فہیم
لائبریرین
کوئی اہلِ نظر نہیں لگتا
اس لیے معتبر نہیں لگتا
سب دئیے ہم نے خود بجھا ڈالے
اب ہواؤں سے ڈر نہیں لگتا
خود بھی وہ اپنی قدر و قیمت سے
اس قدر بے خبر نہیں لگتا
تب پرندے بھی لوٹ جاتے ہیں
پیڑ پر جب ثمر نہیں لگتا
خوف وہ بام و در کے اندر ہے
جو پسِ بام و در نہیں لگتا
اجنبی اجنبی سے چہرے ہیں
یہ مجھے اپنا گھر نہیں لگتا
لے کے جائے گا عمر، وحشت کا
سلسلہ مختصر نہیں لگتا