کوئی باغباں سے پوچھے !

کوئی باغباں سے پوچھے !

ایک باغباں رات دن محنت کرتا ہے اپنا خون پسینہ ایک کرتا ہے اسکے رات دن اسی فکر میں لگتے ہیں کس طرح سے میرا باغ ایک ایسا مثالی باغ بن جائے کہ آنے والے لوگ اس سے مستفید ہوتے رہیں، باغباں تکالیف اٹھاتا ہے لیکن ہمّت نہیں ہارتا اسکی قوم اسکا قبیلہ اسکی بستی کے لوگ سب اسکی مخالفت کرتے ہیں کوئی مجنون کہتا ہے تو کوئی دیوانہ اور کوئی آسیب زدگی کا الزام دھرتا ہے ......

لیکن باغباں کو پروا نہیں پیٹ پر پتھر باندھنا پڑیں راتوں کی نیند کو قربان کرنا پڑے پیر لہو لہان ہو جائیں سینہ اپنوں کے طعنوں سے چھلنی ہو جائے اسے تو ایک ہی دھن ہے اسکا

"باغ "

رات دن کی محنت طویل مشقت قربانیوں کے بعد وہ خوبصورت باغ تیار ہوتا ہے ، باغ بھی کیا ہے شاہکار ہے یہاں خوش ذائقہ پھل ہیں سرسبز شجر ہیں پھولوں سے لدی کیاریاں ہیں پرندوں کی چہکار ہے درختوں کی پھلوں سے لدی شاخیں زمین کو چومتی ہیں لہلہاتی سبز گھانس چلنے والے کی روح کو سرشار کر دیتی ہے اور باغ کے درمیان بہتی ندی کہ جسکا شیریں اور ٹھنڈا پانی برسوں کے پیاسوں کو سیراب کر دے .....

لوگ نفع اٹھا رہے ہیں اس باغ سے اور باغباں خوش ہے اسکی محنت رنگ لائی وہ خوش ہے مسرور ہے اس نے اپنا کام کامیابی سے سرانجام دیا یہ باغ وراثت ہے اس بستی کے لوگوں کی اور بستی میں آنے والوں کی تا ابد تک آباد رہنے والا یہ باغ نعمت ہے خدا کی جسکی تعمیر کا خیال ڈالا گیا اس باغباں کے دل میں ........

باغباں جانتا ہے اس نے ہمیشہ نہیں رہنا اسلئے اس نے مالیوں کی اک جماعت تیار کی ہے جو جفاکش ہیں وفادار ہیں بےغرض اور بہادر ہیں جنھیں مادی تعیشات کی کوئی ہوس نہیں وہ باغباں کی محبت میں سرشار ہیں جس نے انھیں سکھایا ہے کیسے خدا کی اس نعمت کو سمبھالنا ہے اور آنے والوں کے حوالے کرنا ہے اور وہ مالی بھی کیا مالی ہیں انہوں نے جان مال عزت آبرو کسی چیز کی بھی پروا نہ کی اور ہر طرح کے مصائب اور مشکلات کو جھیلتے ہوے باغ کو قائم رکھا جسکی شان آج بھی اس باغ میں جانے والے دیکھتے ہیں اسکے پھلوں سے قوّت حاصل کرتے ہیں اسکی خوشبو سے سرشار ہوتے ہیں اسکی ندی سے سیراب ہوتے ہیں
ہاں مگر کچھ پھٹے حال کم نصیب کم ظرف جنھیں اسی باغ کی چھاؤں ملی تھی اسی کی ندی سے انکے پرکھ بھی سیراب ہوے تھے اسی کے پھلوں نے انکے بڑوں کی بھوک مٹائی تھی

وہ کم نصیب کہتے ہیں وہ باغ تو باغباں کے جاتے ہی برباد ہو گیا تھا اسکے مالی امین سے غاصب بن گئے تھے اور اس باغ کو انہوں نے لوٹ لیا انکی تربیت تعلیم سب رائگاں گئے باغباں کو دھوکہ ہوا تھا انکو چننے میں

وہ کم ظرف کہتے ہیں اس باغ کی ندی خشک ہو گئی اسکی ریشمی گھانس صحرا کی ریت میں بدل گئی اسکے اشجار اجاڑ ہو گئے اسکے پھول کانٹے بن گئے وہاں اب خوش آواز پرندوں کی چہکار نہیں زہریلے سانپوں کی سرسراہٹ ہے وہاں کی بلبلیں دراصل چمگادڑیں ہیں .......

کیا کہتے ہو اس دردناک کہانی کو سننے والو .. !

سچ کیا ہے کچھ تو بولو کیوں تمہاری زبانیں گنگ ہیں وہ کونسی بصیرت ہے کہ جس نے تمہیں اندھا کر دیا وہ کونسی سماعت ہے جسنے تمہیں بہرا کر دیا وہ کونسا حق ہے جو تمھارے حلق میں اٹک گیا ہے

کہتے کیوں نہیں جھوٹ بولتے ہیں یہ کم ظرف کم نصیب احسان فراموش ،وہ باغ آج بھی ہرا ہے وہاں کے پھل ابھی تک میٹھے ہیں وہاں کے پھول اب بھی خوشبو دار ہیں اس ندی کا پانی ویسی ہی روانی سے بہتا ہے وہاں پرندے اب بھی چہچہاتے ہیں اسکے مالی تب بھی ایماندار تھے اور انکے وارث اب بھی وفادار ہیں اور وہ باغ جڑا ہے اک بڑے باغ سے یہاں کے دروازے وہاں کھلتے ہیں .....

کیونکہ اس پر اس باغبان اور اسکے مالک کی گواہی ہے ......


(وہ) گویا ایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے خدا نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے

حسیب احمد حسیب
 
Top