کمسن بچی کی شادی؟ خدا کا خوف کرو علی محمد!
07/05/2019 نورالہدیٰ شاہ
پیارے علی محمد!
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جس اونچی کرسی پر شان سے بیٹھے ہو، اس کرسی کی جڑوں میں رینگتے سماج پر کبھی جھک کر نگاہ ڈالی ہے؟
تم اور میں جس جاگیردارانہ سماج سے تعلق رکھتے ہیں علی محمد! وہاں جرگے کے نام پر بچیوں کا لین دین ہوتا ہے، کیا تم اس سے بے خبر ہو؟
خدا کو حاضر ناظر جان کر سچ کہو کہ کیا تم نہیں جانتے کہ بڑی بڑی کلف لگی اونچی پگڑیوں والے جب محکوم رعایا کے فیصلے کرنے کے لیے جرگے لگاتے ہیں تو خون کے بدلے قاتل کی قریبی رشتے کی کم عمر بچی مقتول کے خاندان کے مرد کے حوالے کر دیتے ہیں!
صرف قتل کا فیصلہ ہی نہیں بلکہ ریپ، اغوا، بھاگ کر یا بھگا کر شادی کرنے کے فیصلے میں بھی مجرم قرار دیے گئے خاندان کی بچی پیش کر دی جاتی ہے!
جرمانے کے طور پر ادا کی گئی یہ کم عمر بچیاں نکاح کے ذریعے حلال کی جاتی ہیں اور انہیں چیلنج کرنے کا کفر کوئی مائی کا لال نہیں کرسکتا۔
کیا تم یہ نہیں جانتے علی محمد؟
کیا تمہیں یہ بھی خبر نہیں ہے کہ غربت کی لکیر سے بھی نیچے رینگتے سماج میں نشئی اور سگے سوتیلے باپ اکثر آٹھ دس سال کی بچیوں کو دو تین لاکھ کے عوض عمر رسیدہ مردوں کے ہاتھ نکاح کے نام پر بیچ دیتے ہیں؟
خریدار کسی کارِ ثواب کے لیے نہیں خرید کرتا، بلکہ محض کم عمر لڑکی کی کم عمری کی لذت لینے کے لیے بچی کو خرید کرتا ہے۔ اس لذت کی نفسیات کو مجھ سے زیادہ تم سمجھ سکتے ہو علی محمد!
اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ جو مرد نکاح کرکے لے جاتا ہے وہ اس بچی کا حقِ زوجیت صرف اپنی شہوت کی صورت ادا کرتا ہے۔ مزید حقوق کا کوئی تصوّر ہی موجود نہیں۔ ہاں اسے بیماریوں کے دلدل میں ضرور دھکیل دیتا ہے۔
لاتعداد اسقاطِ حمل اور پے در پے بچے۔ کسی ایک بچے پر بالآخر وہ مر بھی جاتی ہے ورنہ خون تھوکتی رہتی ہے۔
کیا تمہیں نہیں خبر علی محمد! کہ بہت سی بچیاں نکاح کے نام پر خرید کر آگے بیچ دی جاتی ہیں اور کئی ہاتھوں سے گزرتی کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی ہیں۔ جس کے نکاح میں ہوتی ہیں وہ اس کا مالک ہوتا ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی اسے چیلنج کرنے کا کفر نہیں کرسکتا۔
کیا تمہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کیچڑ زدہ سماج میں نکاح کے لیبل کے ساتھ کم عمر بچیاں فقط جسم فروشی کے کاروبار میں ہی استعمال نہیں ہوتیں، بلکہ وہ جہاں نکاح کرکے لے جائی جاتی ہیں وہاں کے محرم مرد بھی ان پر ہاتھ صاف کر رہے ہوتے ہیں۔
وہ بچیاں اپنی کم عمری اور کم علمی کے باعث اس سب کو یا تو زندگی کا حصہ سمجھتی ہیں یا پھر لمبے، چوڑے، تگڑے مردوں کے سامنے سہم جاتی ہیں، جن کی کہنیوں تک کا قد ہوتا ہے ان بچیوں کا کہ گردن میں بازو ڈال کر دبوچو تو چڑیا کی پھڑپھڑاہٹ جتنی بھی سکت نہیں ہوتی ان میں۔
اس گندے سماج میں بچیوں کو سگے اور رشتے کے سسر اور دیور تک نوچ کھاتے ہیں۔ چچا، ماموں اور باپ کا تو نام لیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔
بچی بیچاری نے ابھی جینا سیکھا ہی نہیں ہوتا کہ مردوں کی ٹانگوں تلے آجاتی ہے!
ارے میاں علی محمد! جس شان سے سینہ تان کر بچی کی کم عمری کی شادی کو عین اسلامی فریضہ قرار دیتے ہو نا، اسی طرح سینہ تان کر ذرا مسجدوں اور مدرسوں میں ریپ ہوتے اور مرتے کم عمر بچوں اور بچیوں کے لیے آواز بلند کرکے تو دکھاؤ۔
خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ بھی سچ سچ کہو کہ اپنی کسی قریبی کم عمر بچی کا نکاح کسی مسٹنڈے کے ساتھ کرو گے؟
کبھی نہیں کرو گے۔
تو پھر تم دوسروں کی بچیوں اور بالخصوص غریبوں اور ان پڑھ لوگوں کی بچیوں کے لیے بے دردی کے ساتھ فتوے کیسے جاری کرسکتے ہو کہ ان کی جسمانی عمر مرد کی شہوانی ضرورت پوری کرنے کے قابل ہوچکی ہو تو ان کی شادیاں کروانا عین مذہبی فریضہ ہے!
خدا کا خوف کرو میاں!
دیکھ رہے ہونا کہ چھوٹے چھوٹے بچے اور خاص طور پر کمسن بچیاں کس بڑی تعداد میں ریپ کرکے، نوچ نوچ کر زخمی کرکے مردہ حالت میں پھینک دی جاتی ہیں!
اس نفسیاتی مرض کو ہوا مت دو میاں!
یہ وہ نفسیات ہے جو تم جیسوں کی بلند آواز میں کم عمر بچی کی شادی کو جائز قرار دیتے فتوے سے مزید وحشی ہوجاتی ہے۔
تمہیں اندازہ ہے اس طرح کی باتیں شہوت کے مریض وحشیوں پر کیا نفسیاتی اثر چھوڑتی ہیں؟
ان الفاظ کے اثر پر غور کرو علی محمد!
کم عمر بچی!
جسمانی بلوغت (پیوبرٹی)!
شادی کے قابل!
وغیرہ وغیرہ
اوپر سے تمہاری دیکھا دیکھی ایک اور بچی کی وڈیو سوشل میڈیا پر چل رہی ہے آجکل۔ جس میں وہ پیوبرٹی پیوبرٹی پیوبرٹی کی مسلسل گردان کے ساتھ زنا سے بچاؤ کے طریقے کے طور پر کم عمر بچی کی شادی کے بارے میں دلائل دے رہی ہے اور نہ صرف یہ ثابت کررہی ہے کہ جسمانی بلوغت کے ساتھ ہی لڑکی نکاح کے قابل ہوجاتی ہے، بلکہ جنسی تعلق کو سمجھ بھی سکتی ہے اور اس کا علم بھی رکھتی ہے!
ساتھ ہی وہ بھی اس معاملے کو عین اسلامی قرار دے رہی ہے۔
وڈیو میں فتوے دیتی اس بیچاری بچی کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہ کم عمر بچی کے لیے معاشرے میں دندناتے پھرتے درندوں کے کن وحشی جذبات کو ہوا دے رہی ہے!
ان سوالوں کا جواب اب اس بیچاری بچی سے کون مانگے کہ بیٹا! کیا بچیاں جسمانی بلوغت پر پہنچتے ہی زانی بن جاتی ہیں کہ ان کی فوری شادیاں کرانے سے معاشرے سے زنا ختم ہوجائے گا؟
کیا شادی شدہ مرد اور عورتیں اس گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے؟
کیا بچیوں کو ریپ کرنے والے صرف کنوارے مرد ہیں؟
اور پھر کیا سب کنوارے لڑکے اتنے بھوکے ہیں کہ ان کے آگے کم عمر بچیوں کا چارہ ڈال دیا جائے تاکہ معاشرے سے زنا ختم ہوجائے؟
جس سماج میں لوگ اپنے اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے گردے بیچ کر پیٹ پوجا کا بندوبست کرتے ہیں، وہاں ہم تم پیٹ بھر کر اسمارٹ فونز اور لاؤڈ اسپیکرز پر دوسروں کو اسلام کے اصول بتاتے ہیں!
صد شکر کہ یہ بل کافر نے پیش کیا کہ تھوڑی سی لعنت ملامت کے بعد جان بخشی ہوگئی۔ مسلمان ہوتا تو اب تک کفر کے الزام پر ٹھوکروں میں کُچلا جا چکا ہوتا۔
سو میاں علی محمد! ہاتھ جوڑ کر میں گنہگار درخواست کرتی ہوں کہ للہ اس عظیم دین کو کم عمر بچی کی شادی سے نتھی نہ کرو۔
صرف سورۃ طلاق کی آیت 4 میں طلاق کے بعد عدت کے حوالے سے ان بیویوں کا ذکر ہے، جنہیں اب حیض کی امید نہیں رہی، اور وہ جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو ۔۔۔۔۔
جنہیں حیض کی امید نہیں رہی، انہیں چھوڑ کر ہماری سوئی ان بیویوں پر پھنس گئی جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو۔
یہ بات کس تناظر میں کہی جارہی ہے اور اس ہدایت کی وسعت کیا ہے اور زمانوں کے کن کن حوادث و پھیلاؤ کی بنیاد پر یہ ہدایت جاری کی جا رہی ہے، اس سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم دور بین لگا کر کمسن بچیوں کے پیچھے پڑ گئے!
ورنہ دیکھو کہ قرآن میں ہی اس معاملے پر کتنی گہری احتیاط برتی گئی ہے کہ صرف اس جگہ عدت جیسے ایک نکتے پر نابالغ بیوی کا ذکر آیا ہے کہ اگر کہیں کسی کے پاس ایسی بچی موجود ہو!
ورنہ جہاں جہاں قرآن نے عورت کے معالات پر بات کی ہے، واضع طور پر دکھتا ہے کہ ذہنی طور پر بالغ عورت کی بات ہورہی ہے۔
خود سورۃ طلاق میں طلاق یافتہ عورت کو دورانِ عدت جو عزت و احترام اور حقوق دینے کی سابقہ شوہر کو ہدایت کی گئی ہے اس حکم سے بھی کسی کو دلچسپی نہیں۔
بس کتابیں سیاہ ہوگئیں نابالغ بچی کے مختصر اور انتہائی محتاط ذکر پر!
اللہ معاف کرے،
اللہ کے کلام کو اپنے مطلب کے لیے ہم نے کس کس طرح نہ استعمال کیا ہے!
اوپر سے ظلم کی انتہا یہ کہ عدت سے متعلق قرآن کے اس حکم سے اپنا مقصد نکالنے کے لیے نبیِ کریمﷺ کی زوجہ مطہرہ کو کمسن بچی کی شادی کا سرٹیفکیٹ بناکر انتہائی بے حیائی کے ساتھ مسلسل زیر بحث لاتے رہے ہیں!
حیاتِ طیبہ و بیانِ طیبہ کا معاملہ تو اتنا حساس و نازک ہے میاں علی محمد! کہ حضرت عباس رضی الله عنه جو نبی کریمﷺ کے چچا اور بیحد قریبی ساتھی تھے اور عمر میں صرف تین سال بڑے تھے۔ نبی کریمﷺ کے بعد 21 سال تک حیات رہے۔ 84/85 سال کی عمر میں 32 ہجری میں وفات پائی۔
ان سے جب حیاتِ طیبہ سے منسوب کوئی بیان یا واقعہ پوچھا جاتا تو وہ رو پڑتے۔ پریشان ہوجاتے۔ بیحد محتاط ہوجاتے۔ روتے ہوئے فرماتے کہ پتہ نہیں ایسے کہا تھا یا ویسے کہا تھا! شاید یوں کہا تھا! شاید یوں نہیں یوں کہا تھا!
یہ ہے وہ احتیاط حیاتِ طیبہ اور بیانِ طیبہ کے بارے میں کہ حقیقی چچا کی زبان پریشان ہوجائے کہ کہیں الفاظ کی خطا نہ ہوجائے مجھ سے ذاتِ عظیم کے بارے میں!
اور ہم مسلمانوں کا حال یہ ہے میاں علی محمد! کہ لگے ہوئے ہیں صدیوں سے نبیﷺ کی ایک زوجہِ مطہرہ کی عمر کا تعین کرنے میں!
الامان و الحفیظ!
اللہ معاف کرے۔
مسلمانوں نے کتابوں کے پہاڑ لکھ لکھ ڈالے اس ایک بحث پر، صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ کم عمر بچی کو نکاح میں لانا جائز ہے!؟
جن علماء و محققین نے 6 اور 16 کے ہندسوں کو حقائق کی بنیاد پر پرکھا اور کم عمری کی تردید کی ان کی آواز نقار خانے کے شور میں ہمیشہ دبا دی گئی۔
حالانکہ یہ تو نبی کریمﷺ کی وہ زوجہ مطہرہ ہیں جن کی زندگی میں جب بعض مسلمانوں نے ان کے لیے گستاخ زبان استعمال کی تو براہِ راست اللہ کی غیظ و غضب بھری آیات کا نزول ہوگیا۔
اُف! علی محمد! کبھی کرسی کے گورکھ دھندوں سے فرصت ملے تو گہری تنہائی میں بیٹھ کر سورۃِ نور کا مطالعہ کرنا۔
رواں رواں لرز اٹھتا ہے اللہ کا غیظ و غضب اس بات پر دیکھ کر کہ بعض مسلمان مردوں اور عورتوں نے ان سیّدہ مطہرہ کی شان کے خلاف اپنی گستاخ زبان کھولی ہی کیوں؟
اتنا جلال ہے ان آیات میں علی محمد کہ مسلمان اپنی زبان پر نبیِ کریمﷺ کی اس محبوب ہستی کا نام تک لاتے ہوئے زباں پتھر تلے رکھ دے اپنی!
آہ ۔۔۔۔
صد افسوس کہ نبیﷺ کی زوجہ مطہرہ کی عمر کا بہانہ بنا کر ہم اپنے نفس کے لیے دلائل دیتے ہیں!
ہمارے منہ میں خاک کہ اللہ کے محبوب ترین پیغمبرﷺ کی خلوَتوں میں جھانکتے ہیں اور کم عمر بچیوں کی شادیوں کی مثال بناتے ہیں!
ارے میاں علی محمد!
بس اتنا کہوں گی خود کو بھی اور تمہیں بھی کہ کچھ تو خدا کا خوف کرو۔
کچھ تو نبی کریمﷺ سے حیا کرو۔