زین بھائی، ہمارے کاشفی بھائی کو ہر جگہ محض نسلی مناقشہ ہی نظر آتا ہے۔
میں نے کاشفی بھائی کی آبادی کے حوالے سے معلومات کو غلط قرار دیا تھا۔ باقی نسلی تضادات اور اس کی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں بھی کمی نہیں آئی۔ ایک عام تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ صوبے میں جاری بلوچ تحریک کو دبانے یا توجہ ہٹانے کے لئے فرقہ وارانہ دہشتگردی کو ہوا دی جارہی ہے ۔
بلوچستان کے ساتھ بلاشبہ زیادتیاں ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں ۔ اس میں وفاق کے ساتھ ساتھ خود صوبے کے سیاستدانوں اور نام نہاد عوامی نمائندوں کا بھی ہاتھ ہے ۔ ہمارے نمائندے بد عنوان ، لٹیرے اور عوام کے ساتھ مخلص نہیں۔ بلوچستان کی موجودہ حکومت کا گزشتہ دو سالوں کا بجٹ ساڑھے تین سو ارب روپے سے زائد تھا لیکن بمشکل 20 ارب روپے بھی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں ہوئے ہوں گے ۔ باقی شہروں کو چھوڑیے کوئٹہ کی سڑکوں کی حالت ایسی ہے کہ ان پر گاڑی چلانا عذاب سے کم نہیں ۔
نئے سال کے پہلے عشرے میں کوئٹہ اور صوبے میں ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک اور ڈھائی سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں لیکن وزیراعلیٰ صاحب سات جنوری سےلندن اور دبئی میں بیٹھے ہیں۔ ویسے بھی ملک میں ہوتے ہوئے وزیراعلیٰ صاحب کم ہی کوئٹہ آتے ہیں۔ اب وزیراعلیٰ کے ترجمان نے بیان جاری کیا ہے کہ وہ علاج کی غرض سے ملک سے باہر ہیں لیکن اندرونی کہانی یہ بتائی جارہی ہے کہ وہ ریکودک منصوبے پر غیر ملکیوں کے ساتھ لین دین کے لیے بیرون ملک موجود ہیں۔
حقوق کی جنگ کی جہاں تک بات ہے بلوچ مسلح تنظیمیں جو بلوچستان کے عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے کی دعوے دار ہیں اپنے مقصد کے حصول سے ہٹ چکی ہیں ۔یہ جنگ اب خود بلوچوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ مستونگ، خضدار، قلات، آواران، خاران، گوادر، تربت اور پنجگور میں خانہ جنگی کی صورتحال ہے ۔ بلوچ بلوچ کو مار رہا ہے ۔ ریاست اورمسلح تنظیموں کی جنگ نے صوبے کی تعلیم، معیشت ، سیاحت ، تجارت اور ہر شعبے کو متاثر کیا ہے ۔ جامعہ بلوچستان کے پرو وائس چانسلر اور ایک خاتون پروفیسر سمیت کئی اساتذہ کو قتل کیا گیا جس کے بعد درجنوں پی ایچ ڈی اساتذہ بلوچستان چھوڑ گئے اب جامعہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ نہیں مل رہے ۔ بلوچ علاقوں میں درجنوں سکول بند ہیں،وہاں اساتذہ نہیں مل رہے ۔ حتیٰ کہ پنجگور کا ایک دوست بتارہا تھا کہ وہاں حجام کی ایک دکان اب کھلی نہیں ملتی ۔ مقامی حجام ملتے نہیں اور غیر بلوچ مزدور شہر چھوڑ گئے ہیں ، شہر کے لوگوں کو حجامت کے لیے بھی دوسرے شہروں کو جانا پڑتا ہے ۔ اسی طرح دو ہزار بارہ کے آخری مہینوں میں خضدار شہر دو بلوچ مسلح تنظیموں کی جنگ کی وجہ سے تیس سے چالیس دن تک مسلسل بند رہا مستونگ شہر میں ایک ایک ہفتے تک بھی ہڑتال رہتی ہے ۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلح تنظیموں نے سب سے زیادہ نقصان اپنے بلوچوں کو پہنچایا ہے انہیں ہر شعبے میں پچاس سال پیچھے دھکیل دیا ہے