فرخ منظور

لائبریرین
غزل

کنارِ جُو جو انہیں خواہشِ شراب ہوئی
تو سرو سیخ ہوا، فاختہ کباب ہوئی

عیاں جو یار کے دانتوں کی آب و تاب ہوئی
غریقِ سیلِ فنا موتیوں کی آب ہوئی

فراقِ یار میں چشم اس قدر پُر آب ہوئی
طنابِ عمر ہماری رگِ سحاب ہوئی

نہیں ثبات کسی شے کو دارِ فانی میں
ایدھر بنی ہے عمارت اُدھر خراب ہوئی

وہ رند ہوں میں کنارے جو آب مے سے گیا
زبانِ ماہی دریائے اضطراب ہوئی

عذابِ حشر کہاں، پُرسشِ گناہ کہاں
ذرا جو مہر تری اے فلک جناب ہوئی

بیاضِ صبح ہوا اپنا نامۂ اعمال
شعاعِ مہرِ درخشاں مدِ حساب ہوئی

لحد میں تڑپوں گا میں بادہ کش قیامت تک
جو لوحِ قبر نہ خشتِ خُمِ شراب ہوئی

بغیر یار کے گلگشت میں یہ روئے ہم
نسیمِ باغ ہوائے سرِ حباب ہوئی

ہزار شکر یہاں تک تمہیں خدا لایا
مراد آئی، دعا اپنی مستجاب ہوئی

پئے گزگ جو ہوا گرم یار ساقی پر
کبابِ آتشِ مے سے بطِ شراب ہوئی

ہلالِ ابروئے قاتل نے معرکہ مارا
نیامِ شب میں نہاں تیغِ آفتاب ہوئی

اس آفتاب نے جس دن کیا قدم رنجہ
زمین کلبۂ احزاں، فلک جناب ہوئی

خوشی سے ساتھ جو سویا میں اپنے یوسف کے
صدائے قہقہہ مجھ کو نفیر خواب ہوئی

اُٹھا نہ پردۂ غفلت ہماری آنکھوں سے
کبھی نہ دیدِ رخِ یار بے نقاب ہوئی

اندھیری قبر کی دکھلائی جیتے جی مجھ کو
شبِ فراق مری جان کو عذاب ہوئی

دکھائی منزلِ عرفاں طریقِ رنداں نے
قلم شراب کی میلِ رہِ ثواب ہوئی

سوالِ وصل نہ جب یار برق وش نے سنا
ہماری چشم صبا ابر کا جواب ہوئی

(میر وزیر علی صبا لکھنوی)
 

فاتح

لائبریرین
کنارِ جُو جو انہیں خواہشِ شراب ہوئی
تو سرو سیخ ہوا، فاختہ کباب ہوئی
سبحان اللہ سبحان للہ۔ خوب انتخاب ہے قبلہ۔ بہت شکریہ!
 

جیہ

لائبریرین
:)

در اصل مطلعے کو پڑھ کر سوچ رہی تھی کہ فاختہ اتنی بڑی کیسی ہوگئی کہ سرو کے سیخ میں کباب ہوگئی ۔ یا سرو فاختے کے سائز کا ہو کر سیخ بن گیا؟؟
 

جیہ

لائبریرین
بجا فرمایا۔ مگر کوئی حد تو ہوتی ہے نا اس اڑان کی۔ زیادہ اونچی اڑان سے آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے :grin:
 

محمد وارث

لائبریرین
:)

در اصل مطلعے کو پڑھ کر سوچ رہی تھی کہ فاختہ اتنی بڑی کیسی ہوگئی کہ سرو کے سیخ میں کباب ہوگئی ۔ یا سرو فاختے کے سائز کا ہو کر سیخ بن گیا؟؟

چونکہ جُو یعنی پوری ندی ہی شراب اور اسکا جام بن گئی ہے تو باقی چیزیں بھی اسی تناسب سے ہیں :)

شکریہ فرخ صاحب شیئر کرنے کیلیے۔
 

جیلانی

محفلین
غزل :: کنارِ جُو جو انہیں خواہشِ شراب ہوئی ----میر وزیر علی صبا لکھنوی

غزل

کنارِ جُو جو انہیں خواہشِ شراب ہوئی
تو سرو سیخ ہوا، فاختہ کباب ہوئی

عیاں جو یار کے دانتوں کی آب و تاب ہوئی
غریقِ سیلِ فنا موتیوں کی آب ہوئی

فراقِ یار میں چشم اس قدر پُر آب ہوئی
طنابِ عمر ہماری رگِ سحاب ہوئی

نہیں ثبات کسی شے کو دارِ فانی میں
ایدھر بنی ہے عمارت اُدھر خراب ہوئی

وہ رند ہوں میں کنارے جو آب مے سے گیا
زبانِ ماہی دریائے اضطراب ہوئی

عذابِ حشر کہاں، پُرسشِ گناہ کہاں
ذرا جو مہر تری اے فلک جناب ہوئی

بیاضِ صبح ہوا اپنا نامۂ اعمال
شعاعِ مہرِ درخشاں مدِ حساب ہوئی

لحد میں تڑپوں گا میں بادہ کش قیامت تک
جو لوحِ قبر نہ خشتِ خُمِ شراب ہوئی

بغیر یار کے گلگشت میں یہ روئے ہم
نسیمِ باغ ہوائے سرِ حباب ہوئی

ہزار شکر یہاں تک تمہیں خدا لایا
مراد آئی، دعا اپنی مستجاب ہوئی

پئے گزگ جو ہوا گرم یار ساقی پر
کبابِ آتشِ مے سے بطِ شراب ہوئی

ہلالِ ابروئے قاتل نے معرکہ مارا
نیامِ شب میں نہاں تیغِ آفتاب ہوئی

اس آفتاب نے جس دن کیا قدم رنجہ
زمین کلبۂ احزاں، فلک جناب ہوئی

خوشی سے ساتھ جو سویا میں اپنے یوسف کے
صدائے قہقہہ مجھ کو نفیر خواب ہوئی

اُٹھا نہ پردۂ غفلت ہماری آنکھوں سے
کبھی نہ دیدِ رخِ یار بے نقاب ہوئی

اندھیری قبر کی دکھلائی جیتے جی مجھ کو
شبِ فراق مری جان کو عذاب ہوئی

دکھائی منزلِ عرفاں طریقِ رنداں نے
قلم شراب کی میلِ رہِ ثواب ہوئی

سوالِ وصل نہ جب یار برق وش نے سنا
ہماری چشم صبا ابر کا جواب ہوئی

(میر وزیر علی صبا لکھنوی)
 

مغزل

محفلین
شکریہ فرخ بھائی ۔ میرے علم میں نہ تھا ۔
(ایدھر کے حوالے سے میں مخمصے کا شکار ہوں ، کیا یہ طباعت کی غلطی ہے یا اس دور میں یہ لفظ یوں ہی مستعمل تھا)
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ فرخ بھائی ۔ میرے علم میں نہ تھا ۔
(ایدھر کے حوالے سے میں مخمصے کا شکار ہوں ، کیا یہ طباعت کی غلطی ہے یا اس دور میں یہ لفظ یوں ہی مستعمل تھا)

میرے خیال میں اس دور میں یوں ہی مستعمل تھا اور کتاب میں بھی ایسے ہی درج ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
معذرت ۔۔۔۔ میں نے صرف صبا کو دیکھا سخنور کو نہیں۔۔۔ ویسے بھی کلام میں کہیں سخنور نہیں لکھا:)

قبلہ معذرت کی تو کوئی بات نہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ یہ غزل آپ کو بہت پسند آئی۔ بس ایک گذارش ہے کہ اگر غزل پہلے پوسٹ ہو چکی ہو تو اسے دوبارہ پوسٹ نہ کیجیے گا ورنہ اسی طرح وہ پرانے دھاگے میں ضم کر دی جاتی ہے۔
 
Top