کنواری شب کے آنچل پر ستارے رقص کرتے ہیں

ایم اے راجا

محفلین
کنواری شب کے آنچل پر ستارے رقص کرتے ہیں
اس طرحی مصرعہ پر ایک غزل کہنے کی کوشش کی ہے، آپکی آرا و اصلاح کے لیئے عرض ہے۔


پھنسی کشتی بھنور میں دوست سارے رقص کرتے ہیں
سرِ ساحل کھڑے ہوکر سہارے رقص کرتے ہیں

محبت میں یوں بھی اکثر ہوا کرتا ہے اے دلبر
کبھی دل میں ، کبھی جاں میں شرارے رقص کرے ہیں

شبِ ہجراں کی یہ تیرہ شبی میرا مقدر ہے
ترے آنگن میں شب بھر چاند تارے رقص کرتے ہیں

محبت کی یہ بازی بھی عجب بازی ہے اے ہمدم
جو جیتےاس کو وہ بھی اور جو ہارے رقص کرتے ہیں

یہ تیرے حسن کی کوئی کرشمہ سازی ہے شاید
تری پلکوں کے سنگ سنگ سب نظارے رقص کرتے ہیں

ابھی تک یاد ہے چھپ چھپ کے وہ ملنا مجھے جاناں
ابھی تک آنکھ میں سپنے تمہارے رقص کرتے ہیں

دیارِ عشق سے نکلا ہوا کوئی دوانہ ہوں
مجھے تک تک کے مجنوں آج سارے رقص کرتے ہیں

دمکتی ایسے ہے افشاں سیاہ زلفوں میں جوں راجا
“ کنواری شب کے آنچل پر ستارے رقص کرتے ہیں“
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
راجا بھائی پہلے مصرے میں دوست کی جگہ یار کر دیں تو بہتر ہوگا میرے خیال سے
باقی غزل پر کوئی رائے نہیں ہے کیونکہ ابھی پڑھی ہی نہیں ہے اور استاتذہ اکرام کا انتظار واجب ہے ہم پر
 

ایم اے راجا

محفلین
جی سر بالکل آپ یکھ چکے ہیں پی ایم میں لیکن میں نے اس میں کچھ تبیلیاں کی ہیں سو اصلاح درکار ہے۔ شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
پھنسی کشتی بھنور میں دوست سارے رقص کرتے ہیں
سرِ ساحل کھڑے ہوکر سہارے رقص کرتے ہیں
//وہی بات جو لکھ چکا ہوں۔ میں مطمئن نہیں کہ سب مصیبت میں رقص کرتے ہیں۔۔ دوست اور سہارے سبھی!!

محبت میں یوں بھی اکثر ہوا کرتا ہے اے دلبر
کبھی دل میں ، کبھی جاں میں شرارے رقص کرے ہیں
//وہی پرانی رائے دیکھ لو۔

شبِ ہجراں کی یہ تیرہ شبی میرا مقدر ہے
ترے آنگن میں شب بھر چاند تارے رقص کرتے ہیں
//درست، یہی پچھلا کومنٹ بھی تھا۔

محبت کی یہ بازی بھی عجب بازی ہے اے ہمدم
جو جیتےاس کو وہ بھی اور جو ہارے رقص کرتے ہیں
//پچھلی بات ’ //درست، اگرچہ رقص کرنے کی تاویل نہیں۔‘

یہ تیرے حسن کی کوئی کرشمہ سازی ہے شاید
تری پلکوں کے سنگ سنگ سب نظارے رقص کرتے ہیں
//وہی پرانی بات

ابھی تک یاد ہے چھپ چھپ کے وہ ملنا مجھے جاناں
ابھی تک آنکھ میں سپنے تمہارے رقص کرتے ہیں
//یہ شاید نیا شعر ہے۔۔ اور درست ہے۔

دیارِ عشق سے نکلا ہوا کوئی دوانہ ہوں
مجھے تک تک کے مجنوں آج سارے رقص کرتے ہیں
//پچھلا کومنٹ دیکھو۔ ’دیار" کی تبدیلی کے باوجود ایک اور اشارہ کیا ہے۔

دمکتی ایسے ہے افشاں سیاہ زلفوں میں جوں راجا
“ کنواری شب کے آنچل پر ستارے رقص کرتے ہیں“
//پہلا مصرع اب بھی اصلاح طلب ہے۔روانی بھی کم ہے اور ’سیہ‘ زلفون کا ‘ وزن ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
سر کیا سنگ کی نوں غنہ گرانا درست نہیں

یا پھر یو ں کردیا جائے مصرعہ

تری پلکوں کی جنبش پر نظارے رقص کرتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
حروف علت۔۔ الف واؤ اور یا کے علاوہ کوئی بھی حرف نہیں گرایا جاتا۔ نون غنہ کیونکہ الگ حرف نہیں ہوتا، صرف ایک شکل یا آواز ہوتی ہے، اس کو تقطیع میں ہی شامل نہیں کرتے۔ یا کچھ مخلوط حروف کے ہندی الفاظ ایسے ہوتے ہیں، جہاں ہندی میں ایک ہی حرف ہوتا ہے، اگرچہ اردو میں دو حروف لکھے جاتے ہیں، ھیسے ’پریم‘ اس میں بھی ’ر‘ تقطیع میں نہیں گنا جاتا۔ اسی طرح بھ، پھ، کھ وغیرہ مخلوط حروف ہیں، اگر چہ اردو میں دو حروف سے لکھتے ہیں، لیکن ان کی بھی آواز ایک ہی ہوتی ہے، اس لئے ایک ہی حرف گنا جاتا ہے، دوسرے کی تقطیع نہیں ہوتی۔ (اور جس کی تقطیع نہیں ہوتی، اس کو یہ نہیں کہتے کہ اس حرف کا اسقاط ہو رہا ہے)۔
’سنگ‘ میں نون غنہ نہیں نون ساکن ہے۔ یہ ’فَعل‘ ہی ہے، بند، درد کی طرح۔
 

ایم اے راجا

محفلین
سر اسی زمین، قافیہ اور ردیف میں ایک نعتیہ شعر بھی ہوا ہے، کیا اس غزل میں شامل کیا جا سکتا ہے، یا یہ درست نہیں۔

ہوئی کس کی یہ آمد ہے سرِ عرشِ بریں دیکھو
کہ لطفِ لمس سے چاروں کنارے رقص کرتے ہیں

کسی دوست نے اعتراض کیا ہیکہ غزل میں نعتیہ یا حمدیہ شعر شام کرنا آجکل مستحسن نہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
کوئی حرج نہیں سمجھتا میں، لیکن اس مخصوص شعر میں رواروی میں کوئی پڑھے تو محبوب کی ہی بات سمجھ سکتا ہے، اس لئے غلط فہمی ممکن ہے۔ شعر میں کہیں نبیؐ کا لفظ آ جائے تو بات واضح ہو سکتی ہے۔ (لیکن شعر کا حسن چلا جاتا ہے جو "کس کی آمد‘ میں ہی ممکن ہے)۔ کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ یہ نعت کا شعر ہو تو بہت اچھا ہے، غزل میں شامل کرنے میں یہی قباحت ہے کہ کوئی غور سے نہ پڑھے تو غلط فہمی کا شکار ہو سکتا ہے۔
 
Top