔

اس گندے سماج میں بچیوں کو سگے اور رشتے کے سسر اور دیور تک نوچ کھاتے ہیں۔ چچا، ماموں اور باپ کا تو نام لیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔

بچی بیچاری نے ابھی جینا سیکھا ہی نہیں ہوتا کہ مردوں کی ٹانگوں تلے آجاتی ہے!

ارے میاں علی محمد! جس شان سے سینہ تان کر بچی کی کم عمری کی شادی کو عین اسلامی فریضہ قرار دیتے ہو نا، اسی طرح سینہ تان کر ذرا مسجدوں اور مدرسوں میں ریپ ہوتے اور مرتے کم عمر بچوں اور بچیوں کے لیے آواز بلند کرکے تو دکھاؤ۔

خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ بھی سچ سچ کہو کہ اپنی کسی قریبی کم عمر بچی کا نکاح کسی مسٹنڈے کے ساتھ کرو گے؟

کبھی نہیں کرو گے۔

تو پھر تم دوسروں کی بچیوں اور بالخصوص غریبوں اور ان پڑھ لوگوں کی بچیوں کے لیے بے دردی کے ساتھ فتوے کیسے جاری کرسکتے ہو کہ ان کی جسمانی عمر مرد کی شہوانی ضرورت پوری کرنے کے قابل ہوچکی ہو تو ان کی شادیاں کروانا عین مذہبی فریضہ ہے!

خدا کا خوف کرو میاں!

دیکھ رہے ہونا کہ چھوٹے چھوٹے بچے اور خاص طور پر کمسن بچیاں کس بڑی تعداد میں ریپ کرکے، نوچ نوچ کر زخمی کرکے مردہ حالت میں پھینک دی جاتی ہیں!

اس نفسیاتی مرض کو ہوا مت دو میاں!

یہ وہ نفسیات ہے جو تم جیسوں کی بلند آواز میں کم عمر بچی کی شادی کو جائز قرار دیتے فتوے سے مزید وحشی ہوجاتی ہے۔

تمہیں اندازہ ہے اس طرح کی باتیں شہوت کے مریض وحشیوں پر کیا نفسیاتی اثر چھوڑتی ہیں؟

ان الفاظ کے اثر پر غور کرو علی محمد!

کم عمر بچی!

جسمانی بلوغت (پیوبرٹی)!

شادی کے قابل!

وغیرہ وغیرہ

اوپر سے تمہاری دیکھا دیکھی ایک اور بچی کی وڈیو سوشل میڈیا پر چل رہی ہے آجکل۔ جس میں وہ پیوبرٹی پیوبرٹی پیوبرٹی کی مسلسل گردان کے ساتھ زنا سے بچاؤ کے طریقے کے طور پر کم عمر بچی کی شادی کے بارے میں دلائل دے رہی ہے اور نہ صرف یہ ثابت کررہی ہے کہ جسمانی بلوغت کے ساتھ ہی لڑکی نکاح کے قابل ہوجاتی ہے، بلکہ جنسی تعلق کو سمجھ بھی سکتی ہے اور اس کا علم بھی رکھتی ہے!

ساتھ ہی وہ بھی اس معاملے کو عین اسلامی قرار دے رہی ہے۔

وڈیو میں فتوے دیتی اس بیچاری بچی کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہ کم عمر بچی کے لیے معاشرے میں دندناتے پھرتے درندوں کے کن وحشی جذبات کو ہوا دے رہی ہے!

ان سوالوں کا جواب اب اس بیچاری بچی سے کون مانگے کہ بیٹا! کیا بچیاں جسمانی بلوغت پر پہنچتے ہی زانی بن جاتی ہیں کہ ان کی فوری شادیاں کرانے سے معاشرے سے زنا ختم ہوجائے گا؟

کیا شادی شدہ مرد اور عورتیں اس گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے؟

کیا بچیوں کو ریپ کرنے والے صرف کنوارے مرد ہیں؟

اور پھر کیا سب کنوارے لڑکے اتنے بھوکے ہیں کہ ان کے آگے کم عمر بچیوں کا چارہ ڈال دیا جائے تاکہ معاشرے سے زنا ختم ہوجائے؟

جس سماج میں لوگ اپنے اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے گردے بیچ کر پیٹ پوجا کا بندوبست کرتے ہیں، وہاں ہم تم پیٹ بھر کر اسمارٹ فونز اور لاؤڈ اسپیکرز پر دوسروں کو اسلام کے اصول بتاتے ہیں!

صد شکر کہ یہ بل کافر نے پیش کیا کہ تھوڑی سی لعنت ملامت کے بعد جان بخشی ہوگئی۔ مسلمان ہوتا تو اب تک کفر کے الزام پر ٹھوکروں میں کُچلا جا چکا ہوتا۔

سو میاں علی محمد! ہاتھ جوڑ کر میں گنہگار درخواست کرتی ہوں کہ للہ اس عظیم دین کو کم عمر بچی کی شادی سے نتھی نہ کرو۔

صرف سورۃ طلاق کی آیت 4 میں طلاق کے بعد عدت کے حوالے سے ان بیویوں کا ذکر ہے، جنہیں اب حیض کی امید نہیں رہی، اور وہ جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو ۔۔۔۔۔

جنہیں حیض کی امید نہیں رہی، انہیں چھوڑ کر ہماری سوئی ان بیویوں پر پھنس گئی جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو۔

یہ بات کس تناظر میں کہی جارہی ہے اور اس ہدایت کی وسعت کیا ہے اور زمانوں کے کن کن حوادث و پھیلاؤ کی بنیاد پر یہ ہدایت جاری کی جا رہی ہے، اس سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم دور بین لگا کر کمسن بچیوں کے پیچھے پڑ گئے!

ورنہ دیکھو کہ قرآن میں ہی اس معاملے پر کتنی گہری احتیاط برتی گئی ہے کہ صرف اس جگہ عدت جیسے ایک نکتے پر نابالغ بیوی کا ذکر آیا ہے کہ اگر کہیں کسی کے پاس ایسی بچی موجود ہو!

ورنہ جہاں جہاں قرآن نے عورت کے معالات پر بات کی ہے، واضع طور پر دکھتا ہے کہ ذہنی طور پر بالغ عورت کی بات ہورہی ہے۔

خود سورۃ طلاق میں طلاق یافتہ عورت کو دورانِ عدت جو عزت و احترام اور حقوق دینے کی سابقہ شوہر کو ہدایت کی گئی ہے اس حکم سے بھی کسی کو دلچسپی نہیں۔

بس کتابیں سیاہ ہوگئیں نابالغ بچی کے مختصر اور انتہائی محتاط ذکر پر!

اللہ معاف کرے،

اللہ کے کلام کو اپنے مطلب کے لیے ہم نے کس کس طرح نہ استعمال کیا ہے!

اوپر سے ظلم کی انتہا یہ کہ عدت سے متعلق قرآن کے اس حکم سے اپنا مقصد نکالنے کے لیے نبیِ کریمﷺ کی زوجہ مطہرہ کو کمسن بچی کی شادی کا سرٹیفکیٹ بناکر انتہائی بے حیائی کے ساتھ مسلسل زیر بحث لاتے رہے ہیں!

حیاتِ طیبہ و بیانِ طیبہ کا معاملہ تو اتنا حساس و نازک ہے میاں علی محمد! کہ حضرت عباس رضی الله عنه جو نبی کریمﷺ کے چچا اور بیحد قریبی ساتھی تھے اور عمر میں صرف تین سال بڑے تھے۔ نبی کریمﷺ کے بعد 21 سال تک حیات رہے۔ 84/85 سال کی عمر میں 32 ہجری میں وفات پائی۔

ان سے جب حیاتِ طیبہ سے منسوب کوئی بیان یا واقعہ پوچھا جاتا تو وہ رو پڑتے۔ پریشان ہوجاتے۔ بیحد محتاط ہوجاتے۔ روتے ہوئے فرماتے کہ پتہ نہیں ایسے کہا تھا یا ویسے کہا تھا! شاید یوں کہا تھا! شاید یوں نہیں یوں کہا تھا!

یہ ہے وہ احتیاط حیاتِ طیبہ اور بیانِ طیبہ کے بارے میں کہ حقیقی چچا کی زبان پریشان ہوجائے کہ کہیں الفاظ کی خطا نہ ہوجائے مجھ سے ذاتِ عظیم کے بارے میں!

اور ہم مسلمانوں کا حال یہ ہے میاں علی محمد! کہ لگے ہوئے ہیں صدیوں سے نبیﷺ کی ایک زوجہِ مطہرہ کی عمر کا تعین کرنے میں!

الامان و الحفیظ!

اللہ معاف کرے۔

مسلمانوں نے کتابوں کے پہاڑ لکھ لکھ ڈالے اس ایک بحث پر، صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ کم عمر بچی کو نکاح میں لانا جائز ہے!؟

جن علماء و محققین نے 6 اور 16 کے ہندسوں کو حقائق کی بنیاد پر پرکھا اور کم عمری کی تردید کی ان کی آواز نقار خانے کے شور میں ہمیشہ دبا دی گئی۔

حالانکہ یہ تو نبی کریمﷺ کی وہ زوجہ مطہرہ ہیں جن کی زندگی میں جب بعض مسلمانوں نے ان کے لیے گستاخ زبان استعمال کی تو براہِ راست اللہ کی غیظ و غضب بھری آیات کا نزول ہوگیا۔

اُف! علی محمد! کبھی کرسی کے گورکھ دھندوں سے فرصت ملے تو گہری تنہائی میں بیٹھ کر سورۃِ نور کا مطالعہ کرنا۔

رواں رواں لرز اٹھتا ہے اللہ کا غیظ و غضب اس بات پر دیکھ کر کہ بعض مسلمان مردوں اور عورتوں نے ان سیّدہ مطہرہ کی شان کے خلاف اپنی گستاخ زبان کھولی ہی کیوں؟

اتنا جلال ہے ان آیات میں علی محمد کہ مسلمان اپنی زبان پر نبیِ کریمﷺ کی اس محبوب ہستی کا نام تک لاتے ہوئے زباں پتھر تلے رکھ دے اپنی!

آہ ۔۔۔۔

صد افسوس کہ نبیﷺ کی زوجہ مطہرہ کی عمر کا بہانہ بنا کر ہم اپنے نفس کے لیے دلائل دیتے ہیں!

ہمارے منہ میں خاک کہ اللہ کے محبوب ترین پیغمبرﷺ کی خلوَتوں میں جھانکتے ہیں اور کم عمر بچیوں کی شادیوں کی مثال بناتے ہیں!

ارے میاں علی محمد!

بس اتنا کہوں گی خود کو بھی اور تمہیں بھی کہ کچھ تو خدا کا خوف کرو۔

کچھ تو نبی کریمﷺ سے حیا کرو۔
غیر مدلل، بے سرو پا اور نفرت انگیزجذباتی بیان!!!
 

آصف اثر

معطل
شریعت ، میڈ ان بغداد شریف ، یہی تعلیم دیتی ہے کہ چھوٹی بچیوں سے شادی جائز ہے، ایسی شریعت کو قرآن والے اسلام سے الگ ہی رکھا جائے تو بہتر ہے۔
جناب آپ بات کیوں نہیں سمجھ رہے۔ جو بل پاس کیا گیا ہے وہ شریعت سے متصادم ہے۔ جب کہ اندرون سندھ اور ملک کے دیگر علاقوں میں وٹہ سٹہ اور دیگر مظالم کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ ہر جگہ سائنسدان بنتے پھرتے ہیں، شریعت کی اپنی تشریح سائنس سے زبردستی کرانے سے نہیں ہچکچاتے، ذرا یہاں بھی بتادیں کہ اٹھارہ سال کی سائنس میں کیا وقعت ہے؟ اس بل کو بھی ذرا اپنی سائنسی تشریحات سے واضح کریں۔ لیکن مسئلہ دراصل آپ کا دوسرا ہے۔
بچپن سے ہی آپ اور دیگر اسماعیلوں، آغاخانیوں اور قادیانیوں کو کنویں کا مینڈک بنادیا جاتا ہے۔ اپنی تفسیریں پڑھا پڑھا کر اور قدیم وجدید علما سے بغض اور کینہ بھر بھر کر تعصب کا چلتا پھرتا نمونہ بنادیا جاتا ہے۔ میری باتوں کو جذبات اور الفاظ کو سخت نہ سمجھیں۔ آپ خود اس کے چشم دید گواہ ہیں۔ اور میرا تجزیہ اور مشاہدہ ہے۔
میں اپنے آغاخانی اور اسماعیلی اسٹوڈنٹس سے جب ان کے احوال اور روزمرہ زندگی سے متعلق پوچھتا ہوں تو مجھے ان بے چاروں پر ترس آتا ہے۔ ایک الو آغاخانی کے نام پر سب کو بےوقوف بنایا ہوا ہے۔ معلوم نہیں کس بدنصیب نے یہ تعفن زدہ فلسفہ اور مذہب ان بے چاروں پر تھوپ کر سائڈلائن کردیا ہے۔ بس ایک لکیر ہے جس پر چلنا ہے، ایک خانہ ہے جس میں سب کو جمع ہونا ہے۔ کوئی طبع زاد سوچ فکر نہیں۔ کس کس بات کا ذکر کروں۔ آپ بڑی عمر کے ہیں۔ ایک تعصب زدہ تشخص کے ساتھ علما کی توہین نہ کریں، دلیل دیں، ٹھنڈا رہیے۔ کم از کم میرے نزدیک تو اس عمر میں جذباتیات سمجھ سے بالاتر ہے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
آپ کی یہ ہمت ہے کہ حدیث کے پردے میں رسول اکرم پر چھ سالہ لڑکی سے شادی کرنے کی فرد جرم عائید کرتے ہیں اور اس کو اعزاز قرار دیتے ہیں؟ چھچورا پن تو یہ ہے کہ در پردہ رسول اکرم کی توہین کی جائے اور پھر زور دیا جائے کہ اس کو مانو؟
یہ اہم پوائنٹ ہے۔ حضرت عائشہ کی شادی ہو یا حضرت صفیہ کی یہ لوگ نبی سے ایسی غلط باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا ایک عام انسان سے بھی تصور نہیں کیا جا سکتا اور اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ اس کو شرعی حیثیت دیتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر توہین اسلام اور توہین رسول کیا ہو گی
 

جاسم محمد

محفلین
یہ اہم پوائنٹ ہے۔ حضرت عائشہ کی شادی ہو یا حضرت صفیہ کی یہ لوگ نبی سے ایسی غلط باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا ایک عام انسان سے بھی تصور نہیں کیا جا سکتا اور اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ اس کو شرعی حیثیت دیتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر توہین اسلام اور توہین رسول کیا ہو گی
متعدد صحیح احادیث میں حضرت عائشہؓ کی رسول اللہؐ سے شادی کے وقت عمر 6 سال جبکہ رخصتی کی عمر 9 سال درج ہے۔ اور اسی سنت کی بنیاد پراسلام میں شادی کی کم سے کم کوئی عمر نہیں جبکہ رخصتی کی کم سے کم عمر جنسی بلوغت مقرر ہے۔ البتہ فاروق سرور خان اور دیگر منکرین حدیث اسے نہیں مانتے۔
Capture.jpg
 
آخری تدوین:
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top