کوئٹہ۔ تین بم دھماکے ، 68 افراد ہلاک ، 200 زخمی

میر انیس

لائبریرین
آپ کی باتوں سے متفق ہوں۔۔حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیئے شکریہ۔۔جزاک اللہ۔
آپ کی باتیں صحیح لگتی ہیں اور معتبر ہیں۔۔ شاید مجھے غلط باتیں معلوم تھیں۔ جزاک اللہ معلومات باہم پہنچانے کے لیئے۔۔
کاشفی مجھ کو آپ کی یہ بات ہی سب سے اچھی لگتی ہے کہ بحث برائے بحث کے بجائے آپ اگر دوسرے کی باتیں صحیح ہوں تو فورا مان لیتے ہیں ۔ ورنہ محفل میں یہ جذبہ میں نے بہت کم لوگوں میں دیکھا ہے ۔ انکو دل سے لگتا بھی ہے کہ ہم غلط ہیں لاجواب بھی ہوجاتے ہیں پر اپنی بات صحیح ہر صورت میں ثابت کرنے کیلئے بحث کرتے جاتے ہیں۔ اگر جواب نہ بن پڑ رہا ہو توکئی دن تک اسکا جواب تلاش کرتے رہیں گے اور ایک عرصے بعد پھر اسی بحث میں پڑ جائیں گے جسکا نظارا ابھی میں نے ایک دھاگے میں دیکھا تھا۔ایک صاحب نے نایاب سے بحث شروع کی کئی دن تک صحیح جواب نہ دے پائے پر اپنی غلطی ماننے کو تیار نہ ہوئے۔
اللہ آپ کے علم میں ایمان میں جزبے میں اور اسی حوصلے میں اضافہ کرے
 

زین

لائبریرین
زین بھیا اگر آپ ہلاک کے بجائے لفظ شہید لکھتے اور بہتر ہوتا۔
ان شہدا میں ایس پی سمیت پولیس کے اہلکار اور ایدھی کے اہلکار بھی ہیں۔۔۔ ۔۔ جو پہلے دھماکے کے بعد جائے وقوعہ پر موجود تھے۔۔ اتنے میں دوسرا دھماکہ ہوا۔
میرے تین دوست بھی ان دھماکوں کا نشانہ بنے ہیں۔ کوئی شہید ، کوئی ہلاک لکھ رہا ہے ۔ چینل والے اپنے دو نمائندوں کو شہید اور باقیوں کو ہلاک لکھ رہا ہے ۔اب جو بھی کہا اور لکھا جائے ، ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ ان کے درجات کا تعین اللہ کی ذات نے ہی کرنا ہے ۔
 

زین

لائبریرین
نیٹ پر میں نے بلوچ لبریشن آرمی یا فرنٹ کا پڑھا ہے
دس جنوری کو کوئٹہ شہر میں تین دھماکے ہوئے ۔ پہلا دھماکا شہر کے وسط میں پونے چار بجے باچا خان چوک (میزان چوک) پر ہوا۔ اس دھماکے میں بارہ افراد ہلاک اور پچاس سے زائد زخمی ہوئے۔اس دھماکے کا نشانہ ایف سی کے ساتھ ساتھ عام شہری تھے اور اس کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی سے الگ ہونےوالے دھڑے بلوچ یونائیٹڈ آرمی(یو بی اے) نے قبول کی۔ کوئٹہ شہر میں نئے سال کے پہلے عشرے کے دوران نصف درجن کے قریب دھماکے ہوئے ہیں جن میں وزیراعلیٰ کی رہائشگاہ کے قریب دھماکا بھی شامل ہے ان تمام دھماکوں کی ذمہ داری اسی تنظیم نے قبول کی۔
پولیس کہہ رہی ہے کہ اس تنظیم کو بھاری مقدار میں دھماکا خیز مواد ملا ہےاس لیے دھماکوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔

دس جنوری کو رات نو بجے کے قریب دوسرا دھماکا ہزارہ قبیلے کے اکثریتی علاقے علمدار روڈ پر ایک سنوکر کلب کے اندر ہوا ۔ تیسرا دھماکا پانچ سے دس منٹ کے وقفے سے اسی سنوکر کلب کے سامنے ایک ایمبولینس گاڑی میں اس وقت ہوا جب وہاں پولیس، میڈیا اور امدادی کارکنوں سمیت تین چار سو کے قریب لوگ وہاں جمع ہوئے ۔یعنی ان دھماکوں کا نشانہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ ساتھ میڈیا، پولیس اور امدادی کارکن بھی تھے ۔ علمدار روڈ پر ان دونوں دھماکوں کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے ۔
لشکر جھنگوی اور اسکی ذیلی تنظیمیں 2003ء سے ہزارہ قبیلے کے افراد جو مسلکا شیعہ ہیں کو نشانہ بنارہی ہیں۔ صرف دو ہزار آٹھ سے دو ہزار بارہ تک فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں چار سو افراد سے زائد نشانہ بن چکے ہیں ۔ یہ اعداد و شمار محکمہ داخلہ بلوچستان کے ہیں جبکہ شیعہ تنظیمیں یہ تعداد سات سو سے زائد بتاتی ہیں۔
 

میر انیس

لائبریرین
میرے تین دوست بھی ان دھماکوں کا نشانہ بنے ہیں۔ کوئی شہید ، کوئی ہلاک لکھ رہا ہے ۔ چینل والے اپنے دو نمائندوں کو شہید اور باقیوں کو ہلاک لکھ رہا ہے ۔اب جو بھی کہا اور لکھا جائے ، ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ ان کے درجات کا تعین اللہ کی ذات نے ہی کرنا ہے ۔
زین اتفاق کی بات ہے کہ ابھی میں یہی نوٹ کر رہا تھا سماء پر۔جب تک ہمارے دلوں سے امتیاز ختم نہیں ہوگا ہم ایک دوسرے کے قریب کیسے آئیں گے کہ اپنے لوگوں کو تو شہید کہا جائے اور بالکل اسی جگہ جو دوسرے لوگ اسی طرح کا نشانہ بنیں انکو جاں بحق کہا جاتا ہے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
آج کا دن کوئٹہ کے باسیوں کے لیے بہت بدنصیب اور برا دن تھا۔ آج شہر میں تین بم دھماکوں میں 68 زندگیوں کے چراغ گل کردیئے گئے ، 200 سے زائد معذور ہوگئے

ہمارا ایک ساتھی فوٹو گرافر جو میرا ہمعمر تھا لقمہ اجل بن ہے ۔ تین زخمی دو لاپتہ ہیں جن میں سے سماء ٹی وی کے کیمرہ مین عمران شیخ کا کہہ رہے ہیں وہ بھی جاں بحق ہوچکے ہیں لیکن اب تک ان کی لاش نہیں ملی ہے ۔

عمران شیخ سے آج صبح ہی میری ملاقات ہوئی تھی۔ دو دن پہلے پندرہ دنوں کی چھٹیوں کے بعد ڈیوٹی جوائن کی تھی۔

بہت مشکل سے یہ چند جملے لکھے ہیں ، مقصد اپنی خیریت سے آگاہ کرنا ہے ۔
جب دو دھماکے ہوئے تو اس وقت ٹی وی پر بتا رہے تھے کہ دو دھماکے ہوئے ہیں اور اسی دوران ٹی وی چینل (کون سا چینل تھا یہ پتہ نہیں) والے اپنے رپوٹر سے بات کر رہے تھے کہ اچانک رابطہ ختم ہو گیا اور کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ ایک اور دھماکہ ہوا ہے۔ شاہد اس رپورٹر کی کوریج عمران شیخ ہی کر رہے ہوں
اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے آمین
 

زین

لائبریرین
آپ جو معلومات دینا چاہتے ہیں وہ دے دیجئے اگر حقیقت پر مبنی ہوئی تو تسلیم کرلونگا ادروائز دن دن اور رات رات۔
میں نے یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ بلوچ تنظیم نے یہ حملے کروائے ہیں۔۔ خیر ۔۔:)
میں تو انہی باتوں پر یقین کروں گا جو بلوچ قوم کرتی ہے۔۔ اور یہاں یو اے ای میں میرے کافی سارے دوست بلوچ ہیں اور ان کی باتیں پانچ سو فیصد ٹھیک ہیں۔۔
میں نے وہی لکھا ہے جو انہوں بتایا ہے اور سچ بتایا ہے۔۔
بلوچستان کی آبادی کے حوالے سے آپ کی معلومات غلط ہیں ۔
بلوچستان میں بلوچ اور پشتون دو بڑی اقوام آباد ہیں ۔ کوئٹہ اور صوبے کے شمالی علاقوں میں پشتونوں کی اکثریت ہے ۔

انیس سو اٹھانوے کی مردم شماری کے مطابق

POPULATION BY MOTHER TONGUE

(In percent)
Administrative
Urdu​
Punjabi​
Sindhi​
Pushto​
Balochi​
Saraiki​
Others​

Balochistan
0.97​
2.52​
5.58​
29.64​
54.76​
2.42​
4.11​

Rural​
0.21​
0.43​
5.27​
32.16​
57.55​
1.87​
2.51​

Urban​
3.42​
9.16​
6.57​
21.61​
45.84​
4.16​
9.24​


انیس سو اٹھانوے کی مردم شماری کا بلوچستان کی سب سے بڑی پشتون قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا اس لیے کئی پشتون علاقوں میں مردم شماری ہوئی ہی نہیں ۔ یعنی پشتونوں کی آبادی 98ء کی مردم شماری سے زیادہ ہے ۔ اس طرح دیکھا جائے تو صوبے میں بلوچوں اور پشتونوں کی آبادی کے تناسب میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔
 

میر انیس

لائبریرین
زین بھائی، ہمارے کاشفی بھائی کو ہر جگہ محض نسلی مناقشہ ہی نظر آتا ہے۔
مگر حسان اس میں کچھ حقیقت بھی ہے۔ لیکن یہ جو وجہ بنی ہے دھماکے کی وہ مذہبی منافرت ہے یا کہ لو کہ کہیں ہم کو زبان اور نسل کی بنیاد پر اور کہیں فروعی اختلافات کو ہوا دیکر ہمارے اتحاد کوٹکڑے ٹکڑے کیا جارہا ہے۔ ویسے اسوقت میں ہمارے اتحاد کو کہ کر خود ہی ہنس پڑا
 

حسان خان

لائبریرین
مگر حسان اس میں کچھ حقیقت بھی ہے۔

بھلے حقیقت ہوگی۔ لیکن ہر چیز کو قوم پرستی کے تنگ چشمے سے دیکھنا کون سی دانشمندی ہے؟ کل بھائی صاحب الطاف کے ڈرون حملے کو بھی مہاجر پنجابی تک لے گئے تهی، اور یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ الطاف اور متحدہ پر تنقید مہاجروں سے تعصب رکھنے والے لوگ کر رہے ہیں۔ اب یہ کون سی حقیقت ہے؟ میں اور میرے اطراف کے سب دوست مہاجر ہیں، لیکن کل ہم جی بھر کر الطاف حسین کو گالیاں دے رہے تھے۔
 

طالوت

محفلین
مقام شرم ہے اور پہلی بار نہیں ہے ، مگر وقتی تسلیوں تشفیوں سے کچھ نہ ہو گا ، جو "مائنڈ سیٹ" ہم نے دو سے تین دہائیوں میں بنایا ہے اب وہ جاتے جاتے نصف صدی بھی لے لے تو غنیمت ہے ۔ ساری عوام بالخصوص ہزارہ کمیونٹی جس عذاب کا شکار ہے اس پر قومی پرچم سر نگوں کرنے کی ضرورت ہرگز نہیں ، ہم تو کیڑوں مکوڑوں سے بھی گئے گزرے ہیں ، پرچم سرنگوں کریں بھٹو پر و بے نظیر پر ، تعزیت کی ٹولیاں اتریں تو رائے ونڈ میں اتریں ، نام نہاد نسل کشیوں کے دکھ بانٹنے جائیں تو 90 جائیں ، نسل پرستوں کے منہ دھوئیں ، قوم پرستوں کے تلوے چاٹیں ، عوام تو بس لاشیں دے گی اور انھیں کی لاشوں پر یہ بے حس و غیرت سے عاری ننگ دیں ننگ ملت ننگ وطن شیروانیوں سوٹوں اور دستاروں والے اپنی دکانیں لگائیں گے۔

اسے فرقہ واریت کا نام دیں ، بلوچ انتہا پسندوں کی کارستانی کہیں یا بھارت کے بدلے کہیں یا تینوں باتیں ہی لے لیں ، بلاشبہ عسکری کی یہ بات درست ہے کہ دراصل یہ "انٹیلجنس" کی ناکامی ہے ، ریاست اور اس کے اداروں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کو تحفظ دیں اور ایسے عناصر کی کسی بھی کریہہ حرکت سے پہلے ہی ان کا صفایا کر دیں ۔ باقی جس جس نے ان پر اپنی اپنی جو جو دکان سجانی ہے وہ سجاتا جائے کیونکہ جب تک تیرا میرا کے اس جنجال میں پھنسے رہے تو انجام اور بھی بھیانک ہو گا ، کسی کا آج تو کسی کا کل۔

خدا ان سب پر ایسی ہی زمین تنگ کرے جیسی انھوں نے اس کے بندوں پر تنگ کر رکھی ہے۔
 

صرف علی

محفلین
السلام علیکم
ہمم علمدار روڈ کے دھماکے لشکر جھنگوی نے قبول کیے ہیں ۔یہ وہابی نظریات کی تنظیم اپنے علاوہ سب کو کافر کہتے ہیں ۔
والسلام
 
ہمم علمدار روڈ کے دھماکے لشکر جھنگوی نے قبول کیے ہیں ۔یہ وہابی نظریات کی تنظیم اپنے علاوہ سب کو کافر کہتے ہیں ۔
والسلام
سلفی یا اہل حدیث علماء نے کبھی شیعہ کی تکفیر نہیں کی نہ انہیں واجب القتل قرار دیا ، نہ ہی بم دھماکوں کو کبھی جائز قرار دیا ۔ آپ کی اس غیر ذمہ دارانہ گفتگو سے مزید نفرت تو پھیل سکتی ہے دین و وطن کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔ خدارا اتنے سانحات کے بعد تو اختلافات کے ساتھ مل کر جینے کا قرینہ سیکھنے کی بات کریں ۔
 

زین

لائبریرین
جب دو دھماکے ہوئے تو اس وقت ٹی وی پر بتا رہے تھے کہ دو دھماکے ہوئے ہیں اور اسی دوران ٹی وی چینل (کون سا چینل تھا یہ پتہ نہیں) والے اپنے رپوٹر سے بات کر رہے تھے کہ اچانک رابطہ ختم ہو گیا اور کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ ایک اور دھماکہ ہوا ہے۔ شاہد اس رپورٹر کی کوریج عمران شیخ ہی کر رہے ہوں
اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے آمین
آپ شاید جیو نیوز کے رپورٹر سلمان اشرف کی بات کررہے ہیں۔ کیونکہ سماء کے بعد جیو نیوز کی سیٹلائٹ گاڑی پہنچی تھیں۔ سماء کے رپورٹر سیف الرحمان اور کیمرہ مین محمد عمران شیخ گاڑی سے اتر گئے تھے اور دھماکے کی جگہ سے سات سے آٹھ فٹ کے فاصلے پر تھے اس لیے دونوں زد میں آگئے۔ (ان کی لاشیں ٹکروں میں ملیں، چہرے ناقابل شناخت تھے ، سیف بھائی کو ہاتھ میں پہنی انگوٹھی اور عمران بھائی کو ان کے دوست نے مفلر سے پہچانا ) سماء کے ڈرائیور اور سیٹلائٹ انجینئر گاڑی میں تھے اس لیے معمولی زخمی ہوئے ۔ سلمان بھائی کو ان کے ڈرائیور نے دھماکے سے چند سیکنڈ پہلے گاڑی سے اترنے سے روک دیا تھا اس لیے ان کی بھی جان بچ گئی۔ اس سے پہلے وہ دو ہزار دس کے میزان چوک دھماکے میں زخمی ہوئے تھے ۔
 

زین

لائبریرین
زین بھائی، ہمارے کاشفی بھائی کو ہر جگہ محض نسلی مناقشہ ہی نظر آتا ہے۔
میں نے کاشفی بھائی کی آبادی کے حوالے سے معلومات کو غلط قرار دیا تھا۔ باقی نسلی تضادات اور اس کی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں بھی کمی نہیں آئی۔ ایک عام تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ صوبے میں جاری بلوچ تحریک کو دبانے یا توجہ ہٹانے کے لئے فرقہ وارانہ دہشتگردی کو ہوا دی جارہی ہے ۔​
بلوچستان کے ساتھ بلاشبہ زیادتیاں ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں ۔ اس میں وفاق کے ساتھ ساتھ خود صوبے کے سیاستدانوں اور نام نہاد عوامی نمائندوں کا بھی ہاتھ ہے ۔ ہمارے نمائندے بد عنوان ، لٹیرے اور عوام کے ساتھ مخلص نہیں۔ بلوچستان کی موجودہ حکومت کا گزشتہ دو سالوں کا بجٹ ساڑھے تین سو ارب روپے سے زائد تھا لیکن بمشکل 20 ارب روپے بھی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں ہوئے ہوں گے ۔ باقی شہروں کو چھوڑیے کوئٹہ کی سڑکوں کی حالت ایسی ہے کہ ان پر گاڑی چلانا عذاب سے کم نہیں ۔
نئے سال کے پہلے عشرے میں کوئٹہ اور صوبے میں ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک اور ڈھائی سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں لیکن وزیراعلیٰ صاحب سات جنوری سےلندن اور دبئی میں بیٹھے ہیں۔ ویسے بھی ملک میں ہوتے ہوئے وزیراعلیٰ صاحب کم ہی کوئٹہ آتے ہیں۔ اب وزیراعلیٰ کے ترجمان نے بیان جاری کیا ہے کہ وہ علاج کی غرض سے ملک سے باہر ہیں لیکن اندرونی کہانی یہ بتائی جارہی ہے کہ وہ ریکودک منصوبے پر غیر ملکیوں کے ساتھ لین دین کے لیے بیرون ملک موجود ہیں۔​
حقوق کی جنگ کی جہاں تک بات ہے بلوچ مسلح تنظیمیں جو بلوچستان کے عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے کی دعوے دار ہیں اپنے مقصد کے حصول سے ہٹ چکی ہیں ۔یہ جنگ اب خود بلوچوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ مستونگ، خضدار، قلات، آواران، خاران، گوادر، تربت اور پنجگور میں خانہ جنگی کی صورتحال ہے ۔ بلوچ بلوچ کو مار رہا ہے ۔ ریاست اورمسلح تنظیموں کی جنگ نے صوبے کی تعلیم، معیشت ، سیاحت ، تجارت اور ہر شعبے کو متاثر کیا ہے ۔ جامعہ بلوچستان کے پرو وائس چانسلر اور ایک خاتون پروفیسر سمیت کئی اساتذہ کو قتل کیا گیا جس کے بعد درجنوں پی ایچ ڈی اساتذہ بلوچستان چھوڑ گئے اب جامعہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ نہیں مل رہے ۔ بلوچ علاقوں میں درجنوں سکول بند ہیں،وہاں اساتذہ نہیں مل رہے ۔ حتیٰ کہ پنجگور کا ایک دوست بتارہا تھا کہ وہاں حجام کی ایک دکان اب کھلی نہیں ملتی ۔ مقامی حجام ملتے نہیں اور غیر بلوچ مزدور شہر چھوڑ گئے ہیں ، شہر کے لوگوں کو حجامت کے لیے بھی دوسرے شہروں کو جانا پڑتا ہے ۔ اسی طرح دو ہزار بارہ کے آخری مہینوں میں خضدار شہر دو بلوچ مسلح تنظیموں کی جنگ کی وجہ سے تیس سے چالیس دن تک مسلسل بند رہا مستونگ شہر میں ایک ایک ہفتے تک بھی ہڑتال رہتی ہے ۔​
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلح تنظیموں نے سب سے زیادہ نقصان اپنے بلوچوں کو پہنچایا ہے انہیں ہر شعبے میں پچاس سال پیچھے دھکیل دیا ہے​
 
یہ موضوع ختم

مجھے کوئٹہ میں لوگوں کے قتل ہونے کا بہت افسوس ہے۔ تمام لوگوں کا۔ خصوصا ہزارہ برادری کی نسل کشی کا
اللہ کرے یہ قتل و غارت گری ہمارے ملک سے جلد ختم ہو
 

عسکری

معطل
کوئٹہ کو فوج کے حوالے کیا جا رہا ہے ۔ 12ویں کور کے کور کمانڈر لیفٹینٹ جنرل عالم خٹک کو آرڈر ملتے ہی 33 ویں یا 41 انفنٹری ڈویزن کے دستے شہر کا کنٹرول منٹوں میں سنبھال لیں گے ۔ لگتا ہے عوام نے جی بھر کے مزہ چکھ لیا جمہوریت کا ۔
 

عسکری

معطل
ایکپریس نیوز - کوئٹہ کو فوج کے حوالے کر دیا گیا ۔

اب دیکھیں جی ایچ کیو سے کب آرڈر کوئٹہ پہنچتا ہے ۔

ویسے یہ بندہ کم از کم اس شرابی مسخرے رئیسانی سے ہزار گنا بہتر سیکیورٹی کو دیکھے اور اہمیت دے گا
normal.jpg
 
Top