حاتم راجپوت
لائبریرین
میں بہت حساس بندہ ہوں۔۔ اتنا حساس شاید آج کل کی دنیا میں نہیں ہونا چاہئیے۔۔۔
بہت کچھ سنتا ہوں اور سن کر دماغ لرزتا ہے اور دل پھٹتا ہے۔۔
کچھ دن قبل ایک عورت نے بچوں سمیت ٹرین کے آگے چھلانگ لگا دی۔۔۔
ایک باپ نے اپنے دو بچوں کو قتل کر دیا۔۔
۔ایک آدمی نے اپنے بچوں کو راوی میں پھینک دیا۔۔
ایک عورت اپنی دو سال کی بچی کو بس میں چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔۔
کوئی پوچھے یار۔۔کوئی تو پوچھے۔۔۔!
ان سب کا جرم کیا تھا۔۔۔۔صرف غربت۔۔
کوئی سوچے تو ۔۔۔ بچوں کی انگلی تھامے وہ عورت جب ریل کی طرف جا رہی ہو گی تو بچوں کو کیا کہہ کر لائی ہوگی۔۔بھری آنکھوں سےکس چیز کا بہلاوا دیا ہو گا بچوں کو۔۔۔۔سخت گرمی میں بچوں کو کیسے بھوکے پیاسے لائی ہو گی کہ پاس کچھ نہ تھا کھانے کو۔۔۔۔کس کس طرح دل نہ پھٹا ہو گا اس کا۔۔ اپنے جگر کے ٹکروں کو آخری بار کتنا چوما ہو گا اس بے کس نے۔۔۔
اور۔۔۔بچوں کے ذہن میں کیا ہو گا۔۔۔بس یہ کہ ارد گرد کی چیزوں کو تجسس اور حیرانگی بھری آنکھوں سے دیکھتے چلے جا رہے ہوں گے اور سوچتے ہوں گے کہ ماں آج ہمیں کدھر لے کر جارہی ہے۔۔۔بھوک سے کرلاتے نہ ہوں گے کیا۔۔۔ یا شاید اسی امید پر کہ ماں شاید کھانا کھلانے لے کر جارہی ہے۔۔۔
اگر ان کے پاس کھانے کو کچھ ہوتا تو کیا یہ ماں ٹرین کے آگے کودتی۔۔۔!!
کوئی تو بتاؤ۔۔!!
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو باپ کو کتنی خوشی ہوتی ہے۔۔۔یہ ایک باپ ہی جان سکتا ہے۔۔
اس کی آنکھوں میں اپنے بچوں کے متعلق طرح طرح کے سپنے سجتے ہیں۔۔۔ عالم تصور میں انہیں افسر بنا دیکھتا ہے۔۔
ان کی ہر آسائش کے لئے دنیا بھر کا آرام خود پر حرام کرتا ہے۔۔۔ گدھوں کی طرح کام کرتا ہے۔۔
بچوں کی ایک کاپی کتاب کے لئے سارا سارا سال اوور ٹائم لگاتا ہے۔۔لیکن جب کاپی کتاب تو دور ۔۔کچھ کھانے کو بھی نہیں رہتا تو قرضے لیتا ہے۔۔انہیں اتارنے کیلئے اور قرضے لیتا ہے اور جب قرضے ملنے بند ہو جاتے ہیں ۔۔۔تو ہر طرح کا کام کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے۔۔۔ سبزی کی ریڑھی لگاتا ہے۔۔۔ چاٹ کا ٹھیلا لگاتا ہے۔۔
لیکن کھانے جوگا کچھ کما نہیں پاتا۔۔۔ شام کو گھر آ کے بیمار بیوی کا ستا ہوا چہرہ دیکھتا ہے۔۔۔ بچے بھوک سے کملائے ہوتے ہیں۔۔۔
اسے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔ تو کن کن خیالوں سے لڑتا ہے ۔۔۔کوئی تو سمجھے نا اس بات کو بھی۔
۔ بچوں کی پیدائش سے لے کر اب تک کی زندگی اس کی نگاہوں میں سے گزرتی ہے۔۔۔ بچوں کے ساتھ گزاری عیدیں۔۔ شبراتیں اسے بھی یاد آتی ہیں۔۔ بچوں کو دی ہوئی عیدی اور بچوں کے چہرے کی گزری خوشی اسے بھی تڑپاتی ہے۔۔ بچوں کو گود میں اٹھانا اسے بھی یاد آتا ہے ۔۔۔ لیکن وہ کیا کرے ۔۔۔ اسے کچھ نظر نہیں آتا آگے۔۔ بچے کھانے کی کمی سے لاغر ہیں۔۔ شاید ایسے ہی کسی دن مر جائیں ۔۔۔ تو اتنا سسکانا کیوں بچوں کو۔۔۔ ایک ہی دفعہ مار دو اور خود بھی مر جاؤ کہ آگے بھی تو سسک سسک کر مرنا ہے۔۔
انہی جذبات میں وہ کمرے سے باہر نکلتا ہے اور بچوں کو چومتا ہے اور ایک آخری حسرت بھری نگاہ سے انہیں دیکھتا ہے۔۔۔
پھر کیا باپ سنگدل تھا۔۔۔ کوئی بتاؤ یار۔۔ کوئی تو بتا دو۔۔!!
ماں کو اپنی اولاد سے بہت پیار ہوتا ہے۔۔۔ خود بھوکی رہ لیتی ہے لیکن اولاد کا بھوکا رہنا اسے گوارا نہیں۔۔۔ خود بیماری سے تڑپتی رہے گی لیکن بچہ بیمار ہوگا تو ہر جتن کر کے دوا لے آئے گی۔۔ بچہ بستر گیلا کر دے تو خود گیلی جگہ پر لیٹ جائے گی لیکن اپنے لال کو خشک جگہ پر کر دے گی کہ کہیں اسے سردی نہ لگے۔۔ کہیں یہ بیمار نہ ہو جائے کہ میری جان ہے اس میں۔۔۔ بچہ بیمار ہو گا تو اس کی ایک آہ سے ماں کی جان نکلے گی۔۔
تو۔۔۔ بچے کی ایک آہ پر تڑپ تڑپ جانے والی جب اپنی دو سالہ بچی کو بس میں چھوڑ جاتی ہے تو اس کے جذبات کیا ہوتے ہیں۔۔کبھی کسی نے سوچا۔۔!
کس حوصلے سے وہ گھر سے نکلی ہو گی۔۔۔ کیا اس کے دل کے پرخچے نہ ہو گئے ہوں گے۔۔ کیا بس میں بیٹھے اس کے خاموش آنسو اس کے دوپٹے میں جذب نہ ہوئے ہوں گے۔ بچی کو چوم چوم کر پریشان کیا ہو گا نا اس نے ۔۔۔ بس سے کس دل سے اتری ہو گی وہ۔۔!!
کوئی تو مجھے بتائے۔۔۔!!
بس کو جاتے کب تک دیکھا ہو گا اس نے۔۔۔!!
”ہائے ۔۔ بچی رو نہ رہی ہو۔۔ اسے بھوک لگی ہو گی۔۔۔ اکیلی ہے ۔۔ کوئی چوٹ تو نہ لگے گی اسے۔۔۔“
کس کس طرح نہ ٹوٹی ہو گی وہ ماں۔۔۔!!
کیا دل میں ہوک نہ اٹھی ہو گی۔۔۔۔”ہائے میری بچی۔۔۔ رو رہی ہو گی۔۔ کوئی تو پکڑ لو اسے۔۔۔ “
دوپٹہ منہ میں دئیے جگر پاش پاش نہ ہوا ہو گا اس کا۔۔۔!!
آنکھوں سے بھل بھل آنسو نہ بہے ہوں گے کیا۔۔۔!!
اس کے پاس کچھ تھا کیا اپنی بچی کو کھلانے کو۔۔۔!!
گر ہوتا تو ایسے الگ کرتی کیا اپنے جگر کے ٹکڑے کو۔۔۔۔!!
کوئی تو بتا دو۔۔۔
کہ مجھے اب کھانا کھاتے خود سے گھن کیوں آتی ہے۔۔۔!!
بہت کچھ سنتا ہوں اور سن کر دماغ لرزتا ہے اور دل پھٹتا ہے۔۔
کچھ دن قبل ایک عورت نے بچوں سمیت ٹرین کے آگے چھلانگ لگا دی۔۔۔
ایک باپ نے اپنے دو بچوں کو قتل کر دیا۔۔
۔ایک آدمی نے اپنے بچوں کو راوی میں پھینک دیا۔۔
ایک عورت اپنی دو سال کی بچی کو بس میں چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔۔
کوئی پوچھے یار۔۔کوئی تو پوچھے۔۔۔!
ان سب کا جرم کیا تھا۔۔۔۔صرف غربت۔۔
کوئی سوچے تو ۔۔۔ بچوں کی انگلی تھامے وہ عورت جب ریل کی طرف جا رہی ہو گی تو بچوں کو کیا کہہ کر لائی ہوگی۔۔بھری آنکھوں سےکس چیز کا بہلاوا دیا ہو گا بچوں کو۔۔۔۔سخت گرمی میں بچوں کو کیسے بھوکے پیاسے لائی ہو گی کہ پاس کچھ نہ تھا کھانے کو۔۔۔۔کس کس طرح دل نہ پھٹا ہو گا اس کا۔۔ اپنے جگر کے ٹکروں کو آخری بار کتنا چوما ہو گا اس بے کس نے۔۔۔
اور۔۔۔بچوں کے ذہن میں کیا ہو گا۔۔۔بس یہ کہ ارد گرد کی چیزوں کو تجسس اور حیرانگی بھری آنکھوں سے دیکھتے چلے جا رہے ہوں گے اور سوچتے ہوں گے کہ ماں آج ہمیں کدھر لے کر جارہی ہے۔۔۔بھوک سے کرلاتے نہ ہوں گے کیا۔۔۔ یا شاید اسی امید پر کہ ماں شاید کھانا کھلانے لے کر جارہی ہے۔۔۔
اگر ان کے پاس کھانے کو کچھ ہوتا تو کیا یہ ماں ٹرین کے آگے کودتی۔۔۔!!
کوئی تو بتاؤ۔۔!!
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو باپ کو کتنی خوشی ہوتی ہے۔۔۔یہ ایک باپ ہی جان سکتا ہے۔۔
اس کی آنکھوں میں اپنے بچوں کے متعلق طرح طرح کے سپنے سجتے ہیں۔۔۔ عالم تصور میں انہیں افسر بنا دیکھتا ہے۔۔
ان کی ہر آسائش کے لئے دنیا بھر کا آرام خود پر حرام کرتا ہے۔۔۔ گدھوں کی طرح کام کرتا ہے۔۔
بچوں کی ایک کاپی کتاب کے لئے سارا سارا سال اوور ٹائم لگاتا ہے۔۔لیکن جب کاپی کتاب تو دور ۔۔کچھ کھانے کو بھی نہیں رہتا تو قرضے لیتا ہے۔۔انہیں اتارنے کیلئے اور قرضے لیتا ہے اور جب قرضے ملنے بند ہو جاتے ہیں ۔۔۔تو ہر طرح کا کام کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے۔۔۔ سبزی کی ریڑھی لگاتا ہے۔۔۔ چاٹ کا ٹھیلا لگاتا ہے۔۔
لیکن کھانے جوگا کچھ کما نہیں پاتا۔۔۔ شام کو گھر آ کے بیمار بیوی کا ستا ہوا چہرہ دیکھتا ہے۔۔۔ بچے بھوک سے کملائے ہوتے ہیں۔۔۔
اسے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔ تو کن کن خیالوں سے لڑتا ہے ۔۔۔کوئی تو سمجھے نا اس بات کو بھی۔
۔ بچوں کی پیدائش سے لے کر اب تک کی زندگی اس کی نگاہوں میں سے گزرتی ہے۔۔۔ بچوں کے ساتھ گزاری عیدیں۔۔ شبراتیں اسے بھی یاد آتی ہیں۔۔ بچوں کو دی ہوئی عیدی اور بچوں کے چہرے کی گزری خوشی اسے بھی تڑپاتی ہے۔۔ بچوں کو گود میں اٹھانا اسے بھی یاد آتا ہے ۔۔۔ لیکن وہ کیا کرے ۔۔۔ اسے کچھ نظر نہیں آتا آگے۔۔ بچے کھانے کی کمی سے لاغر ہیں۔۔ شاید ایسے ہی کسی دن مر جائیں ۔۔۔ تو اتنا سسکانا کیوں بچوں کو۔۔۔ ایک ہی دفعہ مار دو اور خود بھی مر جاؤ کہ آگے بھی تو سسک سسک کر مرنا ہے۔۔
انہی جذبات میں وہ کمرے سے باہر نکلتا ہے اور بچوں کو چومتا ہے اور ایک آخری حسرت بھری نگاہ سے انہیں دیکھتا ہے۔۔۔
پھر کیا باپ سنگدل تھا۔۔۔ کوئی بتاؤ یار۔۔ کوئی تو بتا دو۔۔!!
ماں کو اپنی اولاد سے بہت پیار ہوتا ہے۔۔۔ خود بھوکی رہ لیتی ہے لیکن اولاد کا بھوکا رہنا اسے گوارا نہیں۔۔۔ خود بیماری سے تڑپتی رہے گی لیکن بچہ بیمار ہوگا تو ہر جتن کر کے دوا لے آئے گی۔۔ بچہ بستر گیلا کر دے تو خود گیلی جگہ پر لیٹ جائے گی لیکن اپنے لال کو خشک جگہ پر کر دے گی کہ کہیں اسے سردی نہ لگے۔۔ کہیں یہ بیمار نہ ہو جائے کہ میری جان ہے اس میں۔۔۔ بچہ بیمار ہو گا تو اس کی ایک آہ سے ماں کی جان نکلے گی۔۔
تو۔۔۔ بچے کی ایک آہ پر تڑپ تڑپ جانے والی جب اپنی دو سالہ بچی کو بس میں چھوڑ جاتی ہے تو اس کے جذبات کیا ہوتے ہیں۔۔کبھی کسی نے سوچا۔۔!
کس حوصلے سے وہ گھر سے نکلی ہو گی۔۔۔ کیا اس کے دل کے پرخچے نہ ہو گئے ہوں گے۔۔ کیا بس میں بیٹھے اس کے خاموش آنسو اس کے دوپٹے میں جذب نہ ہوئے ہوں گے۔ بچی کو چوم چوم کر پریشان کیا ہو گا نا اس نے ۔۔۔ بس سے کس دل سے اتری ہو گی وہ۔۔!!
کوئی تو مجھے بتائے۔۔۔!!
بس کو جاتے کب تک دیکھا ہو گا اس نے۔۔۔!!
”ہائے ۔۔ بچی رو نہ رہی ہو۔۔ اسے بھوک لگی ہو گی۔۔۔ اکیلی ہے ۔۔ کوئی چوٹ تو نہ لگے گی اسے۔۔۔“
کس کس طرح نہ ٹوٹی ہو گی وہ ماں۔۔۔!!
کیا دل میں ہوک نہ اٹھی ہو گی۔۔۔۔”ہائے میری بچی۔۔۔ رو رہی ہو گی۔۔ کوئی تو پکڑ لو اسے۔۔۔ “
دوپٹہ منہ میں دئیے جگر پاش پاش نہ ہوا ہو گا اس کا۔۔۔!!
آنکھوں سے بھل بھل آنسو نہ بہے ہوں گے کیا۔۔۔!!
اس کے پاس کچھ تھا کیا اپنی بچی کو کھلانے کو۔۔۔!!
گر ہوتا تو ایسے الگ کرتی کیا اپنے جگر کے ٹکڑے کو۔۔۔۔!!
کوئی تو بتا دو۔۔۔
کہ مجھے اب کھانا کھاتے خود سے گھن کیوں آتی ہے۔۔۔!!