طارق شاہ
محفلین
غزل
تیرِ نظر چلاتے ہُوئے مُسکرا بھی دے
آمادہ قتل پر ہے تو، بجلی گِرا بھی دے
رُخ سے نقاب اُٹھا کے ، کرِشمہ دِکھا بھی دے
سُورج کو چاند، چاند کو سُورج بَنا بھی دے
دامن سے آکے مُجھ کو اے قاتِل ہَوا بھی دے
جِس نے کِیا ہے خُون، وہی خُوں بہا بھی دے
منزِل ہے تیری، حدِّ تعیُّن سے ماوراء
دَیر و حَرَم کے نقش کو، دِل سے مِٹا بھی دے
ہر سُو سے ، اُس پہ دستِ سِتَم کی ہے مار مار
اللہ مرِیضِ غم کو ، کوئی آسرا بھی دے
سجدے ہیں لاکھ نقشِ کفِ پا کے مُنتظِر
یہ سر نہیں ہے عرش سحؔر، آ جُھکا بھی دے
کنور مُہندر سنگھ بیدی سحؔر