زین
لائبریرین
کوئٹہ میں انسانی سمگلنگ کا المناک واقعہ‘ غیر قانونی طور پر افغانستان سے ایران جانے کی کوشش کے دوران کنٹینر میں دم گھنٹے کے باعث 50افراد جاں بحق جبکہ 60 بے ہوش ہوگئے جن میں اکثریت کی حالت تشویشناک ہے ‘حکومت نے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیدیا جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے واقعہ پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد کردی ہے ۔
ہفتہ کے روز کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزار گنجی میں واقع ٹرک اڈے میں نامعلوم افراد ایک کنٹینر نمبرlca-045کھڑا کرکے فرار ہوگئے ۔ اس دوران کنٹینر سے آوازیں سن کر مقامی دکاندار اور لوگ جمع ہوگئے ،کنٹینر کا دروازہ کھولنے پر معلوم ہوا کہ وہاں پر ایک بڑی تعداد میں لوگ مردہ اور بے ہوشی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے ۔مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لاشیں اور بے ہوش افراد کو کنٹینر سے نکالا اور انہیں گاڑیوں، ٹرکوں اور ایمبولینسوں کے ذریعے بولان میڈیکل کمپلیکس اور سول ہسپتال پہنچایا ۔ دونوں ہسپتال میں فوری طور پر ایمر جنسی نافذ کردی گئی ، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے جائے وقوعہ اور ہسپتال پہنچ گئے ۔پولیس کے مطابق کنٹینر میں100سے زائد افراد موجود تھے جو آکسیجن نہ ملنے کے باعث دم گھٹ کر جاں بحق اور بے ہوش ہوگئے ۔ پولیس کے مطابق اکثر افراد کنٹینر میں ہی مردہ حالت میں پائے گئے تھے جبکہ بعض راستے اور ہسپتال پہنچنے کے بعد دم توڑ دیا ۔ جاں بحق اور بے ہوش ہونے والے افراد کا تعلق افغانستان کے شمالی صوبوں سے بتایا گیا ہے جو محنت مزدوری کی خاطر افغانستان سے پاکستان کے راستے ایران جارہے تھے ۔واقعہ میں جاں بحق ہونےو الے ایک شخص کے بارہ سالہ بیٹے شمس الدین نے بتایا کہ ان کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیکا سے ہیںجبکہ کنٹینر میںموجود افراد کی زبان پشتو اور فارسی ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ کنٹینر میں دس سے بارہ سال کے پانچ بچے بھی موجود تھے۔ کنٹینر میں سفر کرنے والے ایک اور شخص امیرافغان نے بتایا کہ ان کا تعلق افغانستان کے شمالی علاقوں سے ہیں اور وہ تاجک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ محنت مزدوری کی خاطر اپنے ساتھیوں کے ساتھ پاک افغان سرحد سپین بولدک پر آئے تھے جہاں پر ایجنٹ نے کنٹینر مالک سے کرایہ اور دیگر معاملات طے کرکے ہمیں کنٹینر میں سوار کرایا۔ انہوں نے کہا کہ کنٹینر مالک نے ہدایت کی کہ راستے میں کسی قسم کا شور یا ایسی حرکت نہ کریں جس سے یہ ظاہر ہو کہ کنٹینر میں کوئی موجود ہیں ورنہ راستے میں سیکورٹی فورسز انہیں اتار کر جیلوں میں بند کرینگے اور ان سے پیسے بھی وصول کرینگے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھیوں میں بہت کم لوگوں کے ساتھ پانی کی بوتلیں موجود تھیں ۔پانی ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ہی ختم ہوگیا ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ چمن سے کوئٹہ تک صرف ایک گھنٹے کا راستہ ہے لیکن ہمارا یہ صرف سات گھنٹوں سے زائد وقت میں طے ہوا ۔ انہوں نے بتایا کہ دو گھنٹے کے سفر کے بعد کنٹینر میں موجود ہمارے ساتھیوں کی حالت غیر ہونا شروع ہوگئی ۔ انہوں نے بتایا کہ فورسز کی گرفتاری کے ڈر سے ہم خاموش رہے لیکن جب صورتحال زیادہ خراب ہوگئی تو ہم نے کنٹینر کو بجانا شروع کردیا اور بچائو کے لئے آوازیں لگائیں کہ اس دوران لوگوں نے دروازہ کھولا اور ہمیں ہسپتال پہنچایا۔ایدھی ذرائع کے مطابق کنٹینر سے 52 لاشیں برآمد ہوئی ہیں ۔ادھر وزیراعلیٰ بلوچستان اور دیگر اعلیٰ حکومتی حکام نے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیدیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایف آئی اے کی ایک خصوصی ٹیم واقعی کی تحقیقات کے لیے مقرر کردی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے انسانی سمگلنگ کے اس واقعہ پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔ عاصمہ جہانگیر، انصار برنی اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے رہنمائوں نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کو حکومتی شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ انہوں نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بلوچستان انسانی سمگلنگ کا حوالے سے سب سے زیادہ متاثرہ ہے اور غیر قانونی سمگلنگ کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
ہفتہ کے روز کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزار گنجی میں واقع ٹرک اڈے میں نامعلوم افراد ایک کنٹینر نمبرlca-045کھڑا کرکے فرار ہوگئے ۔ اس دوران کنٹینر سے آوازیں سن کر مقامی دکاندار اور لوگ جمع ہوگئے ،کنٹینر کا دروازہ کھولنے پر معلوم ہوا کہ وہاں پر ایک بڑی تعداد میں لوگ مردہ اور بے ہوشی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے ۔مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لاشیں اور بے ہوش افراد کو کنٹینر سے نکالا اور انہیں گاڑیوں، ٹرکوں اور ایمبولینسوں کے ذریعے بولان میڈیکل کمپلیکس اور سول ہسپتال پہنچایا ۔ دونوں ہسپتال میں فوری طور پر ایمر جنسی نافذ کردی گئی ، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے جائے وقوعہ اور ہسپتال پہنچ گئے ۔پولیس کے مطابق کنٹینر میں100سے زائد افراد موجود تھے جو آکسیجن نہ ملنے کے باعث دم گھٹ کر جاں بحق اور بے ہوش ہوگئے ۔ پولیس کے مطابق اکثر افراد کنٹینر میں ہی مردہ حالت میں پائے گئے تھے جبکہ بعض راستے اور ہسپتال پہنچنے کے بعد دم توڑ دیا ۔ جاں بحق اور بے ہوش ہونے والے افراد کا تعلق افغانستان کے شمالی صوبوں سے بتایا گیا ہے جو محنت مزدوری کی خاطر افغانستان سے پاکستان کے راستے ایران جارہے تھے ۔واقعہ میں جاں بحق ہونےو الے ایک شخص کے بارہ سالہ بیٹے شمس الدین نے بتایا کہ ان کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیکا سے ہیںجبکہ کنٹینر میںموجود افراد کی زبان پشتو اور فارسی ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ کنٹینر میں دس سے بارہ سال کے پانچ بچے بھی موجود تھے۔ کنٹینر میں سفر کرنے والے ایک اور شخص امیرافغان نے بتایا کہ ان کا تعلق افغانستان کے شمالی علاقوں سے ہیں اور وہ تاجک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ محنت مزدوری کی خاطر اپنے ساتھیوں کے ساتھ پاک افغان سرحد سپین بولدک پر آئے تھے جہاں پر ایجنٹ نے کنٹینر مالک سے کرایہ اور دیگر معاملات طے کرکے ہمیں کنٹینر میں سوار کرایا۔ انہوں نے کہا کہ کنٹینر مالک نے ہدایت کی کہ راستے میں کسی قسم کا شور یا ایسی حرکت نہ کریں جس سے یہ ظاہر ہو کہ کنٹینر میں کوئی موجود ہیں ورنہ راستے میں سیکورٹی فورسز انہیں اتار کر جیلوں میں بند کرینگے اور ان سے پیسے بھی وصول کرینگے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھیوں میں بہت کم لوگوں کے ساتھ پانی کی بوتلیں موجود تھیں ۔پانی ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ہی ختم ہوگیا ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ چمن سے کوئٹہ تک صرف ایک گھنٹے کا راستہ ہے لیکن ہمارا یہ صرف سات گھنٹوں سے زائد وقت میں طے ہوا ۔ انہوں نے بتایا کہ دو گھنٹے کے سفر کے بعد کنٹینر میں موجود ہمارے ساتھیوں کی حالت غیر ہونا شروع ہوگئی ۔ انہوں نے بتایا کہ فورسز کی گرفتاری کے ڈر سے ہم خاموش رہے لیکن جب صورتحال زیادہ خراب ہوگئی تو ہم نے کنٹینر کو بجانا شروع کردیا اور بچائو کے لئے آوازیں لگائیں کہ اس دوران لوگوں نے دروازہ کھولا اور ہمیں ہسپتال پہنچایا۔ایدھی ذرائع کے مطابق کنٹینر سے 52 لاشیں برآمد ہوئی ہیں ۔ادھر وزیراعلیٰ بلوچستان اور دیگر اعلیٰ حکومتی حکام نے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیدیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایف آئی اے کی ایک خصوصی ٹیم واقعی کی تحقیقات کے لیے مقرر کردی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے انسانی سمگلنگ کے اس واقعہ پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔ عاصمہ جہانگیر، انصار برنی اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے رہنمائوں نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کو حکومتی شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ انہوں نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بلوچستان انسانی سمگلنگ کا حوالے سے سب سے زیادہ متاثرہ ہے اور غیر قانونی سمگلنگ کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔